سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(52)قبول اسلام کی رغبت رکھنے والی ہندو لڑکی سے شادی کا حکم

  • 15514
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1288

سوال

(52)قبول اسلام کی رغبت رکھنے والی ہندو لڑکی سے شادی کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک  چوبیس سالہ امریکی مسلمان ہوں تقریباً چھ برس سے ایک ہندو لڑکی کو جانتاہوں۔ہم شادی کرنا چاہتے ہیں وہ چاہتی ہے کہ ابھی مزید اسلامی تعلیمات حاصل کرے اور زیادہ سے زیادہ اسلام کی معرفت اور ایمان قوی ہوجانے کے بعد اسلام قبول کرے۔اس کی فیملی شروع میں تو مترود تھی۔لیکن اب انہیں اس میں کوئی مانع نہیں کیونکہ وہ یہی چاہتے ہیں۔البتہ میرے خاندان والے اس موضوع میں خدشات کا شکار ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ  اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا نام اسلامی رکھے۔

اور  پھر وہ والدین کی اکیلی بیٹی ہے،وہ اسلامی نکاح کرنے کے ساتھ ساتھ یہ چاہتی ہے کہ ہندو طریقہ پر نکاح ہونا چاہیے وہ اس پر راضی   ہے کہ ہندو طریقہ پر نکاح کرنے میں جو دینی اشیاء ہیں وہ ہم نہیں کریں گے بلکہ ہم صرف رسم ورواج ہی کریں گے،میں تو اس پر رضا مند ہوں لیکن میرے والدین مطلقاً اس پر رضا مند نہیں۔ وہ لڑکی اسلامی تعلیمات سیکھنے کی رغبت رکھتی ہے لیکن میرے والدین کی وجہ سے پریشان ہے کیونکہ وہ ایک اپنی ہی فکر رکھتے ہیں اور اس کی حالت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے،میری گزارش یہ ہے کہ آپ کو ئی مشورہ دیں اور نصیحت کریں۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اولاً آپ کو یہ علم ہونا چاہیے کہ کسی بھی مسلمان شخص کے لیے غیر مسلم عورت سے شادی کرنا جائز نہیں،صرف اتنا ہے کہ اگر عورت اہل کتاب میں سے ہو تو اس سے کچھ شروط کے ساتھ شادی کی جاسکتی ہے۔اور اگر وہ لڑکی اسلام قبول کرلے تو آ پ کے اس قبو ل اسلام کے بعد اس سے شادی کرسکتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ آ پ یہ کوشش کریں کہ شادی آپ کے والدین کی رضا مندی اور خوشی سے ہو اس لیے کہ آپ کی ازدواجی زندگی میں والدین کی رضا مندی اورخوشی کا بہت زیادہ اثر ہوگا اور پھر ان کی رضا مندی اور خوشی تو انسان کے لیے ایسی نیکی ہے جس پر اسے اجر وثواب بھی حاصل ہوتا ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ نام تبدی کرنے کے بارے میں شیخ ابن عثمین  رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے:

نام تبدیل کرنا ضروری نہیں ۔ہاں اگر اس میں کوئی شرعی ممانعت ہو اور شرعی طور پر وہ برقرار نہیں رکھاجاسکتا تو  پھر بدلنا ضروری ہے۔مثلاً نام کسی غیر اللہ کی عبودیت پر ہو(جیسے عبد شمس وغیرہ) تو ایسے نام کو بدلنا ضروری ہے،اور اسی طرح اگر کوئی نام کفار کے ساتھ ہی خاص   ہوکہ کفار کے علاوہ کوئی اور یہ نام نہ رکھتا ہو تو اس کابدلنا بھی واجب ہے۔ تاکہ کفار سے مشابہت نہ ہو اور وہ اس کفار کے ساتھ خاص نام کی طرف نہ جھکے یا پھر اسے اس تہمت کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ ابھی تک اس نے اسلام ہی قبول نہیں کیا۔[1]

اور جب اس کے نام کی تبدیلی ہی آپ کے والدین کو راضی کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ آپ اس لڑکی کو نام بدلنے  پر راضی کریں تاکہ آپ کے والدین راضی ہوجائیں۔

چوتھی بات یہ ہے کہ آپ  اس کے لیے استخارہ ضروری کریں تاکہ اللہ تعالیٰ آ پ کے لیے وہ چیز اختیار کرے جو آپ کے لیے دنیا وآخرت میں بہتر ہو۔ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کو اپنی رضا اور محبت والے کام کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے لیے ہماری بیویوں اور اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔


[1] ۔دیکھیں الاجابات علی اسئلۃ الحالیات (ص/4۔5)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 105

محدث فتویٰ

تبصرے