سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(116) تہجد اور سحری کی اذان

  • 1572
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1842

سوال

(116) تہجد اور سحری کی اذان

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہماری جماعت کے لوگ بعض جگہ سحری کی اذان کہتے ہیں کئی لوگ اس اذان کو تہجد کی اذان کہتے ہیں کیا یہ اذان تہجد کے لیے دی جاتی ہے یا لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے کہی جاتی تھی کہ ابھی سحری کا وقت ختم ہونے والا ہے کیونکہ حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک اذان ختم ہوئی تو جلد ہی دوسری اذان ہوتی تھی ہمارے ہاں تو گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ سحری کی اذان پہلے کہی جاتی ہے اور پھر صبح کی اذان ہوتی ہے ۔ وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

فجر سے پہلے جو اذان کہی جاتی ہے اس کا نام کوئی تو سحری کی اذان رکھ لیتا ہے اور کوئی تہجد کی اذان جہاں تک مجھے معلوم ہے حدیث شریف میں اس کا کوئی خاص نام وارد نہیں ہوا البتہ صحیحین اور دیگر کتب حدیث میں ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا : بلال رضی اللہ عنہ رات کو اذان کہتا ہے الخ پھر اس اذان کی غرض بیان کرتے ہوئے رسول اللہﷺ نے فرمایا : تاکہ وہ تمہارے سونے والے کو جگائے اور تمہارے قیام کرنے والے کو لوٹائے …(صحیح بخاری۔ الاذان۔ باب الأذان قبل الفجر)الخ ۔

صحیحین اور دیگر کتب حدیث میں موجود عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک مؤذن کے اترنے اور دوسرے کے چڑھنے والی بات کا وہ مقصود نہیں جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں آپﷺ کا بیان ہے بلال رات کو اذان کہتا ہے پس تم کھائو اور پیو حتی کہ ابن ام مکتوم اذان کہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ابن ام مکتوم نابینے تھے اذان نہ کہتے جہاں تک کہ ان سے کہا جاتا آپ نے صبح کر دی آپ نے صبح کر دی۔

تو رسول اللہﷺ کے اس فرمان اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ دونوں اذانوں کے درمیان اترنے چڑھنے کے وقت سے زیادہ وقفہ ہوتا تھا باقی اس وقفے کی تحدید منٹوں میں کہیں نہیں آئی ۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

نماز کا بیان ج1ص 115

محدث فتویٰ

 

تبصرے