سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(112) کیا سسر کی بیوی محرم ہے؟

  • 15630
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1331

سوال

(112) کیا سسر کی بیوی محرم ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا میرے سسر کی بیوی میری محرمات میں شمار ہوگی؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے سسر کی(دوسری ) بیوی آپ کی محرمات میں شمار  نہیں ہوگی کیونکہ وہ آپ کی بیوی کی والدہ نہیں۔اس لیے آپ اس سے شادی کرسکتے ہیں کیونکہ بغیر کسی دلیل کے تحریم ثابت نہیں ہوتی اور اس کی حرمت کی کوئی دلیل موجود نہیں۔بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے عورتوں میں سے حرام کردہ عورتوں کا ذکر کیا تو اس کے بعد  فرمایا:

"اور ان کے علاوہ تمہارے لیے حلال ہیں۔" النساء۔24

یہی نہیں بلکہ اکثر علماء کے نزدیک تو واضح طور پر سسر کی بیوی اور عورت دونوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا جائز ہے(یعنی بیوی کی والدہ کے علاوہ اس کے والد کی دوسری بیوی کو جسے وہ طلاق دے چکا ہو)۔

امام ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں:

مرد کی بیوی اور اس کی دوسری بیوی کی بیٹی دونوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا اکثر علماء کے نزدیک جائز ہے۔البتہ بعض سلف نے سے ناپسند کیا ہے۔ جامع العلوم والحکم (ص/411)

امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  کہتے ہیں:

جب کوئی شخص کسی عورت اور اس کے والد کے بیوی سے شادی کرے تو یہ عمل امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے نزدیک جائز ہے  ۔ہمیں عبداللہ بن جعفر  رحمۃ اللہ علیہ  سے اسی طرح کی روایت   پہنچی ہے کہ انہوں ن ایسا ہی کیا تھا۔

مزید فرماتے ہیں:

کسی شخص کی بیوی اور اس کی کسی اور بیوی سے بیٹی دونوں کو جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مزید دیکھئے الامام الشافعی(7/155)

امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

مرد کے لیے جائز  ہے کہ وہ عورت اور اس کے والد کی(دوسری) بیوی اور اسی طرح اس کے بیٹے کی بیوی اور اس کی چچازاد کو جمع کرے کیونکہ اس کی  تحریم میں کوئی نص نہیں۔

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  ،امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  ،امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،اور ابو سلیمان رحمۃ اللہ علیہ  کا بھی یہی قول ہے۔ المحلی(9۔523)

امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

اس میں کوئی حرج نہیں کہ کسی شخص کی بیوی اور اس کی کسی اور بیوی سے بیٹی کو نکاح میں جمع کرلیا جائے۔اکثر اہل علم کے نزدیک بیوی اور اس(یعنی بیوی) کی ربیبہ کو نکاح  میں جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔عبداللہ بن جعفر اور صفوان بن امیہ نے ایسا کیا اور حسن رحمۃ اللہ علیہ ،عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ ،اوراب ابی لیلیٰ رحمۃ اللہ علیہ  کے علاوہ سب فقہائے کرام کا یہی کہنا ہے صرف ان سے کراہت منقول ہے وہ(یعنی مکروہ کہنے والے) یہ کہتے ہیں کہ ان دونوں  میں سے اگر ایک مذکور ہوتا تو اس پردوسری حرام ہوجاتی،اس طرح یہ عورت اور اس کی  پھوپھی کے مشابہ ہوئی۔لیکن ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

"اور اس کے علاوہ باقی عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں۔" النساء۔24

اور اس لیے بھی(ایسا کرنا جائز  ہے) کہ ان دونوں کے درمیان کوئی قرابت اور رشتہ داری نہیں،اس طرح دونوں یہ اجنبیوں کے مشابہ ہوئیں اور اس لیے بھی کہ جمع اس لیے حرام کیاگیا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے دو قریبی نسبی  رشتہ دار عورتوں کے درمیان قطع رحمی کاخدشہ ہوتا ہے اور ان دونوں کے درمیان تو کوئی قرابت داری ہی نہیں تو اس سے مکروہ کہنے والوں کی اور ہماری بات کا  فرق واضح ہوجاتا ہے۔ المغنی لابن قدامہ(7/98)

لہذا ثابت ہواکہ آپ کی بیوی کے والد کی بیوی(جو آپ کی بیوی کی والدہ نہیں)آپ کی محرمات میں شامل نہیں ہوگی۔بلکہ وہ آپ کے لیے اجنبی ہے آپ اس سے نہ تو مصافحہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی آپ کے لیے اس سے خلوت اور اس کے ساتھ سفر کرنا جائز ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

ص172

محدث فتویٰ

تبصرے