سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(92) تحیۃ المسجد

  • 1548
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1202

سوال

(92) تحیۃ المسجد

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث : «إِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ أَنْ یَجْلِسَ»

حدیث : «لاَ صَلٰوۃ بَعْدَ الْفَجْرِ إِلاَّ سَجْدَتَیْنِ»

حدیث : «لاَ صَلٰوۃ بَعْدَ طُلُوْعِ الْفَجْرِ إِلاَّ رَکْعَتِيَ الْفَجْرِ» (وغیرہ)

کیا فرماتے ہیں علماء شرع متین کہ تحیۃ المسجد بعد از طلوع فجر یعنی صبح صادق ہونے کے بعد پڑھ سکتے ہیں یا کہ نہیں؟ کیونکہ یہاں علماء کرام فرماتے ہیں کہ تحیۃ المسجد ہر وقت اور جس وقت مسجد میں آئیں پڑھنی ہیں اور صبح طلوع صادق کے بعد بھی ، خواہ آذان سے پہلے یا بعد اگر صبح کی سنتیں کوئی گھر میں پڑھ کر آئے تو کیا تحیۃ المسجد پڑھے یا نہ پڑھے ؟ یا سنتیں گھر سے نہ پڑھ کر آئے تو اس صورت میں سنتیں وتحیۃ المسجد مسجد میں پڑھے گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

آپ لکھتے ہیں ’’یہاں علماء کرام فرماتے ہیں کہ تحیۃ المسجد ہر وقت اور جس وقت مسجد میں آئیں پڑھنی ہیں اور صبح طلوع صادق ’’یہ لفظ وصول شدہ مکتوب میں ایسے ہی لکھا ہے‘‘ کے بعد بھی خواہ آذان سے پہلے یا بعد ۔

علماء کرام کے اس فرمان کی دلیل رسول اللہﷺ کا فرمان ہے :

«إِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِِدَ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ قَبْلَ اَنْ یَجْلِسَ»(بخاری۔ابواب المساجد۔باب اذا دخل المسجدفلیرکع رکعتین۔مسلم۔صلوٰۃ المسافرین۔باب استحباب تحیة المسجد برکعتین)

’’جب تمہارا ایک مسجد میں داخل ہو پس وہ دو رکعات پڑھے پہلے اس کے کہ وہ بیٹھے‘‘

کیونکہ  «إِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ »الخ لفظ عام ہیں دخول مسجد کے تمام اوقات کو متناول وشامل ہیں اس لیے علماء کرام کا مندرجہ بالا بیان وفرمان صحیح ، صواب اور درست ہے ۔

رہا یہ اشکال کہ دوسری حدیث میں وارد ہوا ہے۔

«لاَ صَلٰوۃَ بَعْدَ الْفَجْرِ إِلاَّ رَکْعَتِي الْفَجْرِ»

’’نہیں کوئی نماز فجر کے بعد مگر فجر کی دو رکعات‘‘ تو حقیقت میں یہ کوئی اشکال نہیں کیونکہ اس میں بلاوجہ وسبب نفلی نماز کی نفی کی گئی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ طلوع فجر کے بعد فجر کے فرض پڑھنے ضروری ہیں نیز فوت شدہ نماز اس وقت ادا کی جا سکتی ہے دیکھئے اس حدیث شریف میں« رَکْعَتِي الْفَجْرِ» کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو بلاوجہ وسبب اس وقت کی نفلی نماز ہے جس سے واضح ہے کہ فرض نماز اور باوجہ وسبب نفلی نماز کی مستثنیٰ منہ میں نفی مقصود نہیں اس مسئلہ کی تفصیل مطولات میں دیکھ لیں۔

جیسے حدیث «لاَ صَلٰوۃَ بَعْدَ الْفَجْرِ إِلاَّ رَکْعَتِی الْفَجْرِ»

ترجمہ: نہیں کوئی نماز فجر کے بعد مگر فجر کی دو رکعات ‘‘ میں بلاوجہ وسبب نفلی نماز کی نفی ہے ویسے ہی حدیث:

«لاَ صَلٰوۃَ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَلاَ صَلٰوۃ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ»(بخاری۔مواقیت الصلوٰۃ۔ باب الصلاۃ بعد الفجر حتی ترتفع الشمس۔مسلم۔صلاۃ المسافرین۔باب الاوقات التی نھی من الصلاۃ فیھا۔)

’’فجر کے بعد طلوع شمس تک کوئی نماز نہیں اور نہ ہی عصر کے بعد غروب شمس تک کوئی نماز ہے‘‘ میں بھی بلاوجہ وسبب نفلی نماز کی نفی مقصود مراد ہے‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

مساجد کا بیان ج1ص 103

محدث فتویٰ

 

تبصرے