سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(160) ہم بستری کے علاوہ کسی اور طریقے سے منگیتر سے لذت اٹھانا

  • 15678
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1148

سوال

(160) ہم بستری کے علاوہ کسی اور طریقے سے منگیتر سے لذت اٹھانا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شادی سے قبل جب میری اپنے خاوند سے منگنی ہوئی تھی تو منگنی کے دوران ہماری عادت تھی کہ ہم ایک دوسرے سے ملتے اور ایک دوسرے کابوسہ بھی لیتے اور کچھ دوسرے افعال  بھی کرتے لیکن ہم نے ہم بستری نہیں کی،پھر ہم نے شادی کرلی،شادی کے بعد میں نے سورہ نور میں پڑھا کہ زانی ایک دوسرے سے شادی نہیں کرسکتے تو اب میری شادی کا حکم کیا ہے جبکہ شادی کوآٹھ برس گزر چکے ہیں؟

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں پاکستان میں بعض لوگ شادی کے کچھ عرصہ بعد بغیر کسی شرعی سبب کے تجدید نکاح کرتے ہیں تو کیا جب عقد نکاح صحیح ہوچکا ہوتو نکاح کی تجدید جائز ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح عقد نکاح کی صرف وہم شک کی بنا پر تجدید کرنا جائز نہیں،لیکن سوال کے شروع میں جو ذ کر ہے کہ منگنی کے عرصہ میں منگیتر ایک دوسرے کا بوسہ لینا،تو اس کے متعلق یہ ہے کہ اگر یہ عمل عقد نکاح سے قبل ہواہے کہ تو یہ حرام ہے اور اسی طرح منگیتر کے ہاتھ سے مشت زنی یا خوش طبعی وغیرہ کرنا بھی حرام ہے اور اگر یہ عقد نکاح کے بعد ہوا ہے کہ تو پھر بوسہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔

رہا مسئلہ زانی کا ایک دوسرے سے شادی کرناتو اس کے متعلق یہ ہے کہ دونوں کے زنا سے توبہ کرنے اور لڑکی کی عدت پوری ہونے کے بعد شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

"خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور پاکباز عورتیں  پاکباز مردوں کے لیے ہیں۔"(النور:26)

زنا سے توبہ کرنا توایک حتمی چیزہے کہ وہ دونوں اس سے توبہ کریں لیکن عقد زواج تو صرف عدت  پوری ہونے کے بعد ہی ہوسکتا ہے تاکہ اس کےرحم کی زنا کے حمل سے برائت ثابت ہوجائے اگر یہ یقین ہوجائے کہ حمل نہیں ہے تو پھر ایک دوسرے سے شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

سوال میں جو آپ نے اپنی حالت بیان کی ہے اس میں تجدید نکاح کی ضرورت نہیں،لیکن آپ دونوں پر لازم ہے کہ آپ نے نکاح سے قبل منگنی کی حالت میں جو کچھ حرام افعال کا ارتکاب کیاہے اس سے توبہ کریں۔(شیخ محمد المنجد)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص229

محدث فتویٰ

تبصرے