سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(32)کفو رشتہ ملنے کے باوجود لڑکی کی شادی نہ کرنا اور اس کا عدالت میں جانا

  • 15488
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2717

سوال

(32)کفو رشتہ ملنے کے باوجود لڑکی کی شادی نہ کرنا اور اس کا عدالت میں جانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری ایک اٹھائیس سالہ کے لیے ایک دینی اور اچھے اخلاق والے اور اچھے خاندان کے نوجوان کا رشتہ آیا ہے اور اس کی شہادت لڑکی والے بھی دیتے ہیں، لیکن  میری سہیلی کو اس پر  بہت تعجب  ہے کہ باوجود اس کے کہ والدین اس کے دین اور اخلاق کی شہادت بھی دیتے ہیں مگر پھر بھی رشتے سے انکار کرتے ہیں۔

انکار کا صرف یہ سبب ہے کہ وہ لڑکا ان کی برادری اور قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا اور غیر برادری میں شادی کرنا ان کے نزدیک صحیح نہیں۔ میری سہیلی نے اپنے والدین کو مانے کی بہت کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ پھر اس نے کسی کے واسطے سے بھی  والدین تک بات پہنچائی اور اپنے دو چچا زاد بھائیوں کو بھی اس لڑکے کے بارے میں تحقیق کرنے  کے لیے بھیجا جنہوں نے اسے ایک اچھا اور بہتر نوجوان پایا، انہوں نے بھی لڑکی کے والدین سے بات کی  لیکن  کچھ حاصل نہ ہوا۔ لڑکی نے اپنے والد کو سمجھایا بھی ہے کہ وہ اب بڑی عمر  کی ہو گئی ہے اور شادی کے مواقع بھی کم ہو چکے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھی ڈرایا ، لیکن اس کے باوجود کوئی فائدہ نہ ہوا۔ دراصل والد صاحب صرف والدہ کی بات مانتے ہیں اور سب کچھ ان کے ہاتھ میں دے رکھا ہے۔ وہ اپنی بیٹی کی شادی نہیں کرنا چاہتی،  رسم ورواج کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لالچ سے کہ بیٹی ملازمت کرے اور والدہ کو تنخواہ لا کر دے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا اس لڑکی کو عدالت میں جانا چاہیے تاکہ قاضی اس کی شادی اس لڑکے سے کر دے اور کیا ایسا کرنے میں بہت زیادہ وقت صرف ہو گا تاکہ شادی ہو سکے، یعنی کیا قاضی اس کے والد کو طلب کرے گا اور  معاملات لمبے ہوں گے۔ اسے یہ خوف ہے کہ اگر اس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور قاضی نے تاریخ مقرر کر دی تو یہ احتمال ہے کہ گھر والے وہاں جانے ہی نہ دیں اور اس کی عدم موجودگی میں معاملہ ختم ہو جائے۔ ہمیں اس موضوع کے بارے میں معلومات سے نوازیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

:  والدین کا اپنی بیٹیوں کی برادری وقبیلہ کے علاو ہ کہیں اور شادی نہ کرنا، خواہ اس وجہ سے شادی میں تاخیر ہی کیوں نہ ہوجائے، بہت بڑا ظلم ہے اور اس امانت میں خیانت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں میں دے رکھی ہے۔ لڑکی کو شادی  کرنے سے روکے رکھنا اور اسے گھر میں بٹھائے رکھنا جو فساد برپا کرے گا  وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا اور پھر آج معاشروں میں  نظر دوڑانے والا شخص بھی اسے بخوبی محسوس کر سکتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے ان مفاسد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ اس طرح فرمایا:

’’جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین اور اخلاق تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح  کر دو۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا۔‘‘

(حسن: ارواء الغلل: 1868، ترمذي: 1084، كتاب النكاح: باب ما جاء اذا جاء كم من ترضون دينه فزوجون، ابن ماجة: 1967، كتاب النكاح، باب الأكفاء)

جو ولی بھی اپنی اپنی ولایت میں پلنے والی کسی عورت کو دینی اور اخلاقی طور پر پسندیدہ رشتہ آنے کے  باوجود شادی سے منع کرتا ہے، وہ اس کے لیے عاضل شمار ہو گا ولی بھی نہیں رہے گا بلکہ اس کے علاوہ کوئی اور قریبی ولی بنے گا اور ولایت اس کی طرف منتقل ہو جائے گی۔

امام ابن قدامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

’’عورت جب کسی شادی کرنے کا مطالبہ کرے اور وہ رشتہ بھی اس کا کفو (دینی اعتبار سے برابر) ہو اور دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہوں تو لڑکی کو اس  سے شادی نہ کرنے دینا ’عضل‘ کہلاتا ہے۔

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بہن کی ایک شخص سے شادی کر دی تو اس نے اسے طلاق دے دی۔ جب اس کی عدت ختم ہو گئی تو وہ پھر شادی کا پیغام لے کر آیا۔ میں نے اسے کہا: میں نے اس سے تیری شادی کی، اسے تیرے ماتحت کیا اور تیری عزت افزائی بھی کی لیکن تو نے اسے طلاق دے دی اور اب پھر اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ اللہ کی قسم! وہ کبھی بھی تیری بیوی نہیں بن سکتی۔ اس شخص میں کوئی حرج بھی نہیں تھا  اور عورت( یعنی میری بہن) بھی اس کے پاس جانا چاہتی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی: ’’ تم انہیں نکاح کرنے سے نہ روکو۔‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں ایسا کرنے کے لیے تیار ہوں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر معقل رضی اللہ عنہ نے اس کی شادی اس شخص سے   کر دی۔

(1)

اگر وہ کسی خاص شخص سے شادی کرنا چاہتی ہو  جو اس کا کفو بھی ہو اور ولی کسی اور سے شادی کرنا چاہتا ہو (اور وہ بھی اس کا کفو ہو) تب بھی وہ عاضل شمار ہو گا۔ ہاں اگر لڑکی کسی ایسے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہو جو اس کا کفو نہیں تو وہ عاضل نہیں بلکہ اسے لڑکی کو اس اس شادی سے روکنے کا حق حاصل ہے۔

(2)

شیخ محمد بن ابراہیم ر کہتے ہیں:

’’لڑکی جب سن بلوغت کو پہنچ جائے اور اس کا دینی اور اخلاقی لحاظ سے کفو رشتہ آئے اور ولی بھی اس میں کسی قسم کی جرح وقدح نہ کرے تو اسے چاہیے کہ اس رشتے کو قبول کرتے ہوئے اس سے اپنی لڑکی کا رشتہ کر دے۔ اگر وہ اس کی شادی اس لڑکے سے نہیں کرتا تو اسے ولی ہونے کے ناطے جو کچھ اس پر لڑکی کے بارے میں واجب ہوتا ہے یاد دلایا جائے۔ اگر وہ اس کے باوجود شادی نہ کرنے پر مصر ہو تو اس کی ولایت ساقط ہو جائے گی اور لڑکی کا قریبی  عصبہ رشتہ دار ولی بن جائے گا۔

(3)

شیخ ابن عثیمین کہتے ہیں:

جب عورت کے ولی کے پاس دینی اور اخلاقی لحاظ سے کفو رشتہ آئے اور وہ اس لڑکی کی شادی کرنے  سے انکار کر دے تو اس کی ولایت سب سے قریبی عصبہ رشتہ دار کی طرف منتقل ہو جائے گی۔ اگر وہ بھی شادی کرنے سے انکار کر دیں  جیسا کہ غالباً ہوتا ہے تو پھر ولایت شرعی حاکم کی طرف منتقل ہو جائے گی اور شرعی حاکم  لڑکی سے شادی کرے گا۔ حاکم پر بھی واجب ہے کہ جب اس کے پاس یہ مقدمہ پہنچے اور یہ ثابت ہو جائے کہ لڑکی کے اولیاء نے شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے تو پھر وہ خود لڑکی کی شادی کرے کیونکہ جب خاص ولایت نہ ہو تو اسے عام ولایت حاصل ہے۔

فقہائے کرام نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اگر ولی کسی کفو رشتہ سے لڑکی کی شادی کرنے سے انکار کرتا ہے او رایسا  بار بار کرے تو وہ فاسق ہو جائے گا اور اس کی ولایت ساقط ہو جائے گی، بلکہ امام احمد کا مشہور مسلک تو یہ ہے کہ اس سے امامت کا  حق بھی ساقط ہو جائے گا اور وہ نماز میں امام نہیں بن سکے گا، جو کہ اور بھی خطرناک ہے۔

عموماً ایسا ہوتا ہے کہ جب لڑکی کے دیگر قریبی اولیاء بھی اس کی شادی اس کے کفو سے نہیں کرتے تو وہ حیاء کی  وجہ سے شرعی عدالت کے پاس نہیں جاتی۔ اسے سوچنا چاہیے کہ کیا اس کے لیے یہ بہتر ہے کہ وہ یونہی بغیر شادی کے ہی پڑی رہے یا پھر قاضی کے سامنے یہ مقدمہ پیش کرے اور شادی کرائے جو کہ شرعاً اس کا حق بھی ہے۔

تو بلا تردد اس کے لیے قاضی کے پاس جانا ہی زیادہ بہتر ہے کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اس کا حق ہے  اور دوسری بات یہ کہ اس نے ایسا کرنے سے دوسری مظلوم لڑکیاں بھی عدالت کا دروازہ کٹھکٹھائیں گی اور یوں وہ انہیں اولیاء کے ظلم سے بچانے کا ذریعہ بن جائے گی۔ یعنی ایسا کرنے میں تین طرح کی مصلحتیں پائی  جاتی ہیں:

1۔ عورت کے لیے اپنی مصلحت کی وہ شادی کے بغیر نہیں رہے گی۔

2۔ دوسری لڑکیوں کی بھی اس میں مصلحت ہے کہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ کون یہ دروازہ کھولے گا اور پھر وہ بھی اس کی پیروی کریں۔

3۔ لڑکیوں کے اولیاء کو ان پر ظلم سے باز رکھنا۔

اور اس میں یہ بھی مصلحت ہے کہ ایسا کرنے سے نبی کریم ﷺ کے حکم پر عمل ہوتا ہے کیونکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے:

’’جب تمہارے پاس کوئی ایسا  شخص نکاح کا پیغام بھیجے جس کا دین اور اخلاق تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا۔‘‘

(1)

اسی طرح ایسا کرنے میں ایک خاص مصلحت یہ بھی ہے کہ جو لڑکے اخلاقی اور دینی اعتبار سے لڑکیوں کو کفو شمار ہوتے ہیں وہ رشتہ لینے آئے ہیں، ان کی خواہش اور مقصد کی تکمیل ہے کہ اپنی خواہش کو جائز طریقے سے  پوری کر سکتے ہیں۔‘‘

(1)

شیخ ابن عثیمین کا یہ بھی کہنا ہے:

’’ لیکن کاش! ہم اس حد تک نہ پہنچیں کہ جس میں لڑکی اس بات کی جرأت کرے کہ جب اس کا والد اسے ایسے شخص سے شادی نہ کرنے دے جو دینی اور اخلاقی لحاظ سے اس کا کفو ہو تو وہ لڑکی قاضی سے جا کر شکایت کرے اور   قاضی اس کے والد سے کہے کہ اس کی شادی اس شخص سے کر دو وگرنہ میں کرتا ہوں یا پھر تیرے علاوہ کوئی اور ولی کر دے گا۔ لڑکی کو یہ حق حاصل ہے کہ جب اس کا والد  اسے شادی نہ کرے دے (تو وہ قاضی سے شکایت کر دے) اور یہ اس کا شرعی حق ہے۔ کاش! ہم اس حد تک نہ پہنچیں، لیکن اکثر لڑکیاں شرم وحیاء کی وجہ سے ایسا نہیں کرتیں۔

ہمیں یہ تو علم نہیں کہ شرعی عدالت اس کام کے لیے زیادہ وقت لیتی ہے یا کم، البتہ یہ ممکن ہے کہ قاضی کو یہ تنبیہ کر دی جائے کہ یہ احتمال ہے کہ اس کا والد اسے دوبارہ عدالت میں آنے سے روک دے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو  ہیں کہ وہ آپ کی مشکلات دور کرے اور آپ کے معاملات کو آسان فرمائے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 73

محدث فتویٰ

تبصرے