سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(22)شادی سے پہلے محبت کرنے کا حکم

  • 15470
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5922

سوال

(22)شادی سے پہلے محبت کرنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اسلام میں محبت کی شادی زیادہ کامیاب ہے یا والدین کا اختیار کردہ رشتہ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محبت کی شادی مختلف طرح کی ہے، اگر تو طرفین کی محبت میں اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ شرعی حدود نہیں توڑی گئیں اور محبت کرنے والوں نے کسی معصیت ونافرمانی کا ارتکاب نہیں کیا تو امید کی جا سکتی ہے کہ ایسی محبت سے  انجام پانے والی شادی زیادہ کامیاب ہو گی، کیونکہ یہ دونوں کی ایک دوسرے میں رغبت کی وجہ سے انجام پائی ہے۔

جب کسی مرد کا کسی ایسی لڑکی پر دل معلق ہو کہ جس سے اس کا نکاح جائز ہے یا کسی لڑکی نے کسی لڑکے کو پسند کر  لیا تو اس کا حل شادی کے علاوہ کچھ نہیں کیونکہ ارشاد نبوی ہے کہ

(لَمْ نَرَ لِلْمُتَحَابَّيْنِ مِثْلَ النِّكَاحِ)

’’دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے۔‘‘

اس حدیث پر حاشیہ لگاتے ہوئے علامہ سندھی رحمہ اللہ  فرماتے ہں کہ

نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان ’’ دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے۔‘‘ یہاں پر لفظ  ’متحابین‘ تثنیہ  اور جمع دونوں کا احتمال رکھتا ہے اور معنیٰ یہ ہو  گا کہ اگر محبت دو کے درمیان ہو تو  نکاح جیسے تعلق کے  علاوہ ان کے مابین کوئی اور تعلق اور دائمی قرب نہیں ہو سکتا، اس لیے اگر اس محبت کے ساتھ ان کے درمیان نکاح بھی ہو تو یہ محبت ہر روز قوی اور زیادہ ہو گی۔

اور اگر محبت کی شادی ایسی محبت کے نتیجے میں انجام پائی ہو جو غیر شرعی تعلقات کی بنا پر ہو مثلاً اس میں لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کریں، ایک دوسرے سے تنہائی میں ملتے رہیں، بوس وکنار کریں اور اس طرح کے  دوسرے حرام کاموں کے مرتکب ہوں تو اس کا انجام برا ہی ہو گا اور یہ شادی زیادہ دیر نہیں چل پائے گی۔

کیونکہ ایسی محبت کرنے والوں نے شرعی مخالفات کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنی زندگی کی بنیاد ہی اس مخالفت پر رکھی ہے جس کا ان کی ازدواجی زندگی پر اثر ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت اور توفیق نہیں ہو گی کیونکہ گناہوں کی وجہ سے برکت جاتی رہتی ہے۔ اگرچہ شیطان نے بہت سے لوگوں کو یہ سبز باغ دکھا رکھے ہیں کہ اس طرح کی محبت جس میں شرعی مخالفات پائی جائیں، کرنے سے شادی زیادہ کامیاب اور دیرپا ثابت ہوتی ہے۔

پھر یہ بھی ہے کہ دونوں کے درمیان شادی سے قبل جو حرام تعلقات قائم تھے وہ ایک دوسرے کو شک وشبہ میں ڈالیں  گے، خاوند یہ سوچے گا کہ ہو سکتا ہے جس طرح اس نے میرے ساتھ تعلقات  قائم کیے تھے کسی اور سے بھی تعلقات رکھتی ہو کیونکہ ایسا اس کے ساتھ ہو چکا ہے اور اسی طرح بیوی بھی یہ سوچے اور شک کرے گی کہ جس طرح میرے ساتھ اس کے تعلقات  تھے کسی اور لڑکی کے ساتھ بھی ہو سکتے ہیں اور ایسا اس کے ساتھ ہو چکا ہے۔ تو اس طرح خاوند اور بیوی دونوں ہی شک وشبہ اور سوء ظن میں زندگی بسر کریں گے جس کے نتیجے میں جلد یا دیر سے ان کے ازدواجی تعلقات کشیدہ ہو کر رہیں گے۔

اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خاوند اپنی بیوی پر یہ عیب لگائے، اسے عار دلائے اور اس پر طعن کرے کہ شادی سے قبل اس نے اس کے ساتھ تعلقات قائم کیے اور اس پر راضی رہی، جو اس طعن وتشنع و عار کا باعث ہو گا اور اس وجہ سے ان کے درمیان حسن معاشرت کی بجائے سوءِ معاشرت پیدا ہو گی۔

اس لیے ہمارے خیال میں جو بھی شادی غیر شرعی تعلقات کی بنیاد پر انجام پائے گی وہ غالباً زیادہ دیر کامیاب نہیں رہے گی اور اس میں استقلال واستقرار نہیں ہو سکتا۔ جبکہ والدین کا اختیار کردہ رشتہ نہ تو سارے کا سارا بہتر ہے اور نہ ہی مکمل طور پر برا ہے، لیکن اگر گھر والے رشتہ اختیار کرتے ہوئے اچھے اور بہتر انداز  کا مظاہرہ کریں اور عورت بھی دین اور خوبصورتی کی مالک ہو اور مرد کی رضا مندی سے یہ رشتہ طے ہو کہ وہ اس سے شادی کرنا چاہے تو پھر یہ امید ہے کہ یہ شادی کامیاب اور یر پا ہوگی۔

اس لیے نبی کریم ﷺ نے لڑکے کو یہ اجازت دی ہے اور یہ وصیت کی ہے کہ وہ اپنی بیوی ہونے والی منگیتر کو دیکھے:

حضرت مغیرہ بن شعبہ ﷜ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے عہد رسالت میں ایک عورت کو پیغامِ نکاح بھیجا تو نبی کریم ﷺ نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا تو نے اسے دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا، نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے دیکھ لو، اس طرح زیادہ توقع ہے کہ تم میں الفت پیدا ہو جائے۔‘‘

(صحيح: صحيح ابن ماجة: 1511، كتاب النكاح، باب النظر إلى المرأة إذا أراد أن يتزوجها، ابن ماجة: 1865، أحمد: 244/4، درامي: 134/2، كتاب النكاح: باب الرخصة في النظر للمرأة عند الخطبة، ترمذي: 1078، نسائي: 14/3، عبد الرزاق: 1335، دارقطني: 252/3، ابن الجارود: 675، شرح معاني الآثار: 14/3، شرح السنة: 14/5)

امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ اس کا یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ اس (دیکھنے) سے تمہارے درمیان محبت میں استقرار پیدا ہو گا اور محبت زیادہ ہو گی۔

اور اگر گھر والوں نے رشتہ اختیار کرتے وقت غلطی کی اور صحیح رشتہ اختیار نہ کیا یا پھر  رشتہ اختیار کرنے میں تو اچھا کام کیا لیکن مرد اس پر رضامند نہیں تو یہ شادی بھی غالب طور پر ناکام رہے گی اور اس میں استقرار نہیں ہو گا،  کیونکہ جس کی بنیاد ہی مرغوب نہیں یعنی وہ شروع سے ہی اس میں رغبت نہیں رکھتا تو وہ چیز اغلباً دیر پا ثابت نہیں ہو گی۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 59

محدث فتویٰ

تبصرے