سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(12)والدین کی مخالفت میں شادی شدہ اور بچوں والی عورت سے شادی

  • 15454
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1634

سوال

(12)والدین کی مخالفت میں شادی شدہ اور بچوں والی عورت سے شادی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میں ایک مسلمان شخص ہوں اور اپنے گھر والوں کی موافقت کے بغیر چار بچوں کی ماہ کے ساتھ شادی کرنے کے بعد سعادت کی زندگی گزار رہا ہوں، ہم قرآن مجید کی تلاوت اور نماز کی پابندی کرتے ہیں،  اس عورت سے شادی کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس کے بچوں کی تربیت ہو اور میں اس کی زندگی میں اس کا تعاون کروں۔

میرے والدین کا اس شادی سے انکار کا سبب یہ ہے کہ میں کسی دوسرے شخص کا بوجھ کیوں اٹھا رہا ہوں، یہ اس ذلت کے علاوہ ہے جو انہیں اپنے اعزاء واقارب سے حاصل ہو گی۔ میں نے انہیں مندرجہ ذیل باتیں کہیں:

میں اس ذمہ داری کو اٹھانے پر خوش ہوں اور سعادت مندی محسوس کرتا ہوں اور پھر یہ بھی ہے کہ میں اپنی طاقت سے زیادہ اپنے آپ کو تکلیف نہیں دیتا۔ میں اس عورت، جسے مالی، نفسیاتی اور صحت کی مشکلات کا سامنا ہے، کا تعاون کیوں نہ کروں اور اسے ایک نئی زندگی کیوں نہ دوں، میرے اعزاء واقارب صرف بیوی کے حسن وجمال ،  خوبصورتی اور اس کے مال و دولت کو ہی اہمیت دیتے ہیں، انہیں دین کی کوئی فکر نہیں۔

ہر قسم کی وضاحت کرنے کے باوجود انہوں نے میری اس شادی کی مخالفت کی لیکن اس کے باوجود  میں نے یہ شادی کر لی اور اب ہنسی خوشی اور سعادت کی زندگی بسر کر رہا ہوں اور ہر وقت توبہ کرتا رہتا ہوں کہ میں نے اپنے والدین سے سختی کا مظاہرہ کیا۔ میں نے ایک مولانا صاحب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’ جنت ماؤں کے قدموں تلے  ہے (میرے خیال میں ایسے ہی سنا ہے) ۔ میں گناہ محسوس کرتا ہوں اور اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھے  بتائیں کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟

 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ نے جو ایک مشکل میں پھنسی  ہوئی بچوں والی عورت سے شادی کر کے کام کیا ہے وہ بہت اچھا  اور  قابل تحسین ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ  آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے  گا اور پھر خاص کر جب وہ عورت دین والی بھی جیسا کہ آپ کے سوال سے ظاہر ہو رہا ہے۔

شریعت اسلامیہ نے دیندار عورت سے شادی کرنے کی ترغیب دلائی ہے کیونکہ وہ اس کے لیے ایک اچھی بیوی ثابت ہو گی، اپنے آپ کی اور اپنے خاوند کی حفاظت کرے گی اور اولاد کی بھی اس طرح تربیت کرے گی جیسے  اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ اپنے خاوند کی نافرمان نہیں ہو گی بلکہ اس کی اطاعت کرے گی۔ اسلام میں کنواری لڑکی سے شادی کرنا شادی شدہ کے مقابلے میں افضل اور مستحب ہے لیکن بعض اوقات شادی شدہ کنواری سے بھی افضل اور بہتر ہوتی ہے مثلاً جب اس سے شادی کرنے میں کوئی مصلحت ہو جو کنواری سے شادی کرنے میں نہ پائی جائے، یا پھر شادی شدہ دینی اور اخلاقی طور پر کنواری سے بہتر ہو۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھے  پوچھا، اے جابر! کیا تو نے نکاح کر لیا ہے؟ میں نے جواب میں عرض کیا، جی ہاں نکاح کر لیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا کنواری سے یا شادی شدہ سے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں نے شادی شدہ سے نکاح کیا ہے۔ نبی ﷺ فرمانے لگے، کنواری لڑکی سے کیوں نہیں کیا تو اس سے کھیلتا وہ تجھ سے کھیلتی۔ میں نے نبی ﷺ سے کہا: میرے والد جنگ احد میں شہید ہو گئے اور اپنے پیچھے نو بیٹیاں چھوڑیں، میں نے یہ ناپسند کیا کہ میں انہی جیسی ہم عمر لڑکی ان کے پاس  گھر میں لے آؤں، اس لیے میں نے چاہا کہ میں ایسی عورت لاؤں جو ان کی تربیت کرے، ان کا خیال رکھے اور اصلاح کرے۔ نبی کریم ﷺ  لگے: اللہ تعالیٰ آپ کے لیے برکت پیدا کرے یا (راوی کو شک ہے کہ آپ ﷺ نے) مجھے خیر وبھلائی کی دعا دی۔  (صحیح بخاری: 2097؛ کتاب البیوع، باب شراء الدواب والحمیر؛ مسلم : 715؛ ابوداؤد: 3505؛ترمذی: 1100؛ نسائی: 6؍65؛ احمد: 3؍ 308؛ حمیدی: 1227)

ایک دوسری روایت میں یہ لفظ ہیں:

’’کسی کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہ کی کہ تم اس سے ہنسی مذاق کرتے اور وہ تمہارے ساتھ ہنسی کرتی۔‘‘ (بخاری: 5367؛ کتاب النفقات: باب عون المرأۃ زوجہا فی ولدہ؛ مسلم: 715)

امام شوکانی رحمہ اللہ علیہ ’نیل الاوطار‘ میں لکھتے ہیں:

اس حدیث میں کنواری لڑکیوں سے نکاح کرنے کے استحباب کی دلیل پائی جاتی ہے، لیکن اگر شادی شدہ سے نکاح کرنے کی کوئی ضرورت پیش آئے تو پھر کنواری سے نہیں بلکہ شادی شدہ سے (نکاح کرنا بہتر ہے) جس  طرح کہ جابر رضی اللہ عنہ کے سات) ہوا۔ (نیل الاوطار: 6؍126)

علامہ سندھی رحمہ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ ’فداک‘ کا معنی یہ ہے کہ تو نے جو شادی شدہ عورت سے شادی کی وہ تو نے بہتر اور اچھا کیا ہے۔

تو آپ نے بھی اس شادی شدہ بچوں والی عورت سے شادی کر کے ایک اچھا اور بہتر کام کیا ہے۔ اب اس کے بعد لوگوں کی باتوں سے آپ کو کوئی نقصان نہیں، آپ نے بھی وہی کام کیا ہے جو نبی ﷺ نے کیا تھا، اس لیے کہ آپ ﷺ کی اکثر ازواج مطہرات کنواری نہیں بلکہ  پہلے سے شادی شدہ تھیں۔

آپ کی شادی میں آپ کے گھر والوں  کی رضا مندی اور موافقت شرط نہیں اور خاص کر جب ان کی مخالفت اس وجہ سے ہے جو کہ آپ نے بیان کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ پر یہ ضروری ہے کہ آپ نے اپنے والدین کے ساتھ جو سختی کی ہے اس کے لیے استغفار کریں اور ان سے معافی طلب کریں، آپ پر واجب ہے کہ آپ نے اپنے والدین کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا برتاؤ کریں اور انہیں راضی کرنےکی کوشش کریں اور ان کے ساتھ اگر ضرورت پیش آئے تو اچھے اور احسن انداز میں بات چیت کریں تاکہ وہ مطمئن ہو سکیں۔ اس سے آپ دو چیزوں کو جمع کر لیں گے، ایک تو اپنی رغبت اور مرضی کی شادی اور دوسری اپنے والدین کی رضا جو کہ اہم بھی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ وہ حدیث جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ ’’جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔‘‘ ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور انس رضی اللہ عنہ دونوں سے یہ حدیث وارد ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث امام ابن عدی رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’ الکامل‘ میں ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے۔

(دیکھیں: الکامل لابن عدی: 6؍347)

اور انس رضی اللہ عنہ کی روایت خطیب بغدادی نے نقل کی ہے اور یہ بھی ضعیف ہے۔ امام عجلونی رحمہ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ اس  باب میں ایک حدیث اور بھی ہے جسے خطیب نے اپنی جامع میں اور قضاعی نے اپنی مسند میں انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ ’’ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے‘‘ اس کی سند میں منصور بن المہاجر اور ابو النضر دونوں ہی غیر معروف راوی ہیں اور اسے خطیب نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا اور اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

(دیکھیں: کشف  الخفاء: 1؍401)

اور علامہ البانی رحمہ اللہ علیہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ موضوع (یعنی من گھڑت) ہے اور پھر کہتے ہیں کہ اس سے ہمیں معاویہ بن جاہمہ کی حدیث مستغنی کر دیتی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور انہیں کہنے لگا کہ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں اور آپ سے مشورہ کرنے آیا ہوں، تو نبی ﷺ نے فرمایا: کیا تیری والدہ ہے؟ میں نے جواب دیا جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی خدمت کرو کیونکہ جنت اس کی ٹانگوں کے نیچے ہے۔

 (حسن صحيح: صحيح نسائي، نسائي: 3104، كتاب الجهاد: باب الرخصة في التخلف لمن له والدة، صحيح الترغيب: 2458، كتاب البر والصلة وغيرهما: باب الترغيب في بر الوالدين وصلتها وتأكيد طاعتها)

ان شاء اللہ اس کی سند حسن ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ علیہ نے اسے صحیح قر ار دیا ہے۔ (مستدرک حاکم: 4؍151) امام ذہبی حفظہ اللہ  نے بھی ان کی موافقت کی ہے اور امام منذری رحمہ اللہ علیہ نے بھی اس کی صحت برقرار رکھی ہے۔ (3؍214) نیز دیکھیں: السلسلۃ الصحیحۃ: 593)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ نکاح و طلاق

سلسله فتاوىٰ عرب علماء 4

صفحہ نمبر 48

محدث فتویٰ

تبصرے