سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(307) کسی غیر مسلم کی حاجت پوری کرنا

  • 15552
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 640

سوال

(307) کسی غیر مسلم کی حاجت پوری کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا کوئی مسلمان کسی غیر مسلم  کی حاجت پوری کرکے اس کا بھائی بن جاتا ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کوئی مسلمان مرد کسی غیر حربی کافر کی مددکرتا ہے تووہ اس کا بھائی نہیں بن جاتااورنہ وہ مددکرنے والی کسی مسلم خاتون کا محرم ہی بنتا ہے ہاں البتہ اس احسان کی وجہ سے اسے اجروثواب ضرورملے گاخواہ کافر ہی سے احسان وحسن سلوک کا معاملہ ہو،ارشادباری تعالی ہے:

﴿وَأَحسِنوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُحسِنينَ ﴿١٩٥﴾... سورة البقرة

‘‘اورنیکی کرو،بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔’’

نیزفرمایا:

﴿لا يَنهىٰكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذينَ لَم يُقـٰتِلوكُم فِى الدّينِ وَلَم يُخرِ‌جوكُم مِن دِيـٰرِ‌كُم أَن تَبَرّ‌وهُم وَتُقسِطوا إِلَيهِم إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ ﴿٨﴾... سورة الممتحنة

‘‘جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اورنہ تم کو تمہارے گھروں  سے نکالا،ان کے ساتھ بھلائی اورانصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا۔اللہ توانصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔’’

اورنبی کریمﷺنےجویہ فرمایاہےکہ‘‘اللہ تعالی اپنے بندے کی مدد میں ہوتا ہے،جب بندہ اپنے کسی بھائی کی مددمیں ہوتا ہے ۔’’یاآپؐ نےجویہ فرمایاہے‘‘جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کو پورا کرے تواللہ تعالی اس کی ضرورت کو پورافرمائے گا۔’’توان دونوں احادیث کا تعلق مسلمانوں سے ہے اورکافروں کے  ساتھ حسن سلوک کے بارے میں صحیحین میں حضرت اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے انہیں اپنی ماں سے صلہ رحمی کی اجازت دی جب کہ وہ کافرہ تھی اوریہ اس معاہد ہ کے وقت کی بات ہے جو نبی کریمﷺاوراہل  مکہ کے مابین طے پایاتھا،یادرہے حربی کافروں کی کسی قسم کی مددکرنا جائز نہیں کیونکہ ان کی مددکرنے سے انسان دائرہ اسلام سے ہی خارج ہوجاتا ہے کہ ارشادباری تعالی ہے:

﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِنكُم فَإِنَّهُ مِنهُم ... ﴿٥١﴾... سورة المائدة
‘‘اورجوشخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا،وہ بھی انہی میں سے ہوگا۔’’
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مقالات و فتاویٰ

ص423

محدث فتویٰ

تبصرے