ولیمہ سنت ہے اور شرعاً اس کی ترغیب دلائی گئی ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل بھی ہے اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب شادی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے فرمایا تھا۔
"أولم ولو بشاة""ولیمہ کرو خواہ ایک بکری کے ساتھ ہی۔( بخاری 5167۔کتاب النکاح باب الولیمہ ولوبشاۃ مسلم 1427۔کتاب النکاح باب الصداق و جواز کونہ تعلیم قرآن و خاتم حدید ابو داؤد 2109۔کتاب النکاح باب قللۃ المہرترمذی 1094۔کتاب النکاح باب ماجاء الولیمہ ابن ماجہ فی ولیمہ ابن ماجاء 1907کتاب النکاح باب الولیمہ نسائی 119/6۔مؤطا 545/2)
حسب حال اور حسب ضرورت اس کی مقدار میں کمی بیشی ہوگی۔ اس کی کم از کم مقدار کی بھی کوئی حد نہیں کیونکہ یہ ثابت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی پر اس قدر ولیمہ نہیں کیا جو زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر کیا۔(اس میں)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری کے ساتھ ولیمہ کیا۔"( بخاری 5168کتاب النکاح باب الولیمہ ولوبشاۃ مسلم 1428کتاب النکاح باب زواج زینب بنت جحش و نزول الحجاب واثبات ولیمہ العرس ابو داؤد 3743۔کتاب الاطعمہ باب فی استحباب الولیمہ عندالنکاح ترمذی 3218۔تفسیر القرآن باب و من سوۃ الاحزاب ابن ماجہ 1908۔کتاب النکاح باب الولیمہ نسائی 3251)
اور حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثابت ہے کہ انھوں نے فرمایا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کا ولیمہ دو مد (تقریباًسواسیر) جو کے ساتھ کیا۔"( بخاری 5172کتاب النکاح باب من اولمہ بافل من شاۃ)
اور اس بیوی سے مراد حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں جیسا کہ مسند احمد کی ایک صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے۔
اور اسی طرح اس کی زیادہ سے زیادہ کی بھی کوئی حد نہیں البتہ مسلمان پر غناو فقر اور مدعوین کی کثرت و قلت کے لحاظ سے اعتدال واجب ہے اور اسے کھانے میں اسراف (یعنی کھانے کا ضیاع وغیرہ ) نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اسراف حرام ہے بلکہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔