اگر ہندہ کا باپ ہندہ کو اپنے شوہر سے باز رکھے تو وہ شرعاً مجرم ہے یا نہیں؟
﴿ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ﴾ ( یوسف: ۴۰) ’’ حکم تو صرف اللہ کا ہے۔‘‘
ہندہ کے باپ کو کوئی حق نہیں ہے کہ ہندہ کو اس کے شوہر کے پاس جانے سے روکے۔ کیونکہ بعد النکاح باپ کا کچھ زور ہندہ پر نہیں ہے، بلکہ سارا اختیار و زور ہندہ پر اس کے شوہر کا ہے اور باپ ہندہ کا ہندہ کو شوہر کے پاس جانے سے بلاوجہ شرعی کے روکے یا منع کرے تو بیشک ہندہ کا باپ گنہگار ہوگا اور عند اللہ تعالیٰ اس پر مواخذہ ہوگا، کیونکہ ہندہ پر تابعداری زوج کی فرض ہے اور تابعداری باپ کی فرض نہیں ہے۔ پس ہندہ کیوں کر مخالفت اپنے شوہر کی کرسکتی ہے؟
’’ بخاری اور مسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے تخریج کی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے: تم میں ہر ایک نگران ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے اور وہ اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘
’’ بزار نے صحیح سند کے ساتھ عائشہ کے واسطے سے تخریج کی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: کن لوگوں کا عورت پر زیادہ حق ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس کے شوہر کا۔ (انھوں نے کہا کہ) میں نے پھر پوچھا: مردوں پر کن لوگوں کا زیادہ حق ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اس کی ماں کا۔ اس کی روایت حاکم نے بھی کی ہے۔‘‘
’’ اور احمد نے اپنی مسند میں حسن سند کے ساتھ عبدالرحمان بن عوف کے واسطے سے تخریج کی ہے کہ انھوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب عورت پانچوں وقت کی نماز پڑھے گی اور رمضان کے مہینے کے روزے رکھے گی، اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے گی اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے گی تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں جن دروازوں سے چاہے داخل ہو جائے۔ ابن حبان نے بھی اپنی صحیح میں ابوہریرہ کے واسطے سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔‘‘
قال الغزالي في إحیاء العلوم تحت ھذا الحدیث : ’’ وقوله : ((وأطاعت زوجھا دخلت جنة ربھا )) فأضاف النبىﷺ طاعة الزوج إلی مباني الإسلام ‘‘ انتھی (إحیاء علوم الدین ۲ ؍۵۷)’’ غزالی نے احیاء العلوم میں اس حدیث کے ذیل میں کہا ہے کہ آپﷺ کا قول کہ ’’اپنے شوہر کی اطاعت کرے گی تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہوگی۔‘‘ نبیﷺ نے شوہر کی اطاعت کا ذکر اسلام کی بنیاد میں فرمایا ہے۔ ختم شد۔‘‘
وأخرج البزار بإسناد جید، وابن حبان في صحیحه، عن أبي سعید الخدري قال : أتی رجل بابنته إلی رسول اللہﷺ فقال : إن ابنتي ھذا أبت أن تتزوج، فقال لھا رسول اللہ ﷺ : أطیعي أباک، فقالت: والذي بعثک بالحق لا أتزوج حتی تخبرني ما حق الزوج علی زوجه ؟ قال : حق الزوج علی زوجته لو کانت به قرحة فلحستھا أو انتشر منخراہ صدیدا أو دما تم ابتلعتہ ما أدت حقه، قالت : والذي بعثک بالحق لا أتزوج أبدا فقال النبيﷺ : لا تنکحوھن إلا بإذنھن‘‘ (صحیح ابن حبان ۹ ؍۴۷۲)’’ بزار نے جید سند کے ساتھ اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں ابو سعید خدری کے واسطے سے تخریج کی ہے کہ انھوں نے کہا: نبیﷺ کے پاس ایک شخص اپنی بیٹی کو لے کر آیا اور کہا کہ میری اس بیٹی نے شادی سے انکار کردیا ہے تو رسول اللہﷺ نے اس (لڑکی) سے کہا کہ اپنے باپ کی اطاعت کرو۔ اس لڑکی نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپﷺ کو برحق مبعوث فرمایا ہے، میں شادی نہیں کروں گی یہاں تک کہ آپﷺ مجھے یہ نہ بتائیں کہ شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: شوہر کا بیوی پر حق یہ ہے کہ اگر شوہر کو کوئی زخم آجائے اور بیوی اس کو چاٹ جائے یا شوہر کے ناک سے پیپ یا خون نکلے تو عورت اس کو پی لے تو بھی عورت اپنے شوہر کا حق ادا نہیں کرسکتی تو اس (لڑکی) نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، میں کبھی شادی نہیں کروں گی۔ نبیﷺ نے فرمایا: ان کی شادی ان کی اجازت کے بغیر مت کرو۔‘‘
وأخرج الحاکم، وقال : صحیح الإسناد، عن معاذ بن جبل عن النبىﷺ قال : ’’ لا یحل لا مرأة تؤمن باللہ أن تأذن في بیت زوجھا، وھو کارہ، ولا تخرج، وھو کارہ، ولا تطیع فیه أحدا۔‘‘ (صحیح البخاري ، رقم الحدیث (۲۷۲۹) صحیح مسلم ، رقم الحدیث: ۸۸۴)’’ ابن عباس کی مرفوع حدیث میں سے صحیحین کی حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: میں نے جہنم میں جھانکا تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں۔ انہوں نے (خواتین نے) پوچھا: ایسا کیوں اے اللہ کے رسولﷺ؟ آپﷺ نے فرمایا: عورتیں لعن طعن زیادہ کرتی ہیں اور اپنے کنبے کی ناشکری کرتی ہیں۔ ختم شد‘‘
وفي قوت القلوب لأبي الطالب المکی وإحیاء العلوم للغزالي ما نصه : ’’وکان رجل قد خرج إلی سفر، وعھد إلی امرأتہ أن لا تنزل من العلو إلی السفل، وکان أبوھا في الأسفل فمرض فأرسلت المرأة إلی رسول اللہﷺ تستأذن في النزول إلی أبیھا، فقال ﷺ : أطیعي زوجک فمات فاستأمرته ، فقال : أطیعي زوجک، فدفن أبوھا، فأرسل رسول اللہﷺ إلیھا یخبرھا أن اللہ قد غفر لأبیھا بطاعتھا لزوجھا‘‘ انتھی ( قوت القلوب ۲ ؍۴۱۶)’’ ابو طالب کی ’’ قوت القلوب‘‘ اور غزالی کی ’’ إحیاء العلوم‘‘ میں ہے کہ ایک شخص سفر کے لیے نکلا اور اس نے اپنی بیوی سے یہ عہد لیا کہ وہ اوپر سے نیچے نہیں اترے گی۔ اس عورت کا باپ نیچے رہتا تھا۔ وہ بیمار ہوگیا تو اس عورت نے رسول اللہﷺ کے پاس ایک آدمی بھیجا، تاکہ وہ اجازت حاصل کرے کہ وہ اپنے باپ کے پاس اتر کر آسکے۔ آپﷺ نے فرمایا: اپنے شوہر کی اطاعت کرو، اس کے باپ کا جب انتقال ہوا تو پھر اس نے اجازت ہی، آپﷺ نے فرمایا کہ اپنے شوہر کی اطاعت کرو، اس کے باپ کی تدفین کردی گئی تو رسول اللہﷺ نے اس عورت کے پاس یہ خوشخبری بھیجی کہ اس کے اپنے شوہر کی اطاعت گزاری کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اس کے باپ کی مغفرت فرما دی ہے۔ ختم شد‘‘
قال الحافظ العراقي في تخریج أحادیث الإحیاء : ’’ رواہ الطبراني في الأوسط من حدیث أنس بسند ضعیف إلا أنہ قال : غفر لأبیھا‘‘ انتھی کلامه (تخریج أحادیث الإحیاء ۲ ؍۶۹۔ نیز دیکھیں: مجمع الزوائد ۷۶۶۶)
’’ حافظ عراقی نے ’’ تخریج أحایث الإحیاء ‘‘ میں کہا ہے کہ طبرانی نے اس کی روایت انس کی حدیث سے معجم اوسط میں ضعیف سند سے کی ہے۔ البتہ انھوں نے فرمایا کہ اس میں یہ الفاظ ہیں: ’’ اس کے باپ کی اللہ تعالیٰ نے مغفرت کردی۔‘‘
پس جب ہندہ کے باپ نے ہندہ کو اس کے شوہر کے پاس جانے سے روکا اور منع کیا اور ہندہ کا شوہر اس امر سے بیزار ہے تو ہندہ کا باپ مناّع للخیر ہوا اور ہندہ جو بسبب عدم اطاعت زوج اپنے کے مستحق غضب الٰہی کی ہوگی، اس کا باعث ہندہ کا باپ ہوا۔ پس اب ہندہ کا باپ یقینی عاصی و مرتکب کبیرہ کا ہے۔