سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(90)اگر کوئی شادی کے بعد مقرر ہ مدت تک طلاق دینے کی نیت سے نکاح کرے؟

  • 15598
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1349

سوال

(90)اگر کوئی شادی کے بعد مقرر ہ مدت تک طلاق دینے کی نیت سے نکاح کرے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں بیرون ملک پڑھائی کی غرض سے سفر کررہا ہوں تو کیا میرے لیے انہیں (یعنی لڑکی اور اس کے والدین کو) بتائے بغیر واپسی پر طلاق دے دینے کی نیت سے وہاں شادی کرنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی حرج نہیں کہ اگر انسان سفر کی جگہ میں شادی کر لے اور اس کی نیت ہو کہ وہ واپسی پر اسے طلاق دے دے گا جمہوراہل علم اسی کے قائل ہیں بعض علماء نے اس مسئلے میں توقف سے کام لیا ہے اور اس بات سے ڈر ے ہیں کہ کہیں یہ متعہ کی قسم ہی نہ ہو لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ نکاح متعہ میں معلوم مدت کی شرط لگائی جاتی ہے کہ وہ فلاں عورت سے شادی کرے گا اور پھر ایک ماہ یا دو ماہ بعد اسے طلاق دے گا اور پھر ان کے درمیان کوئی نکاح نہیں ہو گا۔ جبکہ مطلق شادی میں ایسی کوئی شرط نہیں ہوتی البتہ صرف نیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہر کی طرف واپس جاتے وقت اسے طلاق دے دے گا اس لیے یہ متعہ نہیں اور اس لیے بھی کہ اس صورت میں بعض اوقات وہ عورت کو طلاق دے دیتا ہے اور بعض اوقات اس میں رغبت رکھتا ہے(اور اسے طلاق نہیں دیتا) لہٰذا جمہور اہل علم کی رائے کے مطابق صحیح یہی ہے کہ یہ متعہ نہیں اور بعض اوقات لوگ اس کے محتاج بھی ہوتے ہیں وہ اس طرح انسان کبھی اپنے نفس پر کسی فتنہ (زنا وغیرہ )میں مبتلا ہو جانے سے خائف ہو تا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے کوئی مناسب عورت میسر فرما دیتا ہے اور وہ اس سے شادی کرلیتا ہے لیکن اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ جب اس کا (اپنے ملک) واپسی کا ارادہ ہو گا تو وہ اسے طلاق دے دے گا کیونکہ وہ اس کے ملک کے لیے موزوں نہیں یا کسی اور وجہ سے تویہ چیز صحت نکاح میں کو ئی رکاوٹ نہیں اور اس لیے بھی کہ یہ نیت بعض اوقات بعد میں تبدیل بھی ہو جاتی ہے وہ اس طرح کہ مرد عورت میں رغبت رکھتا ہے اور اسے بھی اپنے ملک ساتھ ہی لے جا تا ہے اور اس کی نیت اسے کوئی نقصان نہیں دیتی۔ اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے۔(شیخ ابن باز)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 152

محدث فتویٰ

تبصرے