میں ایک بہت ہی فاضل شخص سے محبت کرنے لگی ہوں لیکن اس کے گھر والے مجھے پسند نہیں کرتے،جس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ میں پہلے سےشادی شدہ ہوں اور میری ایک بچی بھی ہے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ میں نے انہیں اپنے ایک بہت ہی بڑے جھوٹ سے دھوکہ دیا ہے ۔لیکن اللہ کی قسم! میں اب اس جھوٹ کاکفارہ دے چکی ہوں۔اور اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ مجھے معاف فرمائے اور وہ بھی مجھے معاف فرمادیں۔میں الحمدللہ پہلے سے بھی زیادہ دین پر عمل پیرا ہوں اور پردہ بھی کرنا شروع کردیا ہے اور قرآن مجید بھی حفظ کرلیا ہے۔میرا سوال یہ ہے کہ:
کیا اس کے گھر والوں کی رضا مندی کے بغیر ہماری شادی صحیح ہوگی اور کیا اس کا مجھ سے شادی کرنا والدین کی نافرمانی شمار ہوگا؟باوجود اس کے کہ ہم دونوں بہت محبت کرتے ہیں اور میں اعتراف کرتی ہوں کہ الحمدللہ اس نے مجھے بہت زیادہ تبدیل کردیا ہے اور مجھے زیادہ دین پر چلنے والی بنا دیا ہے اور کیا میں ولی کے بغیر شادی کرسکتی ہوں؟
کیونکہ میرے والد صاحب کا اصرار ہے کہ اس کے گھر والے راضی ہوں تو پھر یہ شادی ہوسکتی ہے۔آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ میرے والد صاحب نے مجھے چھوڑ رکھا ہے۔کبھی کبھار ہی میرا پتہ لینے آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس شخص کو جزائے خیر عطا فرمائے،وہی میرا اور میری بیٹی کا خیال رکھتا ہے اور ہمیں مکمل محبت اور امان سے نوازتا ہے۔اور میری یتیم بیٹی کو بھی والد جیسا پیار مہیا کرتا ہے۔وہ اس سے وہ سلو ک کرتاہے۔جو اس کے گھر والوں نے بھی نہیں کیا۔محترم مولانا صاحب میں اور میری بیٹی بہت ہی زیادہ محبت ورعایت کے محتاج ہیں ،میری آپ سے گزارش ہے کہ آ پ کچھ معلومات فراہم کریں۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔للہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے آپ کا سوال کئی ایک اُمور پر مشتمل ہے ،کچھ توتنبیہ کے محتاج ہیں اور کچھ کے متعلق سوال ہے:
سوال میں شادی کے متعلق والد کی موافقت کے بارے میں پوچھا گیا ہے کہ آپ کے والد کی رضا مندی ضروری ہے۔ کہ نہیں؟تو اس کے بارے میں گزارش ہے کہ آپ کے علم میں ہوناچاہیے کہ شریعت اسلامیہ نے عقد نکاح صحیح ہونے کے لیے عورت کے ولی کی شرط لگائی ہے جس کے بہت سے دلائل قرآن وسنت میں موجود ہیں۔
عقد نکاح میں اللہ تعالیٰ نے جو یہ شرط لگائی ہے اس میں بہت بڑی حکمت ہے۔ مردوں میں اصل چیز یہ ہے کہ وہ عقل کے اعتبار سے کامل ہیں اور مصلحتوں کو زیادہ جاننے والے ہیں اور دوسرے مردوں کے حالات کا بھی انھیں زیادہ علم ہوتا ہے۔کہ عورت کے لیے کون سا مرد مناسب رہے گا؟وار انھیں یہ فیصلہ کرنے پر زیادہ قدرت ہے۔بالخصوص جب عورت ا پنے جذبات میں قابوآجاتی ہے۔
بالفرض اگرولی میں عیب ہو جس کی وجہ سے وہ ولی نہیں بن سکتا ہو اور اپنی ولایت میں بسنے والی عورت کے معاملات نہ چلا سکتا ہو پھر وہ بغیر کسی شرعی عذر کے کسی مناسب رشتہ سے عورت کا نکاح کرنے سے انکار کرتا ہوتو اس حالت میں ولایت اس کے بعد والے شخص میں منتقل ہوجائے گی مثلاً والد سے دادا ہیں۔
رہا مسئلہ اس شخص کے گھر والوں کی ر ضا مندی کا تو اس کے بارے میں گزارش ہے کہ شادی کے صحیح ہونے میں ان کی رضا مندی شرط نہیں کیونکہ مرد خود ہی اپنے آپ کا ولی ہے۔اس کے لیے ا پنی شادی کرنے میں کسی کی موافقت کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی مرد کے گھر والوں کو یہ حق پہنچتا ہے۔کہ وہ بغیر کسی شرعی سبب کے اسے شادی سے روکیں۔لیکن لڑکے کو والدین کی رضا مندی کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ ان سے حسن سلوک کا حکم ہے اور ایسا کرنا اچھا اور بہتر ہے اور ایک مستحسن امر ہے اور اس رضا مندی کے حصول کے لیے ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے سامنے مافی الضمیرکااظہار کرے پہنچا جاسکتا ہے۔جس سے وہ راضی ہوجائیں اور اس کی اختیار کردہ لڑکی سے شادی پررضا مندی کا اظہار کردیں۔نیز اس میں اللہ تعالیٰ سے دعا اور والدین کے ساتھ احسن انداز میں بات چیت اور مطئین کرنے کے لیے کسی اچھے اسلوب اور طریقے کو استعمال کرنا چاہیے اور مدد لینی چاہیے اور نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
ہم اپنی سوال کرنے والی عزیز بہن کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ آپ نے سوال میں جویہ ذکر کیا ہے کہ بہت ہی شدید قسم کی محبت ہوچکی ہے اور ہم محبت کرنے لگے ہیں اور آپ کا یہ کہنا کہ وہ ہمیں ہر قسم کی محبت دیتاہے اور یہ بھی سوال میں ہے کہ میں اور میری بیٹی اس کی محبت کے محتاج ہیں۔
اس کے بارے میں ہم کہیں گے کہ آ پ کے علم میں ہونا چاہیے کہ مسلمان مرد اور عورت پر ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ایسے اسباب سے بچا کررکھے جو اس کے دل کو کسی ایسے شخص سے معلق کردے جو اس کا خاوند نہیں۔ہم یہ تسلیم کر تے ہیں کہ انسان میں محبت ایک ضروری چیزہے جس میں انسان کو کوئی اختیار نہیں۔لیکن کچھ ایسے امور اور اسباب پائے جاتے ہیں جن کے کرنے سے یہ محبت زیادہ ہوتی ہے اور اسی چیز سے روکا گیا ہے اور اس کی مثال مرد عورت کا ایک دوسرے سے بات چیت کرناجس سے ایک دوسرے کے جذبات ابھریں،اسی طرح بار بار ایک دوسرے سے ملنا اور ملاقاتیں کرنا بھی ایک سبب ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تو فرمان ہے کہ"تم(اجنبی) عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔"[1]
اس جیسے امور اس لیے حرام ہیں تاکہ اس سے پیدا ہونے والے غلط کاموں کو سد باب کیاجاسکے اور اس کی حکمت یہ ہے کے کہیں عورت کا اس سے دل معلق نہ ہوجائے جس کے ساتھ اس کی شادی نہیں ہوسکتی اور اگر دل معلق ہوگیا اور شادی نہ ہوسکی تو دونوں عذاب کا شکار ہوجائیں گے ۔جیسا کہ زمانہ قدیم اور موجودہ دور محبت کرنے والوں کی حالت ہوتی رہی ہے اور اس وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اطاعت سے غافل ہوجائیں گے۔اس تعلق کے نقصانات میں امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتابوں میں"الدواء والدواء" اور"اغائۃ اللھفان" میں سیر حاصل بحث کی ہے ۔بہتر ہے کہ آ پ انہیں پڑھیں ۔
ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو شرعی پردہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے تو اپنے ظاہری پردے کو دل کے پردے سے مکمل کریں اس شخص سے حالیہ تعلقات کو دیکھیں اور اس سے کنارہ کش ہو جائیں اور ہر اس سبب سے دور رہیں جو آپ کو اس سے معلق کرنے کا سبب ہومثلا اس سے بات چیت کرنا یا اس کا آ پ کے گھر میں آکر ملاقاتیں کرنا وغیرہ یہ سب کچھ حرام ہے۔
جیسا کہ آ پ نے ذکر کیاہے کہ وہ شخص بھی بہت دین دار ہے اس لیے اسے بھی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اس جیسے معاملات سے پرہیز کرے تاکہ شیطان کو داخل ہونے کا موقع نہ مل سکے اور جو کچھ اس نے آپ کی یتیم بچی سے حسن سلوک کیا ہے ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کا اجر وثواب عطا فرمائے لیکن اسے بہ بھی یادر کھنا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"خبردار!جو آدمی بھی کسی عور ت کے ساتھ تنہائی اختیار کرتاہے ان دونوں کا تیسرا(ساتھی) شیطان ہوتا ہے۔"[2]
اورآ پ کی یہ امید کہ ا س شخص سےشادی کرنے میں خیروبھلائی اور بہتری ہے۔ہم آپ سے گزارش کریں گے کہ یہ امید مندرجہ ذیل اُمور بجالانے سے برآئے گی:
1۔نماز استخارہ کثرت سے ادا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے دنیا وآخرت کی بھلائی آسان کردے۔
2۔اوپر جن اشیاء سے بچنے کا اشارہ کیا گیاہے۔ ان سے دور رہا جائے تاکہ کسی غیر محرم شخص سے تعلق پیدا نہ ہو اور بندے کو اپنا مطلوب اس وقت حاصل ہوتاہے جب وہ شریعت اسلامیہ پر عمل پیرا ہو اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا رہے۔
3۔سوال میں جس محبت کا ذکر کیا گیا ہے اس کی حدت میں کمی کرنے کی کوشش تاکہ آپ اس کے خطرات کا ادراک کرتے ہوئے اس سے نکل سکیں اور اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا لگاؤ پیداکریں اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کے کلام میں غور وتدبر پیدا کریں۔
4۔اپنے والد کی رضا مندی اور قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے ساتھ ساتھ والد کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں ایسا کرنے سے ہوسکتاہے کہ اس کا دل نرم ہوجائے اور وہ آپ کی سعادت اورخوشی کو مد نظر رکھتا ہو اسے پورا کرسکے۔
5۔اس شخص کے گھر والوں سے معذرت کریں اور ان سے ایسا سلوک کریں جس سے آپ کے اس فعل پر ندامت کا اظہار ہوتا ہو۔ممکن ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں یہ شادی قبول ہوجائے اور پھر اسی وجہ سے آپ کے والد بھی اس شادی پر رضا مندی کا اظہار کردیں۔
6۔اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونے کے لیے تیار کریں۔اگرچہ وہ چیز آپ کو ناپسند ہی ہو اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہونا چاہیے۔اس سے آپ کو یہ فائدہ ہوگا کہ جب انسان کے سامنے وہ چیز آئے جسے وہ ناپسند کرتاہے تو وہ اس صدمے کو آسانی سے قبول کرلیتاہے اور اگر وہ اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوتو انسان کے ایمان کے ضائع ہونے یا پھر اسمیں کمزوری کاخدشہ رہتاہے یا پھر وہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے بارے میں غلط قسم کے خیالات سے رکھنے لگتا ہے۔
7۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو بچی عطا کی ہے اس یتیم بچی کی اسلامی تربیت کرنے کی حرص رکھیں اور اس سے اچھا سلوک کریں کیونکہ یتیم کی پرورش اور کفالت کرنے میں عظیم اجر وثواب ہے،جس کی بنا پر ہوسکتا ہے آپ کو برکت حاصل ہو اور وقت میں بھی برکت ملے اور اسی طرح باقی معاملات میں بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال رہے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ پر اپنی بے شمار نعمتیں پوری کرے اور آپ کے دل میں ایمان کو ثابت رکھے اور آپ کو ہر قسم کی خیر وبھلائی کی توفیق عطا کرے اور اگر آپ دونوں کے لیے اس شادی میں خیر ہے تو اس میں آسانی پیداکرے اور ہمیں اور آپ سب کو صراط مستقیم کی ہدایت نصیب فرمائے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔