سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(164) لڑکی کسی کو پسند کرتی ہے مگر والد اس سے شادی نہیں کرنے دیتا

  • 15682
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1094

سوال

(164) لڑکی کسی کو پسند کرتی ہے مگر والد اس سے شادی نہیں کرنے دیتا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض والی لڑکی کو ا پنے کفو شخص سے شادی نہیں کرنے دیتے اس کا کیاحکم ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ مسئلہ بہت ہی عظیم ہے اور بہت ہی بڑی مشکل ہے،اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے بعض مرد تو اللہ تعالیٰ کی خیانت کرتے ہیں اور ا پنی امانتوں کی بھی خیانت کرتے ہیں اور اپنی لڑکیوں پر  ظلم کرتے ہیں۔ولی کے ذمہ واجب تو یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کو راضی کرنے والے اعمال کرے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

"اپنے میں سے  بے نکاح عورتوں کی شادی کرو ورا پنے نیک اور صالح غلاموں اور لونڈیوں کی بھی شادی کردو۔"(النور:32)

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے کہ:

"جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کادین اور اخلاق تم پسند کرتے ہوتو اس سے نکاح کردو۔اگر تم ایسا نہ کروگے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑافساد ہوگا۔"( حسن  ارواء الغلیل(1968)  ترمذی(1084) کتاب النکاح باب ماجاء اذااحدکم من ترضون دینہ فزوجوہ ابن ماجہ(1967) کتاب النکاح باب الا کفاء۔)

لیکن کاش ہم اس حد تک نہ پہنچیں کہ جس  میں لڑکی اس بات کی جرائت کرے کہ جب اس کا والد اسے ایسے شخص سے شادی نہ کرنے دے جو دینی اور اخلاقی لحاظ سے اس کا کفو ہوتو وہ قاضی سے جا کر شکایت کرے اور قاضی اس کے والد سے کہے کہ اس کی شادی فلاں شخص سے کردو ورنہ میں کرتا ہوں یا پھر کوئی اور ولی کردے گا۔اس لیے کہ لڑکی کو حق حاصل ہے کہ جب اس کا والد اسے شادی نہ کرنے دے تو وہ قاضی سے شکایت کردے اور یہ اس کا شرعی حق ہے۔کاش ہم اس حد تک نہ پہنچیں لیکن اکثر لڑکیاں شرم  وحیاء کی وجہ سے ایسا نہیں کرتیں۔

والد کو نصیحت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے بیٹی کو شادی سے نہ روکے۔کیونکہ جس بیٹی کو شادی سے روک رہاہے روز قیامت وہ اس کے خلاف دعویٰ دائر کرے گی جس دن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

"جس دن مرد اپنے بھائی اپنی والدہ اپنے والد اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے بھی دور بھاگے کا اور ہر ایک شخص کے لیے اس دن ایسے ایسی فکر دامن گیر ہوگی جو اس کے لیے کافی ہوگی۔"(عبس:37)

اس لیے اولیاء کو چاہیے خواہ والدین ہوں یابھائی کہ وہ اللہ تعالیٰ کا  خوف کھاتے ہوئے انہیں شادی کرن سے نہ  روکیں ان کاحق ہے کہ جس کا دین اور اخلاق اچھا ہو اس کے ساتھ ان کی شادی کردی جائے۔البتہ اتناضرور ہے کہ اگر لڑکی ایسا لڑکا اختیار کرے جو دینی اور اخلاقی طور پر بہتر نہیں تو پھر ولی کو یہ حق  حاصل ہے کہ اس سے شادی نہ کرنے دے اور اسے اس سے روک دے۔لیکن اگر لڑکی دینی اور اخلاقی لحاظ سے اچھے شخص کو اختیار کرتی ہے اور پھر اس کا ولی صرف اپنے نفس کی خواہش  پر عمل کرتے ہوئے اس سے شادی نہیں کرنے دیتا تو اللہ کی قسم!یہ حرام ہے اور پھر حرام ہی نہیں بلکہ خیانت اور گناہ بھی ہے۔ایسا کرنے سے جو بھی فتنہ وفساد پیدا ہوگا وہ ہی اس کا ذمہ دار ہوگا اور اس کا گناہ بھی اسی کے سر ہوگا۔(شیخ ابن عثمین  رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص235

محدث فتویٰ

تبصرے