سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(56)التحقیقات العلیٰ بإثبات فرضیۃ الجمعۃ في القریٰ

  • 15322
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2881

سوال

(56)التحقیقات العلیٰ بإثبات فرضیۃ الجمعۃ في القریٰ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(۱) فرضیتِ صلوٰۃ جمعہ کی قصبات و دیہات میں احادیث سے ثابت ہے یا نہیں۔ (اس بارے میں ایک روایت حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ سے سنن بیہقی (۳؍ ۱۸۳) اور دوسری روایت حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنن دارقطنی (ص : ۱۶۴) اور سنن بیہقی (۳؍ ۱۸۴) میں آئی ہے)۔ [ع، ح[ )۲(اور شرائط و قیودات واسطے صلوٰۃ جمعہ جو کتب حنفیہ میں لکھی ہوئی ہیں، وہ احادیث صحیحہ سے مستنبط ہیں یا نہیں؟ )۳(اور جو بعض لوگ ظہر احتیاطی بعد اداءِ صلوٰۃ جمعہ کے پڑھتے ہیں، اس کا پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟‘


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

﴿ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلہِ ﴾ (یوسف: ۴۰)   ’ ’ فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔‘‘

جواب سوال اول یہ ہے کہ صلوٰۃ جمعہ فرض عین ہے۔ فرضیت اس کی نص قطعی سے ثابت ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:

﴿يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَيْعَ…﴾  (الجمعۃ: ۹(

’’ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو جس وقت کہ پکارا جاوےواسطے نماز کے دن جمعہ کے پس جلدی کرو طرف یاد خدا کے اور چھوڑ دو سودا کرنا۔‘‘

اور سنن ابی داود (ص ۴۱۲ ج۱) میں ہے:

’’ عن طارق بن شھاب عن النبيﷺ قال : (( الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم في جماعۃ إلا أربعۃ: عبد مملوک أو امرأۃ أو صبي أو مریض)) رواہ أبو داود۔

قال: طارق بن شھاب قد رأی النبي ﷺ ولم یسمع منہ شیئا۔‘‘ (سنن أبي داود، رقم الحدیث ۱۰۶۷(

’’ فرمایا رسول اللہﷺ نے نماز جمعہ فرض عین ہے ہر مسلمان پر جماعت سے، مگر چار آدمیوں پر۔ ایک غلام پر، دوسرے عورت پر، تیسرے لڑکے پر، چوتھے بیمار پر۔‘‘ 

اور ایسا ہی مسافر پر بھی فرض نہیں۔ جیسا کہ ترمذی اور احمد نے مقسم عن ابن عباس سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ (سنن الترمذي، رقم الحدیث ۵۲۷، مسند أحمد ۱؍ ۲۲۴) نیز دیکھیں: نصب الرایۃ ۲؍ ۱۳۶(

کہا ابوداود رحمہ اللہ نے: طارق بن شہاب نے رسول ﷺ کو دیکھا، مگر آپ سے کچھ سنا نہیں۔ تو یہ حدیث مرسل صحابی ہوئی اور حاکم نے اس کو مسنداً روایت کیا ہے طارق بن شہاب سے، انھوں نے ابو موسیٰ اشعری سے۔ (المستدرک ۱؍ ۴۲۵ معرفۃ السنن والآثار ۴؍ ۳۲۹(

قال العبد الضعیف أبو الطیب عفي عنہ:

’’ قال الخطابي في معالم السنن : لیس إسناد ھذا الحدیث بذاک، وطارق ابن شھاب لا یصح لہ سماع من النبي ﷺ إلا أنہ قد لقي النبيﷺ ۔‘‘ انتھی (معالم السنن ۱؍ ۲۱۴(

’’ قال العراقي: فإذا قد ثبتت صحبتہ فالحدیث صحیح، وغایتہ أن یکون مرسل صحابي، وھو حجۃ عند الجمھور، وإنما خالف فیہ أبو إسحاق الإسفرائیني، بل ادعی بعض الحنفیۃ الإجماع علی أن مرسل الصحابۃ حجۃ۔‘‘ انتھی (نیل الأوطار ۳؍ ۲۷۸(

 قال الحافظ في الإصابۃ في تمییز الصحابۃ (۳؍ ۲۸۱): ’’ إذا ثبت أنہ لقي النبي ﷺ فھو صحابي علی الراجح، وإذا ثبت أنہ لم یسمع منہ فروایتہ عنہ مرسل صحابي، وھو مقبول علی الراجح، وقد أخرج لہ النسائي عدۃ أحادیث، وذلک مصیر منہ إلی إثبات صحبتہ، وأخرج لہ أبو داود حدیثا واحداً، وقال : طارق رأی النبيﷺ ولم یسمع منہ شیئا، وقال أبوداود الطیالسي: حدثنا شعبۃ عن قیس بن مسلم عن طارق بن شھاب قال: رأیت النبيﷺ وغزوت في خلافۃ أبي بکر، وھذا إسناد صحیح، وأخرج البغوي من طریق شعبۃ عن قیس بن مسلم عن طارق قال : رأیت النبي ﷺ الحدیث۔‘‘ انتھی (ملخصاً(

’’ بندۂ ضعیف ابو الطیب عفی عنہ نے کہا: الخطابی نے ’’ معالم السنن‘‘ میں کہا ہے کہ اس حدیث کی سند اس طرح سے (مضبوط) نہیں ہے اور طارق بن شہاب کا نبیﷺ سے سماع درست نہیں ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ نبیﷺ سے ملے تھے۔ ختم شد۔ العراقی نے کہا ہے کہ اگر ان کی صحبت آپﷺ سے ثابت ہے تو حدیث صحیح ہے اور یہ ایک صحابی کی مرسل روایت ہے اور وہ (مرسل صحابی) جمہور کے نزدیک حجت ہے۔ اس کی مخالفت صرف ابو اسحاق الاسفرائنی نے کی ہے، بلکہ بعض احناف نے اجماع کا دعویٰ کیا ہے کہ مرسل صحابہ حجت ہے۔ ختم شد۔

حافظ نے ’’ الإصابۃ في تمییز الصحابۃ‘‘ (ص: ۲۸۱) میں کہا ہے کہ جب یہ بات ثابت ہو جائے کہ انھوں نے نبیﷺ سے ملاقات کی ہے تو راجح یہی ہے کہ وہ صحابی ہیں اور جب یہ ثابت ہو جائے کہ انھوں نے آپﷺ سے سماعت نہیں کی تو ان کی روایت مرسل صحابی ہے اور راجح یہی ہے کہ وہ روایت قبول کی جائے۔ نسائی نے ان کی متعدد احادیث کی تخریج کی ہے، جس سے امام نسائی کا رجحان ان کے اثباتِ صحبت کی طرف ظاہر ہوتا ہے۔ ان کی ایک حدیث کی تخریج ابوداود نے بھی کی ہے اور کہا ہے کہ طارق نے کہا کہ انھوں نے نبیﷺ کو دیکھا، لیکن کچھ سنا نہیں۔ ابوداود الطیالسی نے کہا ہے کہ ہمیں شعبہ نے قیس بن مسلم کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے طارق بن شہاب کے واسطے سے کہ میں نے نبیﷺ کو دیکھا ہے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں غزوہ بھی کیا ہے۔ یہ صحیح سند ہے۔ بغوی نے شعبہ کے طریق سے قیس بن مسلم کے واسطے سے تخریج کی ہے اور انھوں نے طارق کے واسطے سے کہ میں نے نبیﷺ کو دیکھا ہے۔ الحدیث۔ ختم شد۔‘‘ 

قال العلامۃ الزیلعي في تخریح أحادیث الھدایۃ (۲؍ ۱۹۹(

’’ قال النووي رحمہ اللہ في الخلاصۃ: قال أبوداود: طارق رأی النبيﷺ ولم یسمع منہ، وھذا غیر قادح في صحبتہ، فإنہ یکون مرسل صحابي، وھو حجۃ، والحدیث علی شرط الصحیحین، ورواہ الحاکم في المستدرک (۱؍ ۲۸۸) عن ھریم بن سفیان بہ عن طارق بن شھاب عن أبي موسی رضی اللہ عنہ مرفوعاً، وقال: ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین، ولم یخرجاہ، وقد احتجا بھریم بن سفیان، ورواہ ابن عیینۃ عن إبراھیم بن محمد فلم یذکر فیہ أبا موسی، وطارق بن شھاب یعد في الصحابۃ انتھی۔ قال البیھقي رحمہ اللہ في سننہ (۳؍ ۱۸۳) : ھذا الحدیث وإن کان فیہ إرسال فھو مرسل جید، وطارق من کبار التابعین، وممن رأی النبي ﷺ وإن لم یسمع عنہ، ولحدیثہ شواھد۔ انتھی

’’ وأخرج البیھقي من طریق الإمام محمد بن إسماعیل البخاري من روایۃ تمیم الداري عن النبيﷺ : (( الجمعۃ واجبۃ إلا علی صبي أو مملوک أو مسافر)) ورواہ الطبراني في معجمہ، وزاد فیہ: ((المرأۃ والمریض)) وأخرج البیھقي (۳؍۱۸۴) عن ابن عمر قال: سمعت رسول اللہﷺ یقول : (( الجمعۃ واجبۃ إلا علیٰ ما ملکت أیمانکم أو علی ذي علۃ )) انتھی کلام الزیلعي (نصب الرایۃ ۲؍۱۳۶(

وقال الحافظ في فتح الباري شرح صحیح البخاري:

’’ عند أبي داود من طریق طارق بن شھاب عن النبي ﷺ ورجالہ ثقات، لکن قال أبوداود: لم یسمع طارق من النبيﷺ إلا أنہ رآہ، وقد أخرجہ الحاکم في المستدرک میں طریق طارق عن أبي موسی الأشعري۔‘‘ انتھی (فتح الباری ۲؍ ۳۵۷(

قال الشوکاني في النیل:

’’ وقد اندفع الإعلال بالإرسال بما في روایۃ الحاکم من ذکر أبي موسی۔‘‘ انتھی (نیل الأوطار ۳؍ ۲۷۸(

’’ علامہ زیلعی نے ’’ تخریج أحادیث الھدایۃ‘‘ ( ص ۱۹۹، ح: ۲) میں کہا ہے کہ نووی نے ’’ الخلاصۃ‘‘ میں کہا ہے کہ ابوداود نے کہا ہے کہ طارق نے نبیﷺ کو دیکھا اور ان سے کچھ سماعت نہیں کیا۔ یہ ان کی صحبت میں غیر قادح ہے اور یہ مرسل صحابی ہے جو قابل حجت ہے اور حدیث صحیحین کی شرط کے مطابق ہے۔ حاکم نے ’’ المستدرک‘‘ (ص ۲۸۸، ح۱) میں ہریم بن سفیان کے واسطے سے روایت کی ہے، انھوں نے طارق بن شہاب کے واسطے سے اور انھوں نے ابو موسیٰ کے واسطے سے مرفوعاً اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیحین کی شرط کے مطابق ہے، لیکن ان دونوں نے اس کی تخریج نہیں کی ہے، البتہ دونوں نے ہریم بن سفیان کو قابل صحت مانا ہے اور ابن عینیہ نے اس کی روایت ابراہیم بن محمد کے واسطے سے کی ہے، لیکن اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ ابو موسیٰ اور طارق صحاب میں شمار کیے جاتے تھے۔ ختم شد۔

’’ بیہقی نے اپنی سنن (ص ۱۸۳ ج ۳) میں کہا ہے کہ اس حدیث میں گرچہ ارسال ہے، لیکن یہ مرسل جید ہے اور طارق کبار تابعین اور ان لوگوں میں سے تھے، جنھوں نے نبیﷺ کو دیکھا تھا، اگرچہ انھوں نے آپﷺ سے سماعت نہیں کی اور ان کی حدیث کے متعدد شواہد ہیں۔ ختم شد۔

امام بیہقی نے امام محمد بن اسماعیل بخاری کے طریق سے تمیم داری کی روایت کی تخریج نبی ﷺ کے واسطے سے کی ہے کہ جمعہ سب پر واجب ہے سوائے بچے، غلام اور مسافر کے۔ اس کی روایت طبرانی نے اپنی معجم میں کی ہے۔ اس میں ایک زیادتی اور بھی ہے کہ عورت اور مریض پر بھی جمعہ نہیں ہے۔ بیہقی نے (ص ۱۸۴ ج۲) اس کی تخریج ابن عمر کے واسطے سے کی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے نبیﷺ کو کہتے ہوئے سنا کہ جمعہ ہر شخص کے لیے واجب ہے سوائے غلام اور مریض کے۔ زیلعی کا کلام ختم ہوا۔

حافظ نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں کہا ہے کہ ابوداود کے نزدیک طارق بن شہاب کے طریق سے بواسطہ نبیﷺ۔ اس کے رجال ثقہ ہیں، لیکن ابوداود نے کہا کہ طارق نے نبیﷺ سے سماعت نہیں کی، البتہ ان کو دیکھا ضرور ہے۔ اس کی تخریج حاکم نے ’’المستدرک‘‘ میں کی ہے طارق کے طریق سے ابوموسیٰ اشعری کے واسطے سے۔ ختم شد۔ شوکانی نے ’’ النیل‘‘ میں کہا ہے کہ حاکم کی روایت کی بنا پر ابو موسیٰ کے ذکر سے ارسال کی علت ختم ہوگئی۔ ختم شد۔‘‘

پس ان سب عبارتوں سے صاف ظاہر ہوا کہ حدیث طارق بن شہاب کی صحیح اسناد ہے۔ اب کوئی محل گفتگو باقی نہ رہا۔ اور صحیح نسائی میں ہے:

’’ عن حفصۃ أن النبيﷺ قال : (( رواح الجمعۃ واجب علی کل محتلم)) رواہ النسائي، ورجال إسنادہ رجال الصحیح إلا عیاش بن عیاش، وقد وثقہ العجلي۔‘‘ 

صحیح نسائی میں باسناد صحیح حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ فرمایا رسول ﷺ نے جمعہ کی نماز کے لیے جانا فرض ہے ہر مرد جوان پر۔

’’ ویؤیدہ أیضا ما أخرجہ الدارقطني (ص: ۱۶۴) والبیھقي (۳؍۱۸۴) من حدیث جابر: (( من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فعلیہ الجمعۃ إلا امرأۃ أو مسافراً وعبداً أو مریضاً )) وفي إسنادہ ابن لھیعۃ ومعاذ بن محمد الأنصاري، وھما ضعیفان لکن یکفي للاستشھاد۔‘‘

’’ اس کی تائید وہ حدیث بھی کرتی ہے جس کی تخریج دارقطنی نے صفحہ (۱۶۴) میں کی ہے اور بیہقی نے (۲؍ ۱۸۴) میں کی ہے جابر کی حدیث کہ جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہو، اس پر جمعہ فرض ہے، سوائے عورت، مسافر، غلام اور مریض کے۔ اس سند میں ابن لہیعہ اور معاذ بن محمد انصاری ضعیف ہیں، لیکن استثہاد کے لیے کافی ہیں۔‘‘

پس آیت کریمہ اور ان احادیث مرقومہ بالا سے صاف معلوم ہوا کہ نماز جمعہ کی فرض عین ہے ہر مرد مسلمان صحیح حر بالغ مقیم پر خواہ شہر میں ہو خواہ دیہات میں اور اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے ہرگز یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ شہروں میں نماز جمعہ ادا کرو اور گاؤں میں نہ پڑھو۔ بلکہ جمعہ کی فرضیت آیت اور حدیث سے مطلق ثابت ہے۔ اس میں شہر کی قید نہیں ہے۔ پھر شہر کی قید بڑھانا زیادتی ہے کتاب اللہ تعالیٰ پر اور نزدیک حنفیوں کے وہ جائز نہیں ہے، مگر حدیث مشہور سے، جیسا کہ بیان مفصل اس کا آگے آتا ہے۔ پس جب فرضیت اس کی علی العموم ثابت ہوئی، شہر اور دیہات ہر جگہوں میں، پھر جو شخص باوجود ثبوت فرضیت کے دیہات میں جمعہ ادا نہ کرے، اس کی شان میں یہ وعید شدید وارد ہوئی ہے:

’’ عن أبي الجعد الضمري، وکانت لہ صحبۃ، أن رسول اللہﷺ قال: ((من ترک ثلاث جمع تھاوناً بھا طبع اللہ علی قبلہ )) رواہ أبو داود والترمذي والنسائي‘‘ (سنن أبي داود، رقم الحدیث ۱۰۵۲، سنن الترمذي، رقم الحدیث ۵۰۰، سنن النسائي ۱۳۶۹)

’’ فرمایا رسول اللہﷺ نے جو شخص تین جمعے چھوڑ دے گا سستی سے، مہر کردے گا اللہ تعالیٰ اس کے دل پر۔‘‘

’’ وعن أبي ھریرۃ وابن عمر أنھما سمعا النبيﷺ یقول علی أعواد منبرہ : (( لینتھین أقوام عن ودعھم الجمعات أو لیختمن اللہ علی قلوبھم، ثم لیکونن میں الغافلین)) رواہ مسلم، ورواہ أحمد والنسائي من حدیث ابن عمر و ابن عباس۔‘‘ (صحیح مسلم، رقم الحدیث :۱۳۷۰) ، ( مسند أحمد ۱؍ ۲۳۹، سنن النسائي، رقم الحدیث: ۱۳۷۰)

’’ رسول اللہﷺ منبر پر فرماتے تھے کہ باز آئیں لوگ نماز جمعہ کے چھوڑ دینے سے یا مہر کردے گا اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر، پھر ہو جائیں گے وہ غافلوں سے۔‘‘

’’ وعن ابن مسعود أن رسول اللہﷺ قال لقوم یتخلفون عن الجمعۃ: (( لقد ھممت أن آمر رجلا یصلي بالناس ثم أحرق علی رجال یتخلفون عن الجمعۃ بیوتھم )) رواہ أحمد و مسلم‘‘ (صحیح مسلم، رقم الحدیث ۶۵۲ ، مسند أحمد ۳۸۱۶)

’’ فرمایا رسول اللہﷺ نے ان لوگوں کی شان میں جو کہ نماز جمعہ میں حاضر نہیں ہوتے ہیں، البتہ ارادہ کیا میں نے اس بات کا کہ حکم کروں ایک شخص کو کہ پڑھائے لوگوں کو نماز، پھر حلا دوں گھر ان لوگوں کے جو کہ جمعہ میں حاضر نہیں ہوتے۔‘‘

’’ وعن عبداللہ بن أبي أوفی قال قال رسول اللہﷺ : (( من سمع النداء و لم یأتھا ثلاثا، طبع علی قلبہ، فجعلہ قلب منافق )) رواہ الطبراني في الکبیر۔ قال العراقي: إسنادہ جید۔‘‘ ( نیز حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ رواہ الطبراني في أکبر معاجمہ من حدیث ابن إسحاق عن شعبۃ عن محمد بن عبدالرحمن بن سعد بن زرارۃ عن ابن أبي أوفیٰ بہ، وھذا إسناد صحیح۔‘‘ (البدر المنیر: ۴؍ ۵۸۸) نیز دیکھیں: إتحاف المھرۃ لابن حجر ۸؍ ۲۷۲)

یعنی جس نے جمعہ کی نماز تین مرتبہ ناغہ کی، مہر کردی جائے گی اس کے دل پر۔ پس دل اس کا مثل دل منافق کے ہو جائے گا۔

اور ان کے سوا بہت ساری احادیث تارکین صلوٰۃِ جمعہ کے بارے میں وارد ہیں۔ اکثر ان احادیث کو حافظ عبدالعظیم منذری رحمہ اللہ نے کتاب ’’ الترغیب والترھیب‘‘ میں نقل کیا ہے۔ پس مسلمانوں کو لازم ہے کہ صلوٰۃ جمعہ کو شعائر اسلام سمجھ کر اس کے ادا میں غفلت و سستی نہ کریں اور وہ لوگ خواہ شہروں میں ہوں یا دیہات میں، فرضیت اس کی ان کے گلے سے اترتی نہیں۔ جس جگہ پر ہوں صلوٰۃ جمعہ کو جماعت سے ادا کریں۔ ورنہ مہر شقاوت ان کے دلوں پر لگا دی جائے گی اور دل ان کا مثل دل منافق کے ہو جائے گا۔ (الترغیب والترھیب ۱؍ ۲۹۴)

اب یہ معلوم کرنا چاہیے کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ مبارک میں نماز جمعہ ہر گاؤں میںپڑھی گئی تھی یا نہیں؟ پس جاننا چاہیے کہ ابوداود وابن ماجہ نے روایت کیا ہے:

’’ عن عبدالرحمن بن کعب بن مالک، وکان قائد أبیہ بعد ما ذھب بصرہ، عن أبیہ کعب، أنہ کان إذا سمع النداء یوم الجمعۃ ترحم لأسعد بن زرارۃ قال : فقلت لہ : إذا سمعت النداء ترحمت لأسعد بن زرارۃ؟ قال : لأنہ أول من جمع بنا في ھزم النبیت من حرۃ بني بیاضۃ في نقیع، یقال لہ: نقیع الخضمات۔ قلت: کم کنتم یومئذ؟ قال : أربعون رجلا‘‘ رواہ أبوداود وابن ماجہ، وقال فیہ : کان أول من صلی بنا قبل مقدم النبيﷺ من مکۃ۔‘‘ ( سنن أبي داود، رقم الحدیث ۱۰۶۹، سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث ۱۰۸۲)

’’ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب جمعہ کے دن اذان سنتے تو اسعد بن زرارہ کے واسطے دعا مانگتے۔ ان کے بیٹے نے کہا: کیا وجہ ہے جب آپ اذان سنتے ہیں تو اسعد بن زرارہ کے واسطے دعا مانگتے ہیں؟ انھوں نے کہا: اس واسطے کہ پہلے جمعہ انھوں نے قائم کیا ہزم النبیت میں، جو مدینہ میں بنی بیاضہ کے زمینوں میں سے نقیع میں ایک موضع ہے۔ نقیع وہ مقام ہے جہاں پانی بھرا رہتا ہے۔ جس کا نام نقیع الخضمات تھا۔ عبدالرحمن بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اس وقت آپ لوگوں کی تعداد کیا تھی؟ تو انھوں نے کہا کہ چالیس افراد۔ اسے ابوداود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن ماجہ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ اسعد رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ کے تشریف لانے سے پہلے سب سے پہلے جمعہ پڑھایا تھا۔‘‘

قال في النیل : ’’ وحدیث عبدالرحمن بن کعب أخرجہ أیضا ابن حبان، والبیھقي، وصححہ، قال الحافظ : وإسنادہ حسن، وھزم النبیت موضع من حرۃ بني بیاضۃ، وھي قریۃ علی میل من المدینۃ، وبنو بیاضۃ بطن من الأنصار۔‘‘ انتھی (نیل الأوطار ۳؍ ۲۸۲)

وقال الحافظ ابن الملقن في البدر المنیر: ’’ وإن کان في إسنادہ محمد بن إسحاق فقد ذکر سماعہ لہ ففي غیر سنن أبي داود: حدثني۔ قال البیھقي: وابن إسحاق إذا ذکر سماعہ وکان الراوي عنہ ثقۃ استقام الإسناد، قال في سننہ : وھذا حدیث حسن الإسناد صحیح، وقال في خلافیاتہ: رواتہ کلھم ثقات، وقال الحاکم: صحیح علی شرط مسلم۔‘‘ انتھی ( البدر المنیر ۴؍ ۶۰۰)

’’ النیل‘‘ میں کہا ہے کہ عبدالرحمان بن کعب کی حدیث کی تخریج ابن حبان اور بیہقی نے بھی کی ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ حافظ نے کہا ہے کہ اس کی سند حسن ہے۔ ہزم النبیت: بنی بیاضہ کے علاقے میں ایک مقام ہے۔ یہ بستی مدینے سے ایک میل کے فاصلے پر واقع ہے اور بنو بیاضہ انصار کی ایک شاخ ہے۔ ختم شد۔

’’ حافظ ابن الملقن نے ’’ البدر المنیر‘‘ میں کہا ہے کہ اگرچہ اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہیں، لیکن ابوداود کے علاوہ دوسری جگہ پر ان کے سماع کی تصریح موجود ہے۔ بیہقی نے کہا ہے کہ جب ابن اسحاق اپنے سماع کی تصریح کردے اور اس سے روایت کرنے والا ثقہ ہو تو سند مستقیم ہو جاتی ہے۔ انھوں نے اپنی سنن میں کہا ہے کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے حسن اور صحیح ہے، اور اپنی خلافیات میں کہا ہے کہ اس کے تمام روات ثقہ ہیں۔ حاکم نے کہا ہے کہ مسلم کی شرط پر یہ صحیح ہے۔ ختم شد۔‘‘

اور کہا زیلعی نے ’’ نصب الرایۃ‘‘ (۲؍ ۱۹۸) میں:

وفیہ محمد بن إسحاق، وھو مدلس، وقد عنعن، لکن رواہ البیھقي فصرح فیہ بالتحدیث۔ قال البیھقي (۳؍ ۱۷۷): وھذا حدیث حسن الإسناد صحیح، فإن ابن إسحاق إذا ذکر سماعہ، وکان الراوي عنہ ثقۃ، استقام الإسناد۔‘‘

’’ اس میں محمد بن اسحاق ہیں جو مدلس ہیں، جنھوں نے عن کے ساتھ روایت بیان کی ہے لیکن اس کو بیہقی نے روایت کیا ہے اور اس میں تحدیث کی صراحت ہے۔ بیہقی (۳؍ ۱۷۷) نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن الاسناد اور صحیح ہے، کیونکہ ابن اسحاق جب اپنے سماع کا ذکر کردے اور راوی ان سے ثقہ ہو تو سند مستقیم ہوتی ہے۔‘‘

اور روایت کیا امام بخاری نے صحیح بخاری میں، وابوداود (ص: ۴۱۳ج :۱) نے:

’’ عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال : أول جمعۃ جمعت في الإسلام بعد جمعۃ جمعت في مسجد رسول اللہﷺ بالمدینۃ لجمعۃ جمعت بجواثا قریۃ من قری البحرین۔ قال عثمان: قریۃ من قری عبدالقیس۔‘‘ (۱) صحیح البخاري، رقم الحدیث (۸۵۲) سنن أبي داود، رقم الحدیث ۱۰۶۸)

’’ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے پہلا جمعہ جو پڑھا گیا اسلام میں بعد اس جمعہ کے جو مسجد نبوی میں، وہ جمعہ ہے جو پڑھا گیا جواثا میں۔ جواثا ایک گاؤں ہے بحرین کے گاؤں میں سے۔ عثمان نے کہا: وہ گاؤں ہے عبدالقیس کے گاؤں میں سے۔‘‘

کہا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (۱؍ ۴۸۶) میں:

’’ قولہ: بجواثی من البحرین، وفي روایۃ وکیع: قریۃ من قری البحرین، وفي أخری عنہ: من قری عبد القیس، والظاھر أن عبد القیس لم یجمعو إلا بأمر النبي ﷺ لما عرف من عادۃ الصحابۃ من عدم الاستبداد بالأمور الشرعیۃ في زمن نزول الوحي، ولأنہ لو کان ذلک لا یجوز لنزل فیہ القرآن کما استدل جابر و أبو سعید علی جواز العزل فإنھم فعلوہ والقرآن ینزل، فلم ینھوا عنہ، وحکی الجوھري والزمخشري وابن الأثیر أن جواثی اسم حصن بالبحرین، وھذا لا ینافي کونھا قریۃ، وحکی ابن التین عن أبي الحسن اللخمي أنھا مدینۃ، وما ثبت في نفس الحدیث من کونھا قریۃ، صحیح مع احتمال أن تکون في الأول قریۃ ثم صارت مدینۃ۔‘‘ انتھی

’’ جواثا بحرین سے ہے۔ وکیع کی ایک روایت میں ہے کہ بحرین کے گاؤں میں سے ایک گاؤں ہے۔ انھیں سے دوسری روایت میں ہے کہ عبدالقیس کے گاؤں میں سے ہے اور ظاہر ہے کہ عبدالقیس جمعہ نہیں پڑھتے تھے، مگر نبیﷺ کے حکم سے، کیونکہ صحابہ کی عادت معروف تھی کہ امورِ شریعت میں نزولِ وحی کے وقت وہ بذات خود کوئی کام شروع نہیں کرتے تھے، اور اس لیے بھی کہ اگر ایسا فعل جائز نہ ہوتا تو قرآن میں اس کا نزول ہوتا، جیسا کہ جابر اور ابو سعید رضی اللہ عنہما نے عزل کے جواز کے سلسلے میں استدلال کیا ہے، کیونکہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور قرآن نازل ہو رہا تھا اور ان کو منع نہیں کیا گیا۔ جوہری و زمخشری اور ابن الاثیر نے بیان کیا ہے کہ جواثی بحرین میں ایک قلعے کا نام ہے، لیکن یہ گاؤں ہونے کے منافی نہیں ہے۔ ابن التین نے ابو الحسن لخمی کے واسطے سے بیان کیا ہے کہ یہ ایک شہر ہے۔ لیکن اسی حدیث میں اس کے گاؤں ہونے کا ذکر ہے تو یہ احتمال ہے کہ شروع میں وہ گاؤں تھا اور بعد میں شہر ہوگیا۔ ختم شد۔‘‘

وقال الحافظ أیضا في الفتح (۱؍ ۴۷۳):

’’ روی عبدالرزاق بإسناد صحیح عن محمد بن سیرین قال : جمع أھل المدینۃ قبل أن یقدمھا رسول اللہﷺ وقبل أن تنزل الجمعۃ، فقالت الأنصار: إن للیھود یوما یجتمعون فیہ کل سبعۃ أیام، وللنصاری کذلک، فھلم فلنجعل یوما نجتمع فیہ فنذکر اللہ تعالیٰ، ونصلي ونشکرہ فجعلوہ یوم العروبۃ، واجتمعوا إلی أسعد بن زرارۃ فصلی بھم یومئذ، وأنزل اللہ تعالیٰ بعد ذلک ﴿ اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمْعَۃِ …﴾  الآیۃ۔ وھذا إن کان مرسلا فلہ شاھد بإسناد حسن أخرجہ أحمد و أبوداود وابن ماجہ، وصححہ ابن خزیمۃ وغیر واحد، من حدیث کعب بن مالک قال : کان أول من صلی بنا الجمعۃ قبل مقدم رسول اللہﷺ المدینۃ أسعد بن زرارۃ الحدیث۔ فمرسل ابن سیرین یدل علی أن أولئک الصحابۃ اختاروا یوم الجمعۃ بالاجتھاد، ولا یمنع ذلک أن یکون النبيﷺ علمہ بالوحي، وھو بمکۃ فلم یتمکن من إقامتھا، ثم قد ورد فیہ حدیث عن ابن عباس رضی اللہ عنہما عند الدارقطني، ولذلک جمع لھم أول ما قدم المدینۃ کما حکاہ ابن إسحاق وغیرہ۔‘‘ انتھی کلامہ

’’ حافظ نے ’’ فتح الباری‘‘ (۱؍ ۴۷۳) میں کہا ہے کہ عبدالرزاق نے صحیح سند کے ساتھ روایت بیان کی ہے محمد بن سیرین کے واسطے سے، انھوں نے کہا کہ اہل مدینہ نے جمعہ قائم کیا رسول اللہﷺ کی تشریف آوری اور جمعہ کی فرضیت نازل ہونے سے قبل۔ چنانچہ انصار نے کہا کہ یہود کے لیے سات دنوں میں ایک دن مخصوص ہے جس دن وہ مجتمع ہوتے ہیں اور اسی طرح نصاریٰ کا بھی معاملہ ہے تو آؤ ہم لوگ بھی ایک دن مخصوص کرلیں، جس میں ہم لوگ مجتمع ہوں، اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، نماز پڑھیں اور اس کا شکر بجا لائیں۔ تو ان لوگوں نے ’’ یوم العروبہ‘‘ کا دن مخصوص کیا اور اسعد بن زرارہ کے یہاں مجتمع ہوئے، جہاں اس روز انھوں نے ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد یہ آیت نازل فرمائی کہ ’’جب جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے‘‘ یہ روایت اگرچہ مرسل ہے، لیکن اس کا ایک شاہد حسن سند کے ساتھ مروی ہے، جس کی تخریج احمد، ابوداود اور ابن ماجہ نے کی ہے اور ابن خزیمہ وغیرہ نے کعب بن مالک کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ کعب بن مالک نے کہا کہ رسول اللہﷺ کی مدینہ تشریف آوری سے قبل سب سے پہلے ہم نے نماز جمعہ اسعد بن زرارہ کے ساتھ پڑھی۔ الحدیث۔ ابن سیرین کی مرسل حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان صحابہ نے جمعہ کا دن اجتہاد سے اختیار فرمایا تھا اور یہ چیز اس بات میں مانع نہیں ہے کہ نبیﷺ کو مکے میں وحی کے ذریعے بتا دیا گیا ہو، لیکن اس وقت آپﷺ وہاں جمعے کی اقامت پر قادر نہیں تھے۔ دارقطنی کے ہاں اس سلسلے میں ابن عباس کے واسطے سے ایک حدیث وارد ہوئی ہے۔ اس لیے آپﷺ نے ان کے لیے جمعہ قائم کیا، جب سب سے پہلے مدینے میں تشریف لائے، جیسا کہ ابن اسحاق وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ کلام ختم ہوا۔‘‘

وقال الحافظ ابن حجر في التلخیص الحبیر (ص : ۱۳۳):

’’ روی الطبراني في الکبیر والأوسط عن أبي مسعود الأنصاري قال: ممن قدم من المھاجرین المدینۃ مصعب بن عمیر، وھو أول من جمع بھا یوم الجمعۃ، جمعھم قبل أن یقدم رسول اللہﷺ وھم اثنا عشر رجلا، وفي إسنادہ صالح بن أبي الأخضر، وھو ضعیف، ویجمع بأن أسعد کان آمرا، وکان مصعب إماما، وروی عبد بن حمید في تفسیرہ عن ابن سیرین قال : جمع أھل المدینۃ قبل أن یقدم النبيﷺ وقبل أن تنزل الجمعۃ، قالت الأنصار: للیھود یوم یجمعون فیہ کل سبعۃ أیام فذکر مثل ما تقدم، وروی الدارقطني من طریق المغیرۃ بن عبدالرحمن عن مالک عن الزھري عن عبید اللہ عن ابن عباس رضي اللہ عنھما قال : أذن النبي ﷺ الجمعۃ قبل أن یھاجر ، ولم یستطع أن یجمع بمکۃ فکتب إلی مصعب بن عمیر: أما بعد فانظر الیوم الذي تجھر فیہ الیھود بالزبور فاجمعوا نساء کم و أبناءکم فإذا مال النھار عن شطرہ عند الزوال من یوم الجمعۃ فتقربوا إلی اللہ برکعتین، قال : فھو أول من جمع حتیٰ قدم النبيﷺ المدینۃ فجمع عند الزوال من الظھر، وأظھر ذلک‘‘ انتھیٰ کلامہ (التلخیص الحبیر ۲؍ ۵۷)

وقال الإمام البیھقي في معرفۃ السنن والآثار:

’’ وروینا عن معاذ بن موسیٰ بن عقبۃ و محمد بن إسحاق أن النبيﷺ حین رکب من بني عمرو بن عوف في ھجرتہ إلی المدینۃ مرعلی بني سالم، وھي قریۃ بین قباء والمدینۃ، فأدرکتہ الجمعۃ فصلی فیھم الجمعۃ، وکانت أول جمعۃ صلاھا رسول اللہﷺ حین قدم‘‘ انتھی ( عون المعبود، ص ۴۱۵، ج۱) ( معرفۃ السنن والآثار ۴؍ ۳۲۰)

’’ وفیہ أیضا عن أبي حمزۃ عن ابن عباس قال : إن أول جمعۃ جمعت في الإسلام بعد جمعۃ جمعت في مسجد رسول اللہﷺ بالمدینۃ لجمعۃ جمعت بجواثا قریۃ من قری البحرین۔ قال عثمان قریۃ من قریٰ عبد القیس، أخرجہ البخاري في الصحیح، وکانوا لا یستبدون بأمور الشرع لجمیل نیاتھم في الإسلام فالأشبہ أنھم لم یقیموا في ھذہ القریۃ إلا بأمر النبيﷺ۔‘‘ انتھی کلام البیھقي رحمہ اللہ تعالیٰ (عون ص ۴۱۴ ج۱) ، (معرفۃ السنن والآثار ۴؍ ۳۱۷)

’’ حافظ ابن حجر نے ’’ التلخیص الحبیر‘‘ (ص: ۱۳۳) میں کہا ہے کہ طبرانی نے ’’الکبیر‘‘ اور ’’الاوسط‘‘ میں ابو مسعود انصاری کے واسطے سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے کہا کہ مہاجرین میں سے جو لوگ مدینے آئے، ان میں مصعب بن عمیر بھی تھے اور یہ پہلے شخص تھے، جنھوں نے رسول اللہﷺ کی تشریف آوری سے قبل جمعے کے روز لوگوں کو جمعے کے لیے اکٹھا کیا اور وہ بارہ افراد تھے۔ اس حدیث کی سند میں صالح بن ابو الاخضر ہیں، جو ضعیف ہیں۔ دونوں احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ اسعد حکم دینے والے تھے اور مصعب امام تھے۔ عبد بن حمید نے اپنی تفسیر میں ابن سیرین کے واسطے سے روایت بیان کی ہے، انھوں نے کہا کہ اہل مدینہ نبیﷺ کی تشریف آوری سے قبل اور جمعے کے نزول سے قبل جمع ہوئے تو انصار نے کہا کہ یہود کے لیے سات دنوں میں ایک دن مخصوص ہے، پھر پوری حدیث کا ذکر ہے جو اوپر گزری۔ دارقطنی نے مغیرہ بن عبدالرحمن کے طریق سے مالک کے واسطے سے روایت بیان کی ہے، انھوں نے زہری کے واسطے سے، انھوں نے عبید اللہ کے واسطے سے اور وہ ابن عباس کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ نبیﷺ نے ہجرت سے قبل جمعے کی اجازت دے دی تھی اور مکے میں جمعے کی اقامت کی استطاعت نہیں رکھتے تھے تو انھوں نے مصعب بن عمیر کو لکھا کہ اس دن کو دیکھو جس دن یہود زبور کو بالجہر پڑھتے ہیں۔ تو تم بھی اپنی عورتوں اور بچوں کو اکٹھا کرو اور جمعے کے روز اور نصف النہار میں زول کے وقت دو رکعت نماز ادا کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو۔ راوی نے کہا کہ نبیﷺ کے مدینے آنے سے قبل یہ سب سے پہلے جمعہ قائم کرنے والے تھے تو لوگوں نے ظہر میں زوال کے وقت جمعے کی نماز ادا کی۔ ان کا کلام ختم ہوا۔

’’ امام بیہقی نے ’’ معرفۃ السنن والآثار‘‘ میں کہا ہے کہ ہم نے معاذ بن موسیٰ بن عقبہ اور محمد بن اسحاق کے واسطے سے روایت کیا ہے کہ نبیﷺ نے جب مدینے کے لیے ہجرت کا رخت سفر باندھا تو نبی سالم کے پاس سے گزر ہوا، یہ ایک گاؤں ہے جو قبا اور مدینے کے درمیان واقع ہے۔ وہیں جمعہ کا وقت ہوگیا تو آپﷺ نے وہاں جمعہ ادا کیا اور یہ پہلا جمعہ تھا جو رسول اللہﷺ نے آنے کے بعد پڑھا۔ ختم شد

’’ اس میں ابو حمزہ کے واسطے سے یہ بھی ہے اور وہ ابن عباس کے واسطے سے کہ ابن عباس نے کہا کہ بے شک اسلام میں پہلا جمعہ، اس جمعے کے بعد جو مدینے کی مسجد نبوی میں قائم ہوا تھا، وہ جمعہ ہے جو جواثا میں قائم کیا گیا، یہ بحرین کے گاؤں میں سے ایک گاؤں ہے۔ عثمان نے کہا کہ یہ عبدالقیس کے گاؤں میں سے ایک گاؤں ہے۔ اس کی تخریج بخاری نے صحیح میں کی ہے۔ صحابہ کرام امرِ شریعت میں بذاتِ خود کوئی عمل ایجاد نہیں کرتے تھے، کیونکہ ان کے دلوں میں اخلاص تھا۔ زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ ان لوگوں نے اس گاؤں میں نبیﷺ کے حکم کے بعد ہی جمعہ قائم کیا ہوگا۔ کلام بیہقی ختم شد۔‘‘

ان روایات مذکورہ بالا سے بخوبی واضح ہوا کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ مبارک میں چار مرتبہ متعدد گاؤں میں نماز جمعہ کی پڑھی گئی:

اول: ہزم النبیت میں جو ایک گاؤں مدینہ سے ایک کوس کے فاصلہ پر واقع ہے۔ وہاں حضرت اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ نے ہمراہ جماعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نماز جمعہ کی پڑھی۔

دوسرے: جواثی جو ایک گاؤں ہے بحرین میں، وہاں صحابہ رضی اللہ عنہم نے جمعہ پڑھا۔

تیسرے: قبل ہجرت فرمانے رسول اللہﷺ کے طرف مدینہ کے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں بحکم رسول ﷺ نماز جمعہ پڑھایا۔ باوجود اس کے کہ اس وقت مدینہ منورہ بھی گاؤں ہی کے حکم میں تھا، البتہ بعد از ہجرت آبادی اس کی بہت بڑھ گئی تھی۔

صحیح بخاری کے ’’ باب فضل المدینۃ‘‘ میں ہے:

’’ عن أبي ھریرۃ قال قال رسول اللہﷺ : (( أمرت بقریۃ تأکل القریٰ یقولون: یثرب، وھي المدینۃ ))‘‘ الحدیث (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۱۷۷۲، صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۱۳۸۲)

’’ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھے ایک ایسی بستی کے بارے میں حکم دیا گیا جو دیگر بستیوں کو کھا جاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ یثرب ہے، حالانکہ وہ مدینہ ہے۔ الحدیث‘‘

چوتھے: رسول اللہﷺ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو بنی سالم میں، جو ایک گاؤں ہے درمیان قبا اور مدینہ کے، وہاں نماز جمعہ کی ادا فرمائی۔

جواب سوال دوم کا یہ ہے کہ شرائط و قیودات واسطے صحت صلوٰۃ جمعہ کے جو کتب حنفیہ میں مذکور ہیں، اس کا اثر و نشان احادیث صحیحہ مرفوعہ سے پایا نہیں جاتا۔ اسی واسطے علامہ شوکانی یمانی نے کتاب ’’ السیل الجرار المتدفق علی حدائق الأزھار‘‘ میں لکھا ہے:

’’ قولہ : وإمام عادل الخ أقول: لیس علی ھذا الاشتراط أثارۃ من علم، بل لم یصح ما یروی ذلک عن بعض السلف، فضلا عن أن یصح فیہ شيء من رسول اللہﷺ، ومن طول المقال في ھذا المقام فلم یأ بطائل قط، ولا یستحق مالا أصل لہ بل یشغلہ بردہ، بل یکفي فیہ أن یقال : ھذا کلام لیس من الشریعۃ، فکل ما لیس منھا فھو ردئ مردود علی قائلہ، مضروب بہ في وجھہ۔

’’ قولہ: وثلاثۃ مع مقیمھا۔ أقول: ھذا الاشتراط لھذا العدد لا دلیل علیہ قط، وھکذا اشتراطہ ما فوقہ من الأعداد، والاستدلال بأن الجمعۃ أقیمت في وقت کذا أو عدد من حضرھا کذا فھذا الاستدلال باطل لا یتمسک بہ من یعرف کیفیۃ الاستدلال، ولو کان ھذا صحیحا لکان اجتماع المسلمین معہ ﷺ في سائر الصلوٰۃ دلیلا علی اشتراط العدد، والحاصل أن صلوٰۃ الجمعۃ قد صحت لواحد مع الإمام، وصلوٰۃ الجمعۃ ھي صلوٰۃ من الصلوات فمن اشترط فیھا زیادۃ علی ما ینعقد فیہ الجماعۃ فعلیہ الدلیل، ولا دلیل، وقد عرفناک غیر مرۃ أن الشروط إنما تثبت بأدلۃ خاصۃ تدل علی انعدام المشروط عند انعدام شرطہ، فإثبات مثل ھذہ الشروط بما لیس بدلیل أصلا، فضلا أن یکون دلیلا علی الشریطۃ، ھي مجازفۃ بالغۃ، وجرأۃ علی التقول علی اللہ عزوجل وعلیٰ رسولہ وعلی شریعتہ، والعجب من کثرۃ الأقوال في تقدیر العدد حتی بلغت إلی ستۃ عشر قولا لیس علی شيء منھا دلیل یستدل بہ قط۔ قولہ: ’’ ومسجد في مستوطن‘‘ أقول: وھذا الشرط أیضاً لم یدل علیہ دلیل یصلح للتمسک بہ لمجرد الاستحباب فضلا عن الشریطۃ، ولقد کثر التلاعب بھذہ العبادۃ حتی وصل إلی حد یفضی منہ العجب، والحق أن ھذہ الجمعۃ فریضۃ من فرائض اللہ سبحانہ وتعالی، وشعار من شعارات الإسلام، وصلوٰۃ من الصلوات فمن زعم أنہ یعتبر فیھا مالا یعتبر في غیرھا من الصلوات لم یسمع منہ ذلک إلا بدلیل، و قد تخصصت بالخطبۃ، ولیست الخطبہ إلا مجرد موعظۃ، یتواعظ بہ عباد اللہ، فإذا لم یکن في المکان إلا رجلان قام أحدھما یخطب و استمع لہ الآخر، ثم قاما فصلیا صلوٰۃ الجمعۃ۔‘‘ انتھی کلامہ بحروفہ (السبل الجرار المتدفق علی حدائق الأزھار ۲؍ ۱۸۲)

’’ ان کا یہ کہنا کہ ’’ امام عادل ہو … الخ۔ میں کہتا ہوں کہ اس شرط پر کوئی علمی دلیل منقول نہیں، بلکہ اس سلسلے میں وہ بھی درست نہیں ہے جس کی روایت بعض سلف کے واسطے سے کی جاتی ہے۔ چہ جائیکہ رسول اللہﷺ سے یہ بات ثابت ہو۔ جس نے اس کے متعلق تفصیلی بحث کی ہے، وہ کوئی فائدہ مند چیز پیش نہیں کرسکا اور جس امر کی کوئی اصل نہ ہو، وہ تردید کے لیے اس کی مستحق نہیں کہ اس پر بحث کی جائے، بلکہ اس سلسلے میں یہ کہنا کافی ہے کہ یہ شرعی کلام نہیں ہوسکتا اور جو چیز شریعت میں ہے نہیں وہ قابل رد اور قائل کے منہ پردے مانے کے قابل ہے۔ ان کا کہنا کہ تین بندے ہوں جن میں ایک مقیم ہو۔ تو میں کہتا ہوں کہ تین کی یہ شرط بالکل بلا دلیل ہے اور اسی طریقے سے اس سے زیادہ تعداد کی شرط۔ اس سلسلے میں یہ استدلال کی نماز جمعہ فلاں وقت قائم کی گئی اور اس میں اتنے لوگ حاضر تھے۔ یہ استدلال باطل ہے اور وہ شخص ہی اس شرط کو گرہ میں باندھ سکتا ہے جو استدلال کی کیفیت سے نا آشنا ہو۔ اگر یہ بات درست مان لی جائے تو تمام مسلمانوں کا اجتماع آپﷺ کے ساتھ تمام نمازوں میں مخصوص عدد کی شرط کی دلیل ہوتا۔ حاصل کلام یہ کہ جمعے کی نماز امام کے ساتھ ایک آدمی کی بھی درست ہوگی۔ جمعہ کی نماز دیگر نمازوں ہی میں سے ایک نماز ہے اور جس نے زیادتی کی شرط لگائی ہے کہ اتنی تعداد پر جماعت منعقد ہوگی تو اسے چاہیے کہ وہ دلیل لائے اور حقیقت یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ ہم یہ بات متعدد بار بتا چکے ہیں کہ شرائط مخصوص دلائل سے ثابت ہوتی ہیں، جو شرط کے انعدام کے وقت مشروط کے انعدام پر دلالت کرتے ہیں، پس اس طرح کی شروط کا اثبات جس کی اصلاً کوئی دلیل نہیں ہے، چہ جائیکہ شریط پر دلیل ہو، یہ صریح ظلم اور جرأت ہے اللہ تعالیٰ پر اس کے رسول پر اور اس کی شریعت پر اور ان پرجھوٹی بات گھڑنے کے مترادف ہے۔ حد درجہ تعجب ہے کہ اس سلسلے میں یعنی عدد کے تعین کے سلسلے میں بہ کثرت اقوال ہیں۔ یہاں تک کہ سولہ اقوال ہیں اور کسی کی کوئی دلیل نہیں ہے، جس سے استدلال کیا جائے۔ درست بات یہ ہے کہ جس طرح بغیر شروط اور عدد کے دوسری جماعتیں ہوسکتی ہیں، اسی طرح جمعہ ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ مسجد آباد ہو یا آبادی میںہو تو میں کہتا ہوں کہ یہ شرط بھی ایسی ہے جس کے استحباب پر کوئیل دلیل نہیں لائی جاسکتی چہ جائیکہ اسے شرط بنایا جائے۔ اس عبادت کے بارے میں کھلواڑ بہت زیادہ ہوا ہے، حتیٰ کہ یہ کھلواڑ عجب کی حد کو بھی پار کر گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جمعہ اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض میں سے ایک فریضہ، اسلام کے شعائر میں سے ایک شعار اور نمازوں میں سے ایک نماز ہے اور جو گمان کرے اس میں ان اعتبارات کا جن کا اعتبار دوسری نمازوں میں نہیں ہے تو اس سلسلے میں اس سے کوئی بات بلا دلیل نہیں سنی جائے گی، البتہ جمعہ کی نماز کے ساتھ خطبہ مخصوص ہے اور خطبہ محض موعظت ہے، پس اگر کسی جگہ دو آدمی سے زیادہ نہیں ہیں تو ان میں ایک کھڑا ہو جائے گا اور خطبہ دے گا اور دوسرا سماعت کرے گا، پھر دونوں کھڑے ہوں گے اور جمعہ کی نماز پڑھیں گے۔ ان کا کلام انھی کے الفاظ میں ختم ہوا۔‘‘

مگر حنفیوں کا دعویٰ ہے کہ ماخذ ان شرائط و قیودات کا وہ اثر ہے، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:

’’ لا تشریق ولا جمعۃ ولا فطر ولا أضحی إلا مصر جامع‘‘

’’ نہ تشریق ہے نہ جمعہ ہے نہ فطر ہے اور نہ قربانی ہے مگر مصر جامع میں۔‘‘

لیکن معلوم کرنا چاہیے کہ یہ قول حدیث مرفوع نہیں ہے، جیسا کہ فرمایا امام بیہقی نے ’’معرفۃ السنن والآثار‘‘ میں:

’’ قال الشافعي في القدیم: وقال بعض الناس: لا تجوز الجمعۃ إلا في مصر جامع، وذکر فیہ شیئا ضعیفا، قال أحمد: إنما یروی ھذا عن علي فأمنا النبيﷺ فإنہ لا یروی عنہ في ذلک شيء۔‘‘ (معرفۃ السنن والآثار ۴؍ ۳۲۲)

’’ شافعی نے قدیم قول میں کہا ہے: ’’ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جمعہ جائز نہیں ہے مگر مصر جامع میں اور اس بارے میں ضعیف چیز کا ذکر کیا ہے۔ احمد نے کہا کہ اس کی روایت صرف علی کے واسطے سے کی جاتی ہے اور رہی نبیﷺ کی بات تو آپﷺ سے اس بابت کوئی چیز مروی نہیں ہے۔ ختم شد۔‘‘

اور تخریج زیلعی میں ہے:

’’ قلت : غریب مرفوعا، وإنما وجدناہ موقوفا علی علي۔‘‘( نصب الرایۃ ۲؍ ۱۳۴)

’’ میں نے کہا کہ مرفوعاً غریب (ضعیف) ہے اور ہم نے اسے علی رضی اللہ عنہ پر موقوف پایا ہے۔‘‘

اور کہا حافظ نے تلخیص میں:

’’ حدیث علي: لا جمعۃ ولا تشریق إلا في مصر۔ ضعفہ أحمد۔‘‘ (التلخیص الحبیر ۲؍ ۵۴)

’’ علی کی حدیث ’’ لا جمعۃ ولا تشریق إلا في مصر‘‘ کو احمد نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘

اور کہا ’’ درایہ تخریج احادیث ہدایہ‘‘ (ص : ۱۳۱) میں:

’’ قال البیھقي : لا یروی عن النبيﷺ في ذلک شيء‘‘ انتھی (الدرایۃ في تخریج أحادیث الھدایۃ ۱؍ ۲۱۴)

’’ بیہقی نے کہا کہ اس سلسلے میں نبیﷺ سے کوئی روایت نہیں بیان کی جاتی۔ ختم شد‘‘ 

بلکہ یہ قول حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے، روایت کیا اس کو عبدالرزاق نے مصنف میں:

’’ أخبرنا معمر عن أبي إسحاق عن الحارث عن علي، قال : لا جمعۃ ولا تشریق إلا في مصر جامع۔‘‘ ( مصنف عبدالرزاق ۳؍ ۱۶۷)

ورواہ ابن أبي شبیۃ: حدثنا عباد بن العوام عن حجاج عن أبي إسحاق عن الحارث عن علي قال: لا جمعۃ ولا تشریق ولا صلوٰۃ فطر ولا أضحی إلا في مصر جامع أو مدینۃ عظیمۃ۔ انتھی ( صنف ابن أبي شبیۃ ۱؍ ۴۳۹، نصب الرایۃ ۲؍ ۱۳۴)

والحدیثان ضعیفان، الحارث الأعور ضعیف جدا۔

ورواہ عبدالرزاق أیضا: أنبأ الثوري عن زبید الیامي عن سعد بن عبیدۃ عن أبي عبد الرحمن السلمي عن علي قال : لا تشریق ولا جمعۃ إلا في مصر جامع۔‘‘ (مصنف عبدالرزاق ۳؍ ۱۶۸)

قال في الدرایۃ (ص : ۱۳۱) : إسنادہ صحیح۔

وقال البیھقي في المعرفہ: أخبرنا علي بن أحمد بن عبدان قال: حدثنا شعبۃ عن زبید الیامي عن سعد بن عبادۃ عن أبي عبدالرحمن السلمي عن علي قال : لا تشریق ولا جمعۃ إلا في مصر جامع، وکذلک رواہ الثوري عن زبید موقوفا۔ انتھی ( معرفۃ السنن والآثار ۴؍ ۳۲۳)

وأخرج ابن أبي شیبۃ حدثنا جریر عن منصور عن طلحۃ عن سعد بن عبیدۃ عن أبي عبدالرحمن عن علي: لا جمعۃ ولا تشریق۔ الحدیث۔ قال العیني في شرح البخاري: ’’ سندہ صحیح‘‘( مصنف ابن أبي شیبۃ ۱؍ ۴۳۹) ،(عمدۃ القاري ۶؍ ۲۸۹)

’’ ہمیں معمر نے بتایا ابو اسحاق کے واسطے سے، انھوں نے حارث کے واسطے سے اور انھوں نے علی کے واسطے سے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جمعہ اور تشریق صرف شہر کی جامع مسجد میں ہے۔ اس کی روایت ابن ابی شیبہ نے کی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہمیں عباد بن عوام نے حجاج کے واسطے سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو اسحاق کے واسطے سے اور وہ علی رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہ جمعہ کی نماز، نہ تشریق، نہ عیدالفطر اور نہ عیدالاضحی کی نماز جائز ہے، مگر مصر جامع میں یا کسی بڑے شہر میں۔ ختم شد۔ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں۔ حارث الاعور بہت زیادہ ضعیف ہے۔ اس کی روایت عبدالرزاق نے بھی کی ہے کہ ثوری نے زبید یامی کے واسطے سے خبر دی، انھوں نے سعد بن عبیدہ کے واسطے سے، انھوں نے ابو عبدالرحمن السلمی کے واسطے سے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: جمعہ اور تشریق صرف مصر جامع ہی میں ہے۔ ’’ الدرایہ‘‘ (ص : ۱۳۱) میں کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔ بیہقی نے ’’ المعرفۃ‘‘ میں کہا ہے کہ ہمیں بتایا علی بن احمد بن عبدان نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے زبید یامی کے واسطے سے، وہ سعد بن عبادہ کے واسطے سے، وہ ابو عبدالرحمن السلمی سے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہ تشریق ہے اور نہ جمعہ مگر مصر جامع میں۔ اسی طرح سے ثوری نے زبید کے واسطے سے موقوفاً روایت کی ہے۔ ختم شد۔ امام ابن ابی شیبہ نے تخریج کی ہے کہ ہمیں جریر نے حدیث بیان کی منصور کے واسطے سے، وہ طلحہ کے واسطے سے، وہ سعد بن عبیدہ سے، وہ ابو عبدالرحمن کے واسطے سے اور وہ علی رضی اللہ عنہ کے واسطے سے کہ نہ جمعہ ہے اور نہ تشریق، الحدیث۔ عینی نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔‘‘ 

جواب اس کا یہ ہے کہ اس قول کا مرفوع ہونا ثابت نہیں۔ پس جب قول رسول اللہﷺ کا نہیں ہوا، پس یہ اثر بمقابل آیتِ قرآن و حدیث مرفوع : (( الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم)) کے حجت نہیں ہے۔ البتہ یہ قول حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بچند طرق مروی ہے۔ بعض سند اس کی ضعیف و بعض صحیح ہے، جیسا کہ بیان اس کا مفصلاً گزرا اور پھر بعد صحتِ سند یہ معلوم نہیں ہے کہ مصر جامع کی تفسیر کیا ہے؟ ( سنن أبي داود، رقم الحدیث ۱۰۶۷)

اسی واسطے کہا امام شافعی نے:

’’ ولا ندري ما حد المصر الجامع؟‘‘ أخرجہ البیھقي في المعرفۃ۔ (معرفۃ السنن والآثار ۴؍ ۳۲۳)

’’ ہمیں نہیں معلوم کہ مصر جامع کی تفسیر کیا ہے؟ اس کی تخریج بیہقی نے المعرفہ میں کی ہے۔‘‘

اور جو کہا شیخ ابن الہمام نے فتح القدیر میں:

’’ وکفی بعلي قدوۃ وإماما ‘‘ ( فتح القدیر ۲؍ ۵۱)

’’ علی رضی اللہ عنہ کا قد وہ اور امام کے طور پر ہونا کافی ہے۔‘‘

وہ قابل تسلیم نہیں ہے۔ لأنہ للاجتھاد فیہ مسرح فلا ینھض للاحتجاج بہ۔

’’ کیونکہ اس میں اجتہاد کی گنجایش ہے، اس لیے اس کو حجت نہیں بنایا جاسکتا۔‘‘

اور تعجب سخت و مقام حیرت ہے کہ ائمہ احناف کی تمامی کتبِ اصول مالا مال ہے اس بات سے کہ خبر آحاد سے تخصیص نص قرآن شریف کی نہیں ہوتی ہے اور زیادتی قرآن پر خبر آحاد سے جائز نہیں، جیسا کہ تلویح میں ہے:

’’ وإنما یرد خبر الواحد في معارضۃ الکتاب لأن الکتاب مقدم لکونہ قطعیاً متواتر النظم، لا شبھۃ في متنہ ولا سندہ۔‘‘ انتھی (شرح التلویح علی التوضیح ۲؍ ۱۷)

’’ قرآن سے معارضے کی صورت میں خبر واحد کو رد کردیا جائے گا، کیونکہ قرآن مقدم ہے اس لیے کہ وہ قطعی اور متواتر النظم ہے۔اس کے متن میں شبہہ ہے اور نہ اس کی سند میں۔ ختم شد۔‘‘

اور بھی تلویح میں ہے:

’’ لا یجوز تخصیص الکتتاب بخبر الواحد، لأن خبر الواحد دون الکتاب، لأنہ ظني، والکتاب قطعي، فلا یجوز تخصیصہ لأن التخصیص تفسیر، وتفسیر الشيء لا یکون إلا بما یساویہ أو یکون فوقہ۔‘‘ انتھی (مصدر سابق ۲؍ ۳۹)

’’ خبر واحد سے قرآن کی تخصیص جائز نہیں ہے، کیونکہ خبر واحد قرآن سے کم تر ہے اور اس لیے بھی کہ وہ ظنی ہے اور قرآن قطعی، تو اس کی تخصیص جائز نہیں ہے، کیونکہ تخصیص تفسیر ہوتی ہے اور کسی چیز کی تفسیر اس کے مساوی یا اس سے اوپر کے درجے کی چیز ہی سے ہوسکتی ہے۔ ختم شد۔‘‘

اور اصول الشاشی میں ہے:

’’ شرط العمل بخبر الواحد أن لا یکون مخالفاً للکتاب والسنۃ المشھورۃ۔‘‘ انتھی ( أصول الشاشي ص: ۱۷۶)

’’ خبر واحد پر عمل کی شرط یہ ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت مشہورہ کے مخالف نہ ہو۔ ختم شد‘‘

اور نور الانوار میں ہے:

’’ ونسخ وصف في الحکم بأن ینسخ عمومہ وإطلاقہ، ویبقی أصلہ، وذلک مثل الزیادۃ علی النص فإنھا نسخ عندنا، ولا یجوز عندنا إلا بالخبر المتواتر والمشھور۔‘‘ انتھی

’’ حکم میں کسی وصف کا نسخ اس طور سے ہو کہ اس کے عموم اور اطلاق دونوں کو منسوخ کردے اور اس کی اصل باقی رہے۔ یہ نص پر زیادتی کے مثل ہے جو ہمارے نزدیک نسخ ہے اور یہ ہمارے نزدیک خبر متواتر اور مشہور کے بغیر جائز نہیں ہے۔ ختم شد۔‘‘

چنانچہ بنا بر اسی اصول مقررہ کے کتنی احادیث صحیحہ مرفوعہ رد کی گئی ہیں؟ اور پھر باوجود اس شدت کے یہ ایک اثر جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرقوفاً مروی ہے اور خبر مرفوع آحاد کے درجہ میں بھی نہیں ہے، اس سے نص قرآن پر زیادتی اور اس کی تخصیص کی جاتی ہے اور اس کے حکم عام کا یہ اثر ناسخ ٹھہرایا جاتا ہے۔ یعنی نص قرآن میں حکم مطلق ہے واسطے صلوٰۃ جمعہ کے شہر و قصبات و دیہات ہر جگہوں میں۔ پھر اس حکم مطلق پر یہ زیادتی کرنا کہ دیہات میں صلوٰۃ جمعہ جائز نہیں اور عموم حکم قرآن کا ناسخ ٹھہرانا، بالکل مخالف ہے ان کے اس اصول مقررہ کے۔ وعلی کل حال یہ اثر موقوف قابل احتجاج نہیں، کیونکہ اثر موقوف کو قوت معارضہ خبر مرفوع کے نہیں۔ اور علاوہ اس کے دوسرے اجلائے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مثل حضرت عمر و عثمان و ابن عمر و ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کے خلاف اس اثر کے ثابت ہے۔ یعنی ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے دیہات میں جمعہ پڑھنے کی اجازت دی ہے اور ان کے زمانہ میں گاؤں میں جمعہ پڑھا گیا ہے، جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ میں مروی ہے اور بیہقی نے کتاب المعرفہ میں صحیح ابن خزیمہ سے نقل کیا ہے۔

قال البیھقي : ’’ روی محمد بن إسحاق بن خزیمۃ عن علي بن خشرم عن عیسی بن یونس عن شعبۃ عن عطاء بن أبي میمونۃ عن أبي رافع أن أباھریرۃ کتب إلی عمر یسألہ عن الجمعۃ، وھو بالبحرین، فکتب إلیھم أن جمعوا حیث ما کنتم۔ قال البیھقي: معناہ أي قریۃ کنتم فیھا، لأن مقامھم من البحرین إنما کان في القری۔ قال أحمد ( یعني البیھقي) : وھذا الأثر إسنادہ حسن۔‘‘ انتھی (معرفۃ السنن والآثار ۴؍ ۳۲۳)

’’ بیہقی نے کہا کہ محمد بن اسحاق بن خزیمہ نے علی بن خشرم کے واسطے سے روایت کی، انھوں نے عیسیٰ بن یونس کے واسطے سے، انھوں نے شعبہ کے واسطے سے، انھوں نے عطا بن ابو میمونہ کے واسطے سے اور وہ ابو رافع کے واسطے سے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے جمعہ کے بارے میں لکھ کر دریافت کیا، جبکہ وہ بحرین میں تھے، تو انھوں نے ان کو جواب دیا کہ جہاں بھی آپ لوگ ہیں جمعہ قائم کریں۔ بیہقی نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم جس گاؤں یا قریہ میں بھی ہو۔ کیونکہ وہ لوگ بحرین کے مقام پر گاؤں میں تھے۔ بیہقی نے کہا ہے کہ اس اثر کی سند حسن ہے۔ ختم شد۔‘‘

اور بھی کتاب المعرفہ میں ہے:

’’ وحکي اللیث بن سعد أن أھل الأسکندریۃ ومدائن مصر سواحلھا کانوا یجمعون الجمعۃ علی عھد عمر بن الخطاب وعثمان بن عفان بأمرھما وفیھا رجال من الصحابۃ۔‘‘ انتھی (معرفۃ السنن والآثار ۴؍ ۳۲۲)

’’ لیث نے بیان کیا ہے کہ اہل اسکندریہ، مدائن مصر اور اس کے ساحلی علاقے کے لوگ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان کے حکم سے جمعہ قائم کرتے تھے اور وہاں بہت سے صحابہ موجود تھے۔ ختم شد۔‘‘

اور ’’ فتح الباري شرح صحیح البخاري‘‘ میں ہے:

’’ وعن عمر أنہ کتب إلی أھل البحرین أن جمعوا حیث ما کنتم، وھذا یشمل المدن والقری، أخرجہ ابن أبي شیبۃ من طریق أبي رافع عن أبي ھریرۃ عن عمر، وصححہ ابن خزیمۃ، وروی البیھقي من طریق الولید بن مسلم : سألت اللیث بن سعد فقال: کل مدینۃ أو قریۃ فیھا جماعۃ أمروا بالجمعۃ، فإن أھل مصر و سواحلھا کانوا یجمعون علی عھد عمر وعثمان بأمرھما، وفیھا رجال من الصحابۃ، وعند عبدالرزاق بإسناد صحیح عن ابن عمر أنہ کان یری أھل المیاہ بین مکۃ والمدینۃ یجمعون فلا یعیب علیھم، فلما اختلف الصحابۃ وجب الرجوع إلی المرفوع۔‘‘ انتھی کلام الحافظ ( فتح الباري ۲؍ ۳۸۰)

’’ عمر رضی اللہ عنہ نے اہل بحرین کو لکھا کہ وہ جمعہ قائم کریں جہاں کہیں بھی ہیں۔ یہ حکم شہر اور گاؤں دونوں کو شامل ہے۔ اس کی تخریج ابن ابی شیبہ نے ابو رافع کے طریق سے، انھوں نے ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے اور وہ عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے کرتے ہیں۔ ابن خزیمہ نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ بیہقی نے ولید بن مسلم کے طریق سے روایت کی ہے کہ میں نے لیث بن سعد سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ہر شہر اور گاؤں جہاں لوگوں کی جماعت ہو، وہاں جمعہ قائم کرنے کا حکم دیا جائے گا، کیونکہ اہل مصر اور اس کے ساحلی علاقے کے لوگ عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے حکم پر ان کے زمانوں میں جمعہ قائم کرتے تھے اور وہاں بہت سارے صحابہ بھی موجود تھے۔ مصنف عبدالرزاق میں صحیح سند کے ساتھ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت ہے کہ وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان مختلف بستیوں والوں کو دیکھتے تھے کہ وہ جمعہ قائم کرتے ہیں، تو وہ ان کو منع نہیں کرتے تھے۔ جب صحابہ میں اختلاف ہو جائے تو مرفوع حدیث کی جانب رجوع واجب ہو جاتا ہے۔ حافظ کا کلام ختم ہوا۔‘‘

اور ’’ تلخیص الحبیر‘‘ میں ہے:

’’ قال ابن المنذر في الأوسط: روینا عن ابن عمر أنہ کان یری أھل المیاہ بین مکۃ والمدینۃ یجمعون، ولا یعیب ذلک علیھ، ثم ساقہ موصولا، وروی سعید بن منصور عن أبي ھریرۃ أن عمر کتب إلیھم أن جمعوا حیث ما کنتم۔‘‘ انتھی ( التلخیص الحبیر ۲؍۵۴)

’’ ابن المنذر نے ’’الاوسط‘‘ میں کہا ہے کہ ہم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت کیا ہے کہ وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان اہل میاہ کو دیکھا کرتے تھے کہ وہ جمعہ قائم کرتے ہیں تو وہ ان کے اس عمل پر کوئی عیب چینی نہیں کرتا تھا۔ پھر اس حدیث کو موصولاً بیان کیا ہے۔ سعید بن منصور نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت بیان کی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے پا س لکھ بھیجا کہ جمعہ قائم کرو، جہاں کہیں بھی تم لوگ ہو۔ ختم شد۔‘‘

پس یہ آثار حضرت عمر و عثمان و ابن عمر و ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کے مطابق حکم مطلق قرآن و حدیث مرفوع کے ہیں۔ تو اب اسی پر عمل واجب و لازم ہے۔

قال اللہ تعالٰی: ﴿ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾  (الأحزاب: ۲۱)

’’ یقینا تمہارے لیے رسول اللہﷺ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے۔‘‘

وقال: ﴿ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ﴾ ( النساء: ۸۰)

’’ اس رسول (ﷺ) کی جو اطاعت کرے، اسی نے اللہ کی فرمانبرداری کی۔‘‘

اور علاوہ اس کے ائمہ احناف رحمہم اللہ نے مصر جامع کی بنا پر مسلک کرخی کے جو تفسیر کی ہے کہ وہ شہر ایسا ہو جہاں حاکم و قاضی رہتا ہو اور اس کے سبب سے اقامت حدود وغیرہ جاری ہو۔

جیسا کہ ہدایہ میں ہے:

’’ والمصر الجامع: کل موضع لہ أمیر وقاض ینفذ الأحکام، ویقیم الحدود، وھذا عند أبي یوسف، وعنہ أنھم إذا اجتمعوا في أکبر مساجدھم لم یسعھم، والأول اختیار الکرخي، وھو الظاھر، والثاني اختیار البلخي۔‘‘ ( الھدایۃ ص: ۸۲)

’’ مصر جامع وہ جگہ ہے، جہاں ایک امیر اور ایک قاضی ہو، جو احکام نافذ کرتا اور حدود قائم کرتا ہو۔ یہ ابو یوسف کے نزدیک ہے اور انھی سے یہ بھی منقول ہے کہ جب لوگ اپنی بڑی مسجد میں جمع ہو جائیں جو ان کو کافی نہ ہو۔ پہلا کرخی کا اختیار ہے اور وہی ظاہر ہے اور دوسرا بلخی کا اختیار ہے۔‘‘

اور بعضوں نے یوں تفسیر کی کہ وہ ایسا شہر ہو کہ جہاں بازاریں دوکانیں ہوں اور حاکم بھی رہتا ہو، کہ جس سے انصاف درمیان ظالم و مظلوم ہوتا ہو، جیسا کہ فتح القدیر میں ہے:

’’ بلدۃ فیھا سکک وأسواق و وال، ینتصف المظلوم من الظالم، وعالم یرجع إلیہ في الحوادث۔‘‘ ( فتح القدیر ۲؍ ۵۲)

’’ ایسا شہر جس میں گلیاں اور بازار ہوں اور ایسا والی ہو جو مظلوم کو ظالم سے انصاف دلا سکے اور ایک ایسا علم ہو جس کی طرف مسائل و حوادث کے وقت رجوع کیا جاسکے۔‘‘

تو ان دونوں تفسیر کے جو بنا ربر مسلک کرخی کے ہے، اس کی کچھ اصلیت کتاب و سنت سے معلوم نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ منقول نہیں کہ صحابہ و تابعین نے زمانہ امارت یزید بن معاویہ میں نماز جمعہ ترک کیا ہو۔ باوجود اس کے کہ ظلم یزید بن معاویہ کا اظہر من الشمس تھا اور ہزاروں خون ناحق اس نے کیے اور پھر انصاف ظالم و مظلوم سے اس کو کیا علاقہ؟ بلکہ بعد وفات حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے امارۃ بنی امیہ میں حدود میں نہایت سستی ہوگئی اور انصاف ظالم و مظلوم کا بالکل مفقود ہوگیا۔ ہاں البتہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی خلافت اور بعض عباسیہ کی امارت میں اقامت حدود وغیرہ تھی۔ پھر اس کے ساتھ بھی کہیں یہ منقول نہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ و تبع تابعین نے نمازجمعہ ترک کیا ہو، ورنہ ترک کرنا ان لوگوں کا ضرور منقول ہوتا۔ ( یہ بات مولانا رحمہ اللہ نے یزید کے متعلق عام شہرت کی بنا پر کی ہے، بغرض الزام، نہ کہ بربنائے تحقیق۔ فتدبر) ۔ [ع، ح]

دیکھو! مولانا عبدالعلی رحمہ اللہ (بحر العلوم) لکھنوی نے ’’ارکان اربعہ‘‘ میں لکھا ہے:

’’ اختلف الروایات في مذھبنا، ففي ظاہر الروایات: بلدۃ بھا إمام وقاض، یصلح لإقامۃ الحدود، وفي القدیر: بلدۃ فیھا سکک وأسواق ووال ینتصف المظلوم من الظالم، وعالم یرجع إلیہ في الحوادث، وھذا أخص ، وحملوا قول أمیر المؤمنین علي رضی اللہ عنہ ما رواہ عبدالرزاق: لا تشریف ولا جمعۃ إلا في مصر جامع۔ علی أحد ھٰذین الروایتین، فإن المصر الجامع لا یکون إلا ما ھذا شأنہ، وعلی التفسیر الأول المصر الذي والیہ کافر، لا تجب فیہ الجمعۃ، وعلی التفسیر الثاني لا تجب في المصر الذي والیہ ظالم، لا ینتصف المظلوم من الظالم، ویرد ھذین الروایتین أن الصحابۃ والتابعین لم یترکوا الجمعۃ في زمان یزید مع أنہ لا شبھۃ في أنہ کان من أشد الناس ظلما، لأنہ ھتک حرمۃ أھل البیت، وبقي مصرا علیہ، ولم یمر علیہ وقت إلا کان ھو بصدد الظلم من إباحۃ دماء الصحابۃ الأخیار، وأما انتصاف المظلوم من الظالم فبعید منہ کل البعد، فافھم، وإن شرط إقامۃ الحدود وانتصاف المظلوم من الظالم ینفي وجوب الجمعۃ مع أنھا من شعائر الإسلام، ونحن نقول: قد وقع التھاون في إقامۃ الحدود وانتصاف المظلوم من الظالم في إارۃ بني أمیۃ بعد وفاۃ معاویۃ إلا في زمان عمر بن عبدالعزیز، وفي إمارۃ بعض العباسیۃ، ولم یترک الجمعۃ أحد من الصحابۃ و التابعین ومن تبعھم فعلم أنھما لیس بشرطین۔‘‘ انتھی

’’ ہمارے مذہب میں روایات مختلف ہیں۔ ظاہر الروایۃ سے پتا چلتا ہے کہ (مصر جامع) ایک ایسا شہر؍ قصبہ جس کا ایک امام اور ایک قاضی ہو جو حدود قائم کرتا ہو۔ ’’فتح القدیر‘‘ میں ہے کہ بلدۃ وہ ہے جس میں گلیاں اور بازار ہوں اور ایک والی ہو جس سے مظلوم کو ظالم سے انصاف ملے اور ایک عالم ہو جس کی طرف حوادث کے وقت رجوع کیا جاتا ہو۔ یہ تعریف زیادہ مخصوص ہے۔ ان لوگوں نے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول ’’ جمعہ اور تشریق صرف مصر جامع میں ہے‘‘ کو محمول کیا ہے ان دونوں روایتوں میں سے ایک روایت پر، کیوں کہ مصر جامع کی تعریف مکمل نہیں ہوتی ہے مگر ان خصوصیات کے ساتھ۔ پہلی تفسیر کے مطابق مصر وہ ہے جس کا والی کافر ہو، اس میں جمعہ واجب نہیں ہے اور دوسری تفسیر کے مطابق اس شہر میں جمعہ واجب نہیں ہے جس کا والی ظالم ہو اور ظالم سے مظلوم کو انصاف نہ ملتا ہو۔ یہ دونوں روایات رد کردی جائیں گی، کیونکہ صحابہ و تابعین نے یزید کے زمانے میں جمعہ ترک نہیں کیا، اس کے باوجود کہ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت بڑا ظالم تھا، جس نے اہل بیت کی حرمت کو تار تار کیا اور وہ اپنی ان حرکتوں پر مصر رہا اور کوئی وقت ایسا نہیں گزرا جبکہ اس نے اپنے بے پناہ مظالم کے ذریعے صحابہ کا خون نہ بہایا ہو۔ رہا معاملہ ظالم سے مظلوم کی داد رسی کا تو اس سے اس کی دور دور تک امید نہیں۔ تو یہ بات جان لو کہ اقامتِ حدود کی شرط اور ظالم سے مظلوم کی داد رسی کی شرط وجوبِ جمعہ کے منافی ہے، حالانکہ جمعہ شعائر اسلام میں سے ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اقامتِ حدود اور مظلوم کی داد رسی کے معاملے میں بنو امیہ کے دور میں بڑی سستی آگئی تھی، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد سوائے عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں اور بعض عباسی خلفا کے عہد امارت میں، ان حالات میں صحابہ و تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے کسی نے بھی جمعہ ترک نہیں کیا۔ پس یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ دونوں شرطیں نہیں ہیں۔ ختم شد۔‘‘ 

اور علاوہ اس کے اسعد بن زرارہ نے قبل قدوم رسول اللہﷺ کے نماز جمعہ جو ہزم النبیت میں ہمراہ جماعت صحابہ ادا کیا اور پھر رسول اللہﷺ نے وقت قدوم مدینہ منورہ بعد خروج از قبا کے صلوٰۃ جمعہ کو جو بنی سالم میں ادا فرمایا، یہ دونوں واقعے مبطل اس مسلک کرخی کے ہیں، کیونکہ مدینہ منورہ قبل از قدوم اور بھی ابتداء زمانہ قدوم رسول اللہﷺ میں دار اقامت حدود و تنفیذ احکام مطابق مسلک کرخی کے ہرگز نہیں تھا۔ جیسا کہ کتب احادیث و سیر سے واضح و ظاہر ہے اور تفصیل اس امر کی کتاب ’’ النور اللامع في أخبار صلوۃ الجمعۃ عن النبي الشافع‘‘ میں ان شاء اللہ تعالیٰ لکھی جائے گی۔ وفقني اللہ تعالی لإتمامہ کما وفقني لا بتدائہ، وما ذلک علی اللہ بعزیز۔

اور منجملہ شرائط صحتِ جمعہ نزدیک ائمہ احناف کے اذنِ سلطان بھی ہے اور اس کی بھی کوئی اصلیت نہیں معلوم ہوتی ہے، بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ فتنہ میں چالیس دن محصور رہے اور وہ یقینا امام حق تھے۔ بایں ہمہ حضرت علی و طلحہ و ایوب و سہل بن حنیف و ابو امامہ رضی اللہ عنہم وغیرہم نماز عیدین وغیرہ پڑھاتے رہے اور اذن طلب کرنا ان لوگوں کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے منقول نہیں۔

جیسا کہ موطا امام مالک میں ہے:

’’ مالک عن ابن شھاب عن أبي عبید مولی بن أزھر قال : شھدت العید مع علي بن أبي طالب، وعثمان محصور، فجاء فصلی، ثم انصرف فخطب۔‘‘ انتھی (موطأ الإمام مالک ۱؍ ۱۷۸)

وھکذا أخرجہ الشافعي وابن حبان، وقال الرافعي في شرح الوجیز: ’’ روي أن علیا أقام الجمعۃ، وعثمان محصور۔‘‘ ( مسند الشافعي ص: ۶۱، صحیح ابن حبان ۸؍ ۳۶۴) ، (فتح العزیز شرح الوجیز ۴؍ ۵۳۷)

قال الحافظ ابن حجر في التلخیص: ’’ وکأن الرافعي أخذہ بالقیاس لأن من أقام العید لا یبعد أن یقیم الجمعۃ فقد ذکر سیف في الفتوح أن مدۃ الحصار کانت أربعین یوما لکن قال : کان یصلي بھم تارۃ طلحۃ، و تارۃ عبدالرحمن بن عدیس، وتارۃ غیرھما۔‘‘ انتھی (التلخیص الحبیر (۲؍ ۵۸)

’’ مالک، شہاب کے واسطے سے، وہ ابو عبید مولی بن ازہر کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ میں نے عید کی نماز علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ پڑھی اور عثمان رضی اللہ عنہ محصور تھے، وہ آئے اور انھوں نے نماز پڑھی پھر پلٹے اور خطبہ دیا۔ ختم شد۔ اس کی تخریج شافعی اور ابن حبان نے کی ہے اور رافعی نے شرح الوجیز میں کہا ہے کہ روایت بیان کی گئی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے جمعہ قائم کیا دراں حالیکہ عثمان رضی اللہ عنہ محصور تھے۔ حافظ ابن حجر نے تلخیص میں کہا ہے کہ رافعی نے اس کو قیاس سے اخذ کیا ہے، کیونکہ جو عید کی نماز قائم کرتا ہے، وہ جمعہ کی نماز بھی قائم کرسکتا ہے۔ سیف نے الفتوح میں ذکر کیا ہے کہ حصار کی مدت چالیس دن تھی، لیکن انھوں نے کہا کہ ان لوگوں کو کبھی طلحہ نماز پڑھاتے اور کبھی عبدالرحمان بن عدیس اور کبھی ان کے علاوہ کوئی اور۔ ختم شد۔‘‘

اور زرقانی شرح موطا میں ہے:

’’ قال أبو عمر : إذا کان من السنۃ أن تقام صلوٰۃ العید بلا إمام فالجمعۃ أولی، وبہ قال مالک و الشافعي، قال مالک: للہ في أرضہ فرائض لا یسقطھا موت الوالی، ومنع ذلک أبو حنیفۃ کالحدود، لا یقیمھا إلا السلطان، وقد صلی بالناس في حصر عثمان طلحۃ وأبو أیوب وسھل بن حنیف و أبو أمامۃ بن سھل وغیرھم، وصلی بھم علي صلوۃ العید فقط۔‘‘ انتھی (شرح الزرقاني علی الموطأ ۱؍ ۵۱۵)

’’ ابو عمر نے کہا کہ جب یہ سنت ہے کہ نماز عید قائم کی جائے گی امام کے بغیر تو جمعہ اس حکم کا زیادہ مستحق ہے اور یہی بات مالک اور شافعی نے کہی ہے۔ مالک نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی اس زمین پر اللہ کے لیے (بندوں پر) کچھ فرائض ہیں، جسے والی کی موت ساقط نہیں کرسکتی۔ لیکن ابوحنیفہ نے اس سے انکار کیا ہے، جیسے حدود ہیں کہ اس کی اقامت سلطان ہی کرسکتا ہے، حالانکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ حصر میں لوگوں کو نماز پڑھائی طلحہ نے، ابو ایوب نے، سہل بن حنیف نے اور ابو امامہ بن سہل وغیرہم نے، اور حضرت علی نے ان کو عید کی نماز بھی پڑھائی۔ ختم شد۔‘‘

اور کہا شیخ سلام اللہ رحمہ اللہ نے ’’ محلی شرح موطا‘‘ میں:

’’ وقال أبو عبید : ثم شھدت العید أي الأضحٰی مع علي بن أبي طالب، وعثمان محصور في دارہ أیام الفتنۃ، وروي أنہ یؤم الناس أیضا في أیام المحاصرۃ کنانۃ من رؤوس البغاۃ، وقد یؤمھم طلحۃ، وأحیانا سھل بن حنیف۔‘‘ انتھی

’’ ابو عبید نے کہا کہ پھر میں نے علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عیدالاضحی کی نماز پڑھی، درآں حالیکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فتنے کے زمانے میں اپنے گھر میں محصور تھے۔ روایت بیان کی جاتی ہے کہ محاصرے کے ایام میں باغیوں کا سردار کنانہ لوگوں کی امامت کرتے تھے۔ اور بسا اوقات طلحہ امامت کرتے اور کبھی کبھی سہل بن حنیف۔ ختم شد۔‘‘

اور ’’ ارکان اربعہ‘‘ میں ہے:

’’ ومنھا السلطان أو أمرہ بإقامۃ الجمعۃ عند الحنفیۃ خاصۃ لا عند الشافعیۃ، فإنھم یقولون : إذا اجتمع مسلمو بلدۃ، وقدموا إماما، وصلوا الجمعۃ خلفہ جازت الجمعۃ، والمأمور من قبل السلطان أفضل، ولم أطلع علی دلیل یفید اشتراط أمر السلطان، وما في الھدایۃ لأنھا تقام بجماعۃ۔ فعسی أن تقع المنازعۃ۔ فھذا رأي لا یثبت الاشتراط لإطلاق نصوص وجوب الجمعۃ، ثم ھذہ المنازعۃ تندفع بإجماع المسلمین علی تقدیم واحد کما أن رتبۃ السلطان یطلبھا کل أحد من الناس فعسی أن تقع المنازعۃ فلا یصح نصب السلطان لکن تندفع ھذہ المنازعۃ بإجماع المسلمین علی تقدیم واحد فکذا ھذا، وکما فی جماعۃ الصلوۃ عسی أن تقع المنازعۃ في تقدیم رجل لکن تندفع بإجماع المصلین فکذا في الجمعۃ ثم الصحابۃ أقاموا الجمعۃ في زمان فتنۃ بلوی أمیر المؤمنین عثمان، وکان ھو إماما حقا محصورا، ولم یعلم أنھم طلبوا الإذن في إقامۃ الجمعۃ، بل الظاھر عدم الإذن لأن ھؤلاء الاشقیاء من أصحاب الشر لم یرخصوا ذلک فعلم أن إقامۃ الجمعۃ غیر مشروطۃ عندھم بالإذن۔‘‘ انتھی

’’ ان شرائط میں سے سلطان ہے یا اس کا اقامتِ جمعہ کاحکم دینا، احناف کے نزدیک خاص طور سے، شافعی حضرات کے نزدیک نہیں، کیونکہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جب کسی شہر کے مسلمان مجتمع ہو جائیں اور کسی کو امامت کے لیے آگے بڑھا دیں اور اس کے پیچھے جمعہ کی نماز پڑھ لیں تو جمعہ جائز ہے۔ اگر سلطان کی جانب سے کوئی اقامتِ جمعہ کے لیے مامور ہو تو یہ افضل ہے۔ میں کسی ایسی دلیل سے واقف نہیں جو سلطان کے حکم کی شرط کا فائدہ دیتی ہو۔ یہ جو ’’ الہدایہ‘‘ میں ہے کہ جمعہ کی نماز جماعت سے قائم کی جاتی ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ جھگڑا واقع ہو جائے۔ تو اس سے شرط ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ وجوبِ جمعہ کے سلسلے میں مطلق نصوص ہیں۔ پھر یہ نزاع مسلمانوں کے اجماع سے کسی ایک کو آگے بڑھا دینے کی صورت میں ختم ہو جائے گا، کیونکہ سلطان کا رتبہ بھی ایسا ہے کہ ہر ایک اس کا مطالبہ کرتا ہے، اس میں امکان ہے کہ نزاع واقع ہو جائے تو سلطان کا مقرر کرنا بھی درست نہ ہوا، لیکن یہ نزاع کسی ایک کو آگے بڑھا دینے کی صورت میں تمام مسلمانوں کے اجماع سے ختم ہوتا ہے، جیسا کہ دیگر نمازوں کی جماعت میں ہوتا ہے کہ کسی شخص کے آگے بڑھا دینے کی صورت میں نزاع پیدا ہو جاتا ہے، لیکن نمازیوں کے اجماع سے ختم بھی ہو جاتا ہے، ایسا ہی جمعہ کے معاملے میں ہے۔ پھر یہ کہ صحابہ نے امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فتنے کے زمانے میں جمعہ قائم فرمایا، دراں حالیکہ وہ امام حق محصور تھے اور یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ لوگوں نے ان سے اقامتِ جمعہ کے لیے اجازت طلب کی ہو، بلکہ عدم اذن ظاہر ہے، کیونکہ اصحابِ شر اور بدبختوں نے ان کو اس کا موقع ہی نہیں دیا۔ پس معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک اقامتِ جمعہ کے لیے اذنِ سلطان غیر مشروط ہے۔ ختم شد۔‘‘

اور ائمہ احناف اوپر اشتراط سلطان کے جو یہ روایت ابن ماجہ کی پیش کرتے ہیں:

’’ حدثنا محمد بن عبداللہ بن نمیر حدثنا الولید بن بکیر حدثني عبداللہ بن محمد العدوي عن علي بن زید عن سعید بن المسیب عن جابر بن عبداللہ قال : خطبنا رسول اللہ ﷺ فقال: اعلموا أن اللہ قد افترض علیکم الجمعۃ في مقامي ھذا، في یومي ھذا، في شھري ھذا، من عامي ھذا إلی یوم القیامۃ فمن ترکھا في حیاتي أو بعدي ولہ إمام عادل أو جائر‘‘ الحدیث ( سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث ۱۰۸۱)

’’ ہمیں حدیث بیان کی محمد بن عبداللہ بن نمیر نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں الولید بن بکیر نے بتایا، انھوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن محمد العدوی نے علی بن زید کے واسطے سے بتایا، وہ سعید بن مسیب کے واسطے سے اور وہ جابر بن عبداللہ کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں خطاب کیا اور فرمایا کہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر جمعہ فرض کیا ہے اس جگہ، آج کے دن، میرے اس مہینے میں، اس سال، قیامت تک کے لیے، پس جس کسی نے میری زندگی میں یا میرے بعد درآں حالیکہ وہاں اس کے لیے امام عادل یا جائر موجود ہو، اسے چھوڑا… الحدیث۔‘‘ 

سو یہ قابل استدلال نہیں۔ اس لیے کہ یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے۔ قابل حجت نہیں۔ ایک راوی اس میں عبداللہ بن محمد العدوی ہے۔ وہ متروک الحدیث ہے اور بعضوں نے واضعین سے اس کو شمار کیا ہے اور بعضوں نے منکر الحدیث کہا ہے۔ میزان الاعتدال میں ہے:

’’ عبداللہ بن محمد العدوي، قال البخاري: منکر الحدیث، وقال وکیع: یضع الحدیث، وقال ابن حبان: لا یجوز الاحتجاج بخبرہ۔‘‘ انتھی ( میزان الاعتدال ۲؍ ۴۸۵)

’’ عبداللہ بن محمد العدوی کے بارے میں بخاری نے کہا ہے کہ وہ منکر الحدیث ہے۔ وکیع نے کہا کہ وہ حدیث وضع کرتا ہے اور ابن حبان نے کہا کہ اس کی خبر سے حجت قائم کرنا جائز نہیں ہے۔ ختم شد۔‘‘

اور بھی میزان میں بذیل ترجمہ ابان بن جبلہ مرقوم ہے:

’’ نقل ابن القطان أن البخاري قال : کل من قلت فیہ : منکر الحدیث۔ فلا تحل الروایۃ عنہ۔‘‘ (میزان الاعتدال ۱؍ ۶)

’’ ابن القطان نے نقل کیا ہے کہ بخاری نے کہا کہ ہر وہ شخص جس کو میں نے منکر الحدیث کہا ہے، اس سے روایت کرنا حلال نہیں ہے۔‘‘

اور بھی کہا ذہبی نے بذیل ترجمہ سلیمان بن داود الیمامی کے:

’’إن البخاري قال : من قلت فیہ : منکر الحدیث۔ فلا تحل روایۃ حدیثہ۔‘‘ انتھی ( میزان الاعتدال ۲؍ ۲۰۲)

’’ بخاری نے کہا کہ جس کے بارے میں، میں نے منکر الحدیث کہا، اس سے کسی حدیث کی روایت جائز نہیں ہے۔ ختم شد۔‘‘

اور ’’ تقریب التھذیب‘‘ میں ہے:

’’ عبداللہ بن محمد العدوي متروک، رماہ وکیع بالوضع۔‘‘ انتھی (تقریب التھذیب ص: ۳۲۲)

’’ عبداللہ بن محمد العدوی متروک ہے۔ وکیع نے اس پر وضع حدیث کا الزام لگایا ہے۔ ختم شد۔‘‘

اور علی بن زید بن جدعان، جو شیخ عبداللہ بن محمد العدوی کا ہے، وہ بھی ضعیف ہے۔

قال المنذري في الترغیب والترھیب: ’’ علي بن زید بن جدعان۔ قال البخاري وأبو حاتم: لا یحتج بہ، وضعفہ ابن عیینۃ وأحمد وغیرھما، وروي عنہ: لیس بشيء ، وروي عنہ: لیس بذاک القوي، وقال أحمد العجلي: کان یتشیع ولیس بالقوي، وقال الدارقطني: لا یزال عندی فیہ لین، وقال الترمذي: صدوق وصحح لہ حدیثا في السلام، وحسن لہ غیر ما حدیث۔‘‘ انتھی

’’ المنذری نے ’’ الترغیب والترھیب‘‘ میں کہا ہے علی بن زید بن جدعان کے بارے میں بخاری اور ابو حاتم نے کہا ہے کہ اس سے حجت نہیں قائم کی جاسکتی۔ ابن عینیہ اور احمد وغیرہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، نیز یہ کہ وہ چنداں قابل اعتبار اور قوی نہیں۔ احمد عجلی نے کہا ہے کہ وہ شیعہ تھے اور قوی نہیں تھے۔ دارقطنی نے کہا کہ میرے یہاں وہ کمزور ہے اور ترمذی نے صدوق کہا ہے اور ان کی ایک حدیث کو صحیح اور کئی ایک حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔ ختم شد۔‘‘

اور کہا ذہبی نے میزان میں:

’’ قال حماد بن زید: أخبرنا علي بن زید، وکان یقلب الأحادیث، وقال الفلاس: کان یحیٰی القطان یتقي الحدیث عن علي بن زید، [وروي عن یزید بن زریع قال : کان علي بن زید] رافضیا، وقال أحمد العجلي: کان یتشیع ولیس بالقوي، وقال البخاري وأبو حاتم: لا یحتج بہ ، قال الفسوي: اختلط في کبرہ، وقال ابن خزیمۃ: لا أحتج بہ لسوء حفظہ۔‘‘ انتھی (میزان الاعتدال ۳؍ ۱۲۷)

’’ حماد بن زید نے کہا کہ ہمیں علی بن زید نے بتایا اور وہ حدیث میں ہیر پھیر کرتے تھے۔ فلاس نے کہا کہ یحییٰ قطان، علی بن زید کی حدیث سے بچتے تھے اور یزید بن زریع نے کہا کہ وہ رافضی تھے اور احمد عجلی نے کہا کہ وہ تشیع کرتے تھے اور قوی نہیں تھے۔ بخاری اور ابو حاتم نے کہا کہ اس سے حجت نہیں قائم کی جاسکتی۔ فسوی نے کہا کہ ان کے بڑھاپے میں انھیں اختلاط واقع ہوگیا تھا اور ابن خزیمہ نے کہا کہ ان کے برے حافظے کی بنا پر میں ان کو حجت نہیں بناتا۔ ختم شد۔‘‘

اور خلاصہ میں ہے:

’’ قال أحمد و أبو زرعۃ : لیس بالقوي، وقال ابن خزیمۃ: سيء الحفظ، وقال شعبۃ: حدثنا علي بن زید قبل أن یختلط، وقرنہ مسلم بآخر۔‘‘ انتھی (الخلاصۃ للخزرجي ص: ۲۷۴)

’’ احمد اور ابو زرعہ نے کہا کہ وہ قوی نہیں ہے۔ ابن خزیمہ نے کہا کہ وہ حافظے کے برے ہیں اور شعبہ نے کہا کہ ہمیں علی بن زید نے بیان کیا اختلاط سے قبل اور مسلم نے ان کو دوسرے کے ساتھ ملا کر روایت کی ہے۔ ختم شد۔‘‘

اور عبداللہ بن محمد العدوی کا شاگرد۔ أعنی۔ الولید بن بکیر بھی کچھ ایسا قوی راوی نہیں ہے۔ تقریب میں ہے:

’’ الولید بن بکیر التمیمي أبو جناب الکوفي لین الحدیث۔‘‘ انتھی(تقریب التھذیب ص: ۵۸۱)

’’ ولید بن بکیر تمیمی ابو جناب کو فی ضعیف الحدیث ہیں۔ ختم شد۔‘‘

اور میزان الاعتدال میں ہے:

’’ الولید بن بکیر ما رأیت من وثقہ غیر ابن حبان، وقال أبو حاتم: شیخ‘‘ انتھی (میزان الاعتدال ۴؍۳۳۶)

’’ ولید بن بکیر کو ابن حبان کے علاوہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو ان کو ثقہ کہتا ہو اور ابو حاتم نے ان کو شیخ کہا ہے۔ ختم شد۔‘‘

بہرحال یہ حدیث لائق حجت نہیں۔ اور دوسری تعریف مصر جامع کی بنا برمسلک بلخی کے یہ ہے کہ جس جگہ تین مسجدیں یا زیادہ تین سے ہوں اور ایک ان میں بڑی مسجد ہو اور وہاں کے رہنے والے مکلف لوگ اس بڑی مسجد میں گنجائش نہ کرسکیں، جیسا کہ اوپر ہدایہ کی عبارت سے معلوم ہوا۔ اور اکثر حنفیہ نے اسی مسلک بلخی کو مرحج ٹھہرا کر اسی پر فتویٰ دیا ہے، جیسا کہ در مختار میں ہے:

’’ یشترط لصحتھا سبعۃ أشیاء : الأول المصر، وھو ما لا یسع أکبر مساجدہ أھلہ المکلفین بھا، وعلیہ فتوی أکثر الفقھاء لظھور التواني في الأحکام۔‘‘ انتھی (الدرالمختار ۲؍ ۱۳۷)

’’ اس کی صحت کے لیے سات چیزوں کی شرط ہے۔ اول: مصر۔ یہ وہ ہے کہ اس کی سب سے بڑی مسجد اس شہر کی آبادی کے لیے کافی نہ ہوتی ہو۔ اکثر فقہا کا اسی پر فتویٰ ہے احکام میں سستی کے ظہور کی بنا پر۔ ختم شد۔‘‘ 

اور ’’ بحر الرائق شرح کنز الدقائق‘‘ میں ہے:

وعلیہ فتویٰ أکثر الفقھاء۔ قال أبو شجاع: ھذا أحسن ما قیل فیہ، وفي الولوالجیۃ: وھو صحیح۔‘‘ (البحر الرائق ۲؍ ۱۵۲)

’’ اسی پر اکثر فقہا کا فتویٰ ہے۔ ابو شجاع نے کہا ہے کہ اب تک جتنی باتیں کہی گئی ہیں، ان میں احسن یہی ہے۔ فتاویٰ ولوالجیہ میں ہے کہ یہی صحیح ہے۔‘‘

اور شرح وقایہ میں ہے:

’’ وإنما اختار ھذا دون التفسیر الأول لظھور التواني في أحکام الشرع لا سیما في إقامۃ الحدود في الأمصار۔‘‘ انتھی ( شرح الوقایۃ ۱؍ ۱۸۹)

’’ پہلی تفسیر کے بالمقابل اس کو اس لیے اختیار کیا ہے کہ احکام شرع میں سستی کا غلبہ پایا جاتا ہے خاص طور سے شہروں میں اقامتِ حدود کے سلسلے میں۔ ختم شد۔‘‘

اور ’’ ارکان اربعہ‘‘ میں ہے:

قال قائل : الفتویٰ في مذھبنا الروایۃ المختارۃ للبلخي‘‘ انتھی

’’ ہمارے مذہب میں مفتی بہ قول بلخی کا ہے۔ ختم شد۔‘‘ 

لیکن یہ تفسیر بھی مصر جامع کی، جو مطابق مسلک بلخی کے ہے، کتبِ لغت یا سنتِ رسول اللہﷺ میں پائی نہیں جاتی ہے کہ لائق حجت ہو، بلکہ جس وقت اسعد بن زرارہ نے اقامت جمعہ کی ہزم النبیت میں کیا تھا اور پھر رسول اللہﷺ نے بنی سالم میں جمعہ پڑھا تھا، اس وقت مدینہ منورہ میں مساجد متعدد نہ تھی سوائے دو ایک کے کہ بڑی مسجد میں گنجائش و انداز آدمیوں کے انٹنے کا کیا جاتا۔ دیکھو! جب رسول اللہﷺ مدینہ منورہ جاتے تھے تو قبا میں، جو قر ب مدینہ میں واقع ہے، بنی عمرو بن عوف کے یہاں بیس دن کے قریب آپﷺ نے اقامت فرمائی اور بنا بر بعض دوسری روایتوں کے چار دن مدت اقامت کی تھی۔ یعنی دو شنبہ و سہ شنبہ، چہار شنبہ، پنج شنبہ اور انھیں کے مکان میں نماز پڑھتے رہے۔ پھر مسجد قبا میں نیو ڈالی۔ اس کے بعد آپﷺ جمعہ کے دن روانہ ہوئے اور بنی سالم بن عوف کے یہاں اترے اور ان کی مسجد میں نماز جمعہ پڑھی کہ وہ مسجد آج تک جمعہ مسجد کرکے مشہور ہے۔ علامہ سمہودی نے ’’ خلاصۃ الوفاء بأخبار دارالمصطفی‘‘ میں لکھا ہے:

’’ الفصل الثاني في مسجد قباء۔ في الصحیح عن عروۃ في خیر قدومہ ﷺ قال : فلبث في بني عمرو بن عوف بضع عشرۃ لیلۃ، وأسس المسجد الذي أسس علی التقوی۔ یعني بني عمرو بن عوف، کما في روایۃ عبدالرزاق عنہ، ولا بن عائذ عن ابن عباس: مکث في بني عمرو بن عوف ثلاث لیال، واتخذ مکانہ مسجدا فکان یصلي فیہ، ثم بناہ بنو عمرو بن عوف، فھو الذي أسس علی التقوی۔‘‘ انتھی (خلاصۃ الوفاء ص: ۱۸۴)

’’ صحیح میں عروہ کے واسطے سے مسجد قبا کے متعلق مروی ہے کہ آپﷺ کی آمد کے بارے میں انھوں نے کہا کہ آپﷺ بنو عمرو بن عوف کے درمیان تقریباً دس راتوں سے کچھ اوپر ٹھہرے اور اس مسجد کی بنیاد رکھی، جو تقوے پر مبنی تھی، یعنی عمرو بنو بن عوف، جیسا کہ عبدالرزاق کی روایت میں ان کے واسطے سے ہے اور ابن عائذ کی ایک روایت ابن عباس کے واسطے سے ہے کہ آپﷺ بنو عمرو بن عوف میں تین راتیں ٹھہرے اور وہاں پر ایک مسجد بنائی اور اس میں نماز پڑھنے لگے۔ پھر بنو عمرو بن عوف نے اس کی تکمیل کی، تو یہی وہ مسجد ہے جو تقوے کی بنیاد پر قائم کی گئی ہے۔ ختم شد۔‘‘

اور بھی ’’ خلاصۃ الوفاء‘‘ میں ہے:

’’ الفصل الثالث، مسجد الجمعۃ۔ سبق أن النبيﷺ في خروجہ من قباء أدرکتہ الجمعۃ في بني سالم بن عوف فصلاھا في بطن الوادي فکانت أول جمعۃ صلاھا بالمدینۃ، ولا بن زبالۃ: فمر علی بني سالم فصلی بھم الجمعۃ في العسیب ببني سالم، وھو المسجد الذي في بطن الوادي، و في روایۃ لہ: فھو المسجد الذي بناہ عبدالصمد، ولا بن شبۃ عن کعب ابن عجرۃ أن النبيﷺ جمع أول جمعۃ حین قدوم المدینۃ في مسجد بني سالم في مسجد عاتکۃ، وفي روایۃ لہ: الذي یقال لہ مسجد عاتکۃ، قال المطري: والمسجد في بطن الوادي کان صغیرا جدا۔‘‘ انتھی (خلاصۃ الوفاء ص: ۱۸۴)

وقال ابن ھشام في سیرتہ: ’’ وذکر سفیان بن عیینۃ عن زکریا عن الشعبي قال : إن أول من بنی مسجدا عمار بن یاسر۔ قال ابن إسحاق: فأقام رسول اللہﷺ في بیت أبي أیوب حتی بني لہ مسجدہ ومساکنہ، ثم انتقل إلی مساکنہ من بیت أبي أیوب۔‘‘ انتھی کلام ابن ھشام۔ ( سیرۃ ابن ھشام ۱؍ ۴۹۸)

و روی یونس بن بکیر في زیادات المغازي عن المسعودي عن الحکم ابن عتیبۃ قال : ’’ لما قدم النبيﷺ فنزل بقباء، قال عمار بن یاسر: ما لرسول اللہﷺ بد من أن یجعل لہ مکانا یستظل بہ إذا استیقظ، ویصلي فیہ فجمع حجارۃ فبنی مسجد قباء فھو أول مسجد بُنِي یعني بالمدینۃ۔‘‘ انتھی (فتح الباري ۷؍ ۲۴۵)

وقال ابن ھشام أیضاً: ’’ أقام رسول اللہ ﷺ بقباء في بني عمرو بن عوف یوم الإثنین و یوم الثلاثاء و یوم الأربعاء و یوم الخمیس، وأسس مسجدہ، ثم أخرجہ اللہ من بین أظھرھم یوم الجمعۃ، وبنو عمرو بن عوف یزعمون أنہ مکث فیھم أکثر من ذلک، فاللہ أعلم أي ذلک کان، فأدرکت رسول اللہﷺ الجمعۃ في بني سالم بن عوف فصلاھا في المسجد الذي في بطن الوادي وادي رانوناء فکانت أول جمعۃ صلاھا بالمدینۃ۔‘‘ انتھی کلامہ (سیرۃ ابن ھشام ۱؍ ۴۹۴)

’’ تیسری فصل جمعہ مسجد کے بارے میں۔ یہ بات گزر چکی ہے کہ نبیﷺ کے قبا سے خروج کے وقت راستے میں بنو سالم بن عوف کے قبیلے میں جمعے کا وقت ہوگیا تو آپﷺ نے نماز جمعہ بطن وادی میں ادا کی۔ اسی کی ایک روایت میں ہے کہ وہ وہی مسجد ہے جو عبدالصمد نے بنائی تھی۔ ابن شبہ کی کعب بن عجرہ کے واسطے سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے اپنی پہلی جمعے کی نماز جب وہ مدینہ آرہے تھے، مسجد بنی سالم؍ مسجد عاتکہ میں پڑھی تھی۔ اسی کی ایک روایت میں ہے اسی کو مسجد عاتکہ کہا جاتا تھا۔ المطری نے کہا کہ بطن وادی کی مسجد بہت زیادہ چھوٹی تھی۔ ختم شد۔‘‘

’’ابن ہشام نے اپنی ’’سیرت‘‘ میں کہا ہے: سفیان بن عینیہ سے زکریا کے واسطے سے اور وہ شعبی کے واسطے سے کہ شعبی نے کہا کہ سب سے پہلے جس نے مسجد بنائی وہ عمار بن یاسر تھے۔ ابن اسحاق نے کہا کہ رسول اللہﷺ ابو ایوب کے گھر میں اقامت پذیر ہوئے، پھر آپ کے لیے مسجد اور گھر بنائے گئے، پھر وہاں سے اپنے گھر منتقل ہوگئے۔ ابن ہشام کا کلام ختم ہوا۔ یونس بن بکیر نے ’’زیادات مغازی‘‘ میں روایت بیان کی ہے مسعودی کے واسطے سے اور وہ حکم بن عتیبہ کے واسطے سے کہ انھوں نے کہا کہ جب نبیﷺ آئے تو قبا میں نزول فرمایا۔ عمار بن یاسر نے کہا کہ رسول اللہﷺ کے لیے ضروری ہے کہ ان کے لیے ایک مکان بنایا جائے جہاں وہ سایہ حاصل کریں، جب وہ بیدار ہوں اور اس میں نماز پڑھیں، تو انھوں نے پتھر جمع کیے اور مسجد قبا بنائی اور یہ پہلی مسجد تھی جو مدینے میں بنائی گئی۔ ختم شد۔ ‘‘

’’ ابن ہشام نے یہ بھی کہا ہے کہ رسول اللہﷺ قبا میں بنو عمرو بن عوف کے یہاں سوموار، منگل، بدھ اور جمعرات کے دن تک اقامت پذیر رہے اور ان کی مسجد کی بنیاد رکھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو جمعے کے دن ان کے درمیان سے نکالا۔ بنو عمرو بن عوف یہ گمان کرتے ہیں کہ آپﷺ ان کے درمیان زیادہ دنوں تک ٹھہرے، یہ اللہ ہی کو زیادہ بہتر معلوم ہے کہ آپ کتنے دن ٹھہرے۔ راستے میں بنو سالم بن عوف میں جمعے کا وقت ہوگیا تو آپﷺ نے جمعے کی نماز اس مسجد میں پڑھی جو بطن وادی میں وادی رانوناء میں تھی۔ تو یہ پہلا جمعہ تھا جو آپﷺ نے مدینے میں ادا کیا۔ ختم شد۔‘‘

پس صلوٰۃ جمعہ کہ عمدہ شعائر اسلام سے ہے اور فرضیت اس کی نص قطعی سے ثابت ہے، ادا کرنا اس کا شہر و قصبات و دیہات ہر جگہ لازم و واجب ہے اور محض بنا برتفسیر کرخی یا بلخی کے کہ وہ مقابل دلیل ظنی کے بھی نہیں ہے، بلکہ ایک رائے محض ہے، ترک کرنا امر قطعی کا بالکل نافہمی اور ضعف ایمان کی نشانی ہے۔

اور جواب تیسرے سوال کا یہ ہے کہ نماز جمعہ فرض عین ہے۔ فرضیتِ ظہر اس سے ساقط ہو جاتی ہے، اس لیے کے صلوٰۃ جمعہ قائم مقام صلوٰۃ ظہر ہے۔ پس جس شخص نے ظہر احتیاطی ادا کیا، اس نے ایک صلوٰۃ مفروضہ کو دوبارہ ایک دن ایک وقت میں بلا اذن شارع ادا کیا اور یہ ممنوع ہے۔

عن ابن عمر قال سمعت رسول اللہﷺ : (( یقول لا تصلوا صلٰوۃ في یوم مرتین )) رواہ أحمد و أبوداود والنسائي۔ (مسند أحمد ۲؍۱۹، سنن أبي داود، رقم الحدیث ۵۷۹، سنن النسائي، رقم الحدیث ۲۱۸۹)

یعنی رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک نماز کو دوبار ایک دن میں نہ پڑھو۔

پھر جب جمعہ بالکل قائم مقام ظہر کے ہو تو اب جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا جائز نہیں ہوا اور کسی سلف صالحین صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ وائمہ مجتہدین و محدثین رحمہم اللہ سے یہ ظہر احتیاطی منقول نہیں۔ یہ ان میں سے کسی نے پڑھا اور نہ حکم پڑھنے کا دیا، بلکہ یہ ظہر احتیاطی بدعت و محدث فی الدین ہے۔ پڑھنے والا اس کا عاصی و آثم ہوگا۔ کیوں کہ یہ ایک بدعت نکالی گئی ہے دین میں۔ بعض متاخرین حنفیہ نے اس ظہر احتیاطی کو نکالا ہے، جیسا کہ ’’بحر الرائق شرح کنز الدقائق ‘‘ میں ہے:

’’ وقد أفتیت مرارا بعدم صلٰوۃ الأربع بعدھا بنیۃ آخر ظھرا خوف اعتقاد عدم فرضیۃ الجمعۃ، وھو الاحتیاط في زماننا۔‘‘ (البحر الرائق ۲؍ ۱۵۱)

’’ میں نے متعدد بار فتویٰ دیا ہے کہ جمعے کی نماز کے بعد چار رکعت نماز ظہر کی نیت سے نہیں پڑھی جائے گی، اس اعتقاد کے خوف کی بنا پر کہ جمعہ فرض نہیں اور یہ ہمارے زمانے میں ایک احتیاطی تدبیر ہے۔‘‘

اور بھی ’’ بحر الرائق‘‘ میں ہے:

’’ لھذا قال في فتح القدیر في بیان دلائلھا: ثم قال : إنما أکثرنا فیہ نوعا من الإکثار لما تسمع من بعض الجھلۃ أنھم ینسبون إلی مذھب الحنفیۃ عدم افتراضھا، ومنشأ غلطھم ما سیأتي من قول القدوري ومن صلی الظھر [ في منزلہ یوم الجمعۃ، ولا عذر لہ، کرہ، وجازت صلاتہ۔ وإنما أراد حرم علیہ، وصحت الظھر] فالحرمۃ لترک الفرض وصحت الظھر [ لما ستذکرہ، وقد صرح أصحابنا بأنھا فرض آکد من الظھر] ویکفر جاحدھا‘‘ انتھی

’’ أقول: قد کثر ذلک من جھلۃ زماننا أیضاً ، ومنشأ جھلھم صلٰوۃ الأربع بعد الجمعۃ بنیۃ الظھر، وإنما وضعھا بعض المتأخرین عند الشک في صحۃ الجمعۃ بسبب روایۃ عدم تعددھا في مصر واحد، ولیست ھذہ الروایۃ بالمختارۃ، ولیس ھذا القول، أعني اختیار صلوۃ الأربع بعدھا، مرویا عن أبي حنیفۃ وصاحبیہ۔‘‘ انتھی کلامہ۔ (البحر الرائق ۲؍ ۱۵۰، نیز دیکھیں: فتح القدیر ۲؍ ۵۰)

’’ اس لیے انھوں نے ’’ فتح القدیر‘‘ میں اس کے دلائل کے بیان میں کہا ہے: یہاں ہم نے زیادہ تفصیل بیان کی ہے، کیونکہ بعض جاہل لوگ حنفی مذہب کی طرف اس کی عدم فرضیت منسوب کرتے ہیں۔ ان کی غلطی کا سبب قدوری کا یہ قول ہے کہ ’’جس نے جمعے کے دن ظہر کی نماز اپنے گھر میں پڑھ لی اور اس کا کوئی عذر بھی نہیں تو یہ مکروہ ہے، البتہ اس کی نماز درست ہے‘‘ تو قدوری کا مقصد یہ ہے کہ ایسا کرنا حرام ہے اور ظہر کی نماز بھی صحیح ہے اور تو یہ حرام اس لیے ہے کہ اس نے فرض جمعہ چھوڑا ہے۔ نماز ظہر کے صحیح ہونے کے دلائل ہم عنقریب ذکر کریں گے۔ ہمارے اصحاب نے ذکر کیا ہے کہ جمعہ، ظہر سے بھی زیادہ مؤکد فریضہ ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔

’’ میں کہتا ہوں: ہمارے زمانے میں جہالت کی بنا پر اکثر ہوتا ہے اور ان کے جہل کا منشا جمعہ کے بعد چار رکعت نماز ظہر کی نیت سے پڑھنا ہے۔ جمعے کی صحت میں شک کی بنیاد پر اس کو بعض متاخرین نے وضع کیا ہے، اس روایت کو سبب بنا کر جس میں مذکور ہے کہ ایک ہی شہر میں متعدد جمعے نہیں ہوسکتے۔ یہ روایت قابل اختیار نہیں ہے اور نہ یہ قول (جمعے کے بعد چار رکعت نماز پڑھنا) ابو حنیفہ اور صاحبین سے مروی ہے۔ ختم شد۔‘‘

پس مرد متبع سنت وہ ہے جو کہ اس بدعت و محدث فی الدین کی بیخ کنی کرے اور لوگوں کو اس ظہر احتیاطی کے پڑھنے سے روکے۔

’’ عن عائشۃ قالت : قال النبيﷺ : (( من أحدث في أمرنا ھذا ما لیس منہ فھورد)) متفق علیہ۔ (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۲۵۵۰، صحیح مسلم، رقم الحدیث ۱۷۱۸)

’’ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جس نے ہمارے معاملے میں کوئی نئی چیز گھڑی جو ہماری شریعت میں نہیں ہے تو وہ قابل رد ہے۔‘‘

وعن جابر قال قال رسول اللہﷺ : (( أما بعد! فإن خیر الحدیث کتاب اللہ، وخیر الھدي ھدي محمد، وشر الأمور محدثاتھا، وکل بدعۃ ضلالۃ )) رواہ مسلم۔ ( صحیح مسلم، رقم الحدیث ۸۶۷)

’’ جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اما بعد! یقیناً سب سے اچھی بات کتاب اللہ ہے اور سب سے اچھا راستہ محمدﷺ کا راستہ ہے اور سب سے برے امور بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اس کی روایت مسلم نے کی ہے۔‘‘ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 424

محدث فتویٰ

تبصرے