سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(264) میت کے گھر میں قرآن خوانی

  • 15486
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 709

سوال

(264) میت کے گھر میں قرآن خوانی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا میت کے گھر میں اس طرح قرآ ن خوانی کرنا کہ گھر میں قرآن مجید کے نسخے (یا پارے)رکھے دیئے جائیں اورپڑوسی اوردیگر جاننے والے مسلمان آئیں اوران میں سے ہر ایک ،ایک پارہ پڑھے اورپھر وہ اپنے کام پر چلا جائے اور اسے اس  کی کوئی اجرت وغیرہ بھی نہ دی  جائے۔۔۔۔۔اوراس طرح قرآن مجید کا ثواب میت کی روح کو پہنچایاجائے۔کیا اس انداز کی تلاوت اوردعا میت کو پہنچ جاتی ہے اورایصال ثواب ہوجاتا ہے ؟امید ہے آپ رہنمائی فرماکرشکریہ کا موقعہ بخشیں گے کیونکہ  میں نے بعض علماء سے سنا ہے کہ یہ حرام ہے جب کہ بعض اسے مکروہ اورکچھ علماء اسے جائز قراردیتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ اوراس طرح کےدیگراعمال کی کوئی اصل نہیں ہے کیونکہ نہ تونبی کریمﷺسے ایساثابت ہے اورنہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے یہ ثابت ہے کہ وہ مردوں کے لئے اس طرح قرآن خوانی کرتے ہوں بلکہ یہ تووہ عمل ہے جس کے بارے میں نبی کریمﷺنے فرمایا:

«من عمل عملا ليس عليه امرنا فهورد»

‘‘جس  شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہماراامر نہیں ہے تووہ مردودہے۔’’

اس حدیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح میں اورامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح میں  تعلیقا مگر صحت کے وثوق کے ساتھ بیان فرمایا ہے اورصحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشادفرمایا:

«من احدث في امرنا هذا ماليس منه فهو رد»

‘‘جس نے ہمارے اس دین (اسلام )میں کوئی ایسی نئی چیز پیدا کرلی جو اس میں نہ  ہو تووہ عمل مردودہے۔’’

صحیح مسلم میں حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت  ہے کہ نبی کریمﷺجمعہ کے خطبہ میں یہ ارشادفرمایا کرتے تھے کہ ‘‘حمدوثنا’’کے بعد سب سے بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اورسب سے بہترین طریقہ حضرت محمد ﷺکا طریقہ ہے ،بدترین امور بدعات ہیں  اورہر بدعت گمراہی ہے ۔امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح سند کے ساتھ الفاظ کو بھی بیان فرمایاہے‘‘اورہرگمراہی جہنم میں لے جائے گی ۔’’ہاں البتہ اس بات پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ صدقہ اوردعا سے مردوں  کو نفع ہوتا ہے اوران کاثواب بھی انہیں پہنچتا ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مقالات و فتاویٰ

ص389

محدث فتویٰ

تبصرے