کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ایک عورت بیوہ ہے اور اپنا نکاح کرانا چاہتی ہے، لیکن عورت مذکورہ کا باپ کچھ تو اس وجہ سے کہ حسب رواج جہالت قدیمہ بیوہ کے نکاح کو برا جانتا اور توہین سمجھتا ہے، دوسرے اس وجہ سے کہ وہ خود تو بد دین ہے، توحید و سنت والوں کو وہابی وغیرہ کہتا ہے اور اس امر پر ہرگز راضی نہیں ہے کہ اس کی دختر ایسے آدمی سے نکاح کرے، اور عورت مذکورہ بدعت شرک وغیرہ سے تائب ہوگئی ہے اور نماز کی پابند ہے، اور یوں چاہتی ہے کہ کسی دین دار آدمی سے نکاح ہو جائے، تو اس صورت میں شریعتِ اسلام یہاں اجازت دیتی ہے یا نہیں کہ عورت مذکورہ اپنی قرابت میں کسی اور آدمی کو اپنے نکاح کا ولی بنا کر کسی دین دار شخص سے اپنا نکاح پڑھوالے، اور باپ کے ڈر سے اعلان عام نہ ہوسکے، اور ایسے جلسے میں نکاح ہو جس میں ایک مرد حاضر ہے جو کہ بیوہ مذکورہ کا داماد بھی اور خالہ کا بیٹا بھی ہے، اور اسی کو عورت نے اپنے نکاح کا ولی بنایا، اور قاضی بھی، اور دو عورتیں حاضر ہیں ، تو ایسا نکاح شرعاً صحیح ہے یا نہیں؟
﴿ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ ﴾ (یوسف: ۴۰) ’’ حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے۔‘‘
معلوم کرنا چاہیے کہ در صورت مذکورہ سوال شریعتِ اسلام اجازت دیتی ہے کہ عورت مذکورہ اپنی قرابت مند سے ایک مرد صالح اپنے نکاح کا ولی بنا کرکے دین دار شخص سے اپنا نکاح پڑھوالے اور ایسا نکاح جو سوال مذکورہ ہے، شرعاً صحیح و سنت ہے۔ تفصیل اس مسئلہ کی یہ ہے۔
شرط إذن الولي في النکاح ( نکاح میں ولی کی اجازت شرط ہے) میں تین مذہب ہیں:
اول مذہب احناف کا ہے، مسلک ان کا یہ ہے کہ ولی کی صحت نکاح کے لیے شرط نہیں ہے، عورت باکرہ ہو یا ثیبہ ہو، بلکہ عورت خود اپنا نکاح بلا اذن ولی کے کرسکتی ہے، مگر یہ مسلک بالکل ضعیف ہے اور ادلہ صحیحہ اس کے خلاف پر قائم ہیں۔
دوسرا مسلک امام شافعی اور امام احمد و اکثر محدثین ہے کہ اذن ولی صحتِ نکاح کے لیے شرط ہے اور عورت باکرہ ہو یاثبیہ ہو، عورت کو اختیار نہیں کہ بغیر ولایت کے اپنا نکاح کسی سے کرے۔
قال اللہ تبارک و تعالی : ﴿ وَاَنکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ ﴾ ( النور: ۳۲)
’’ تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں، ان کا نکاح کردو۔‘‘
پس یہاں پر خطاب ہے اولیاء کو، کہ تم بے خاوند والی عورتوں کا نکاح کردو۔
’’ ابوبردہ بن ابو موسیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔ اس کی روایت امام احمد اور سنن اربعہ کے اصحاب نے کی ہے اور علی بن مدینی، عبدالرحمان بن مہدی، ترمذی، بیہقی اور متعدد حفاظ نے اس کو صحیح قرار دیا ہے اور ابو یعلی موصلی نے اپنی مسند میں جابر کے واسطے سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ حافظ ضیا نے کہا ہے کہ اس کے تمام رجال ثقہ ہیں اور حاکم نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں صحیح روایت نبی ﷺ کی ازواج عائشہ، ام سلمہ اور زینب بنت حجش رضی اللہ عنہن کے واسطے سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس باب میں علی اور ابن عباس کے واسطے بھی روایت ہے۔ اس کے راوی تیس سے بھی زائد صحابیات ہیں۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بغیر ولی کے نکاح درست نہیں ہوتا ہے۔ ایسا ہی بلوغ المرام کی شرح سبل السلام میں ہے۔‘‘
مسلک سوم داود ظاہری کا ہے کہ عورت ثبیہ کے لئے شرط اذن ولی نہیں ہے، بلکہ ثیبہ خود بلا اذنِ ولی کے نکاح کرسکتی ہے، اور باکرہ کا نکاح بغیر ولایتِ ولی کے جائز نہیں ہے اور اس کو کچھ اختیار نہیں۔ لحدیث ابن عباس رضی اللہ عنھا أن النبىﷺ قال : (( الثیب أحق بنفسھا من ولیھا والبکر تستأمر، وإذنھا سکوتھا )) رواہ مسلم، وفي لفظ من روایة ابن عباس : (( لیس للولي مع الثیب أمر، والیتیمة تستأمر )) رواہ أبوداود والنسائي، وصححه ابن حبان۔ ( صحیح مسلم (۱۴۲۱) سنن أبي داود ( ۲۱۰۰) سنن النسائي ( ۲۶۶۰) صحیح ابن حبان ۹ ؍۳۹۴)
’’ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی بنیاد پر کہ نبی ﷺ نے فرمایا: شوہر دیدہ (ثیبہ) اپنے ولی کے مقابلے میں بنفس نفیس زیادہ حق دار ہے اور دو شیزہ سے اجازت چاہی جائے گی اور اس کی اجازت اس کا سکوت ہوگا۔ اس کی روایت مسلم نے کی ہے۔ ابن عباس کی ایک روایت میں ایک لفظ ہے کہ ثیب کے معاملے میں ولی کو کوئی اختیار نہیں اور یتیمہ سے اجازت چاہی جائے گی۔ اس کی روایت ابوداود اور نسائی نے کی ہے اور ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔‘‘
وقال النووي في شرح مسلم : ’’ واختلف العلماء في اشتراط الولي في صحة النکاح ، فقال مالک والشافعي : یشترط ، ولا یصح النکاح إلا بولي، في تزویج البکر دون الثیب ‘‘ انتھی ( شرح النووي ۹ ؍۲۰۵)’’ امام نووی نے مسلم کی شرح میں کہا ہے کہ نکاح کی صحت میں ولی شرط ہے اور بغیر ولی کے ثیبہ کے علاوہ باکرہ کا نکاح درست نہیں ہوگا۔ ختم شد‘‘
اور ’’ رحمة الأمة في اختلاف الأئمة ‘‘ میں ہے :
’’ ولا یصح النکاح عند الشافعي وأحمد إلا بولي ذکر ، وقال أبو حنیفة: للمرأة أن تزوج بنفسھا ، وقال داود : إن کانت بکرا لم یصح نکاحھا بغیر ولي، وإن کانت ثیبا صح ‘‘ انتھی’’ اور شافعی اور احمد کے نزدیک مرد ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوتا ہے اور ابوحنیفہ نے کہا ہے کہ عورت کو اختیار ہے کہ اپنا نکاح خود کرلے۔ داود نے کہا ہے کہ اگر وہ باکرہ ہے تو ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہوگا اور اگر ثیبہ ہے تو درست ہوگا۔ ختم شد‘‘
پس مسلک اول تو ضعیف ہے، ومسلک ثانی و ثالث کی صحت پر ادلہ قویہ قائم ہیں۔
’’ ویمیل خاطری إلی المسلک الثالث۔‘‘’’میرا دل تیسرے مسلک کی طرف مائل ہوتا ہے۔‘‘
پس بنا بریں مسلک ثالث کے اس عورت ثیبہ کو اختیار ہے کہ بغیر اذن اپنے باپ کے جس سے چاہے نکاح کرے اور بنا بر مسلک ثانی کے بھی وہ عورت کسی کو اپنے نکاح کا ولی بنا کر نکاح کرسکتی ہے۔ کیونکہ صورت مذکورہ سوال سے ظاہر ہے کہ باپ اس کا فاسق ہے اور ولی کا عادل ہونا امام شافعی و امام احمد کے نزدیک ضرور ہے۔ پس فاسق کی ولایت جائز نہیں ہے، بلکہ اس کے باپ کی ولایت دوسری طرف منتقل ہو جائے گی۔
کتاب مسند الشافعی میں ہے:
’’ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کوئی نکاح نہیں ہے مگر دو عادل گواہوں اور ایک ولی مرشد کے ساتھ۔ ختم شد‘‘
اور ’’ مغنی المحتاج شرح المنھاج ‘‘ للشیخ الخطیب الشربینی الشافعي میں ہے:
’’ ولا ولایة لفاسق علی المذھب، بل تنتقل الولایة للأبعد ، لحدیث ((لا نکاح إلا بولي مرشد )) رواہ الشافعي في مسندہ بسند صحیح، وقال الإمام أحمد : إنه أصح شيء في الباب ، ونقل عن الشافعي في البویطي أنه قال : المراد بالمرشد في الحدیث العدل‘‘ انتھی ( مغني المحتاج للشربیني ۳ ؍۱۵۵)’’ راجح مذہب کے مطابق کسی فاسق کو ولایت کا حق حاصل نہیں ہے، بلکہ ایسی صورت میں ولایت دور کے رشتے دار کو منتقل ہو جائے گی۔ اس حدیث کی بنیاد پر کہ ولی مرشد (نیک ولی) کے بغیر نکاح درست نہیں ہے۔ اس کی روایت شافعی نے اپنی مسند میں سند صحیح سے کی ہے۔ امام احمد نے کہا ہے کہ اس باب میں یہ سب سے صحیح چیز ہے۔ بویطی میں شافعی کے واسطے سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا کہ مرشد سے مراد حدیث میں عدل ہے۔ ختم شد‘‘
اور کتاب ’’ کشاف القناع شرح الإقناع ‘‘ للشیخ منصور بن إدریس الحنبلي میں ہے:
’’ ویشترط في الولي سبعة شروط : أحدھا : حریته ، والثاني : ذکوریته، والثالث : اتفاق دین، والرابع : بلوغ، والخامس: عقل، والسادس: عدالة ، لما روي عن ابن عباس : لا نکاح إلا بشاھدي عدل وولي مرشد۔ قال أحمد : أصح شيء في ھذا قول ابن عباس، وروي عنه مرفوعا : (( لا نکاح إلا بولي وشاھدَي عدل ، وأیما امرأة أنکحھا ولي مسخوط علیه فنکاحھا باطل )) ولأنھا ولایة نظریة فلا یستبد بھا الفاسق، ولو کان الولي عدلا وظاھرا فیکفي مستور الحال ، لأن اشتراط العدالة ظاھراً وباطناً حرج ومشقة ‘‘ انتھی (کشاف القناع ۵ ؍۵۳)’’ ولی کے لیے سات شرطیں ہیں: پہلی یہ کہ وہ آزاد ہو، دوسری یہ کہ وہ مرد ہو، تیسری یہ کہ دین ایک ہو، چوتھی یہ کہ وہ بالغ ہو، پانچویں یہ کہ وہ عقل و خرد کا مالک ہو اور چھٹی یہ کہ وہ عدل ہو۔ ابن عباس کی روایت کی بنیاد پر کہ نکاح درست نہیں ہے مگر دو عادل گواہوں اور ایک نیک ولی کے ساتھ۔ احمد نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں ابن عباس کا قول سب سے درست ہے اور ان سے مرفوعاً مروی ہے کہ بغیر ولی اور دو عادل گواہوں کے نکاح درست نہیں ہے اور جس کسی عورت کا نکاح ناپسندیدہ ولی نے کراد یا تو اس کا نکاح باطل ہے، کیونکہ یہ نظری ولایت ہے، فاسق اس کا انفراداً مالک نہیں بن سکتا۔ اگر ولی بہ ظاہر عادل ہے تو یہ کافی ہے، کیونکہ ظاہر و باطن دونوں کی عدالت کی شرط میں مشقت اور حرج ہے۔ ختم شد‘‘
اور ایسا ہی ہے کتاب ’’ شرح منتھی الإرادات في الفقه الحنبلي‘‘ میں:
وفي سبل السلام : ’’ أخرج الطبراني في الأوسط بإسناد حسن عن ابن عباس بلفظ : لا نکاح إلا بولي مرشد أو سلطان‘‘ انتھی ( سبل السلام ۳ ؍۱۱۸)’’ اور سبل السلام میں ہے کہ طبرانی نے اوسط میں ابن عباس کے واسطے سے حسن سند کے ساتھ تخریج کی ہے کہ نکاح بغیر ولی مرشد یا سلطان کے درست نہیں ہے۔ ختم شد‘‘
اور ’’ تلخیص الحبیر‘‘ میں ہے:
’’ حدیث ابن عباس ’’ لا نکاح إلا بولي مرشد و شاھدي عدل ‘‘ أخرجه الشافعي والبیھقي من طریق ابن خثیم عن سعید بن جبیر عنه موقوفا، وقال البیھقي بعد أن رواہ من طریق آخر عن ابن خثیم بسندہ مرفوعا بلفظ : لا نکاح إلا بإذن ولي مرشد وسلطان۔ قال : المحفوظ الموقوف ، ثم رواہ من طریق الثوري عن ابن خثیم به ، ومن طریق ابن الفضل عن ابن خثیم بسندہ مرفوعا بلفظ : لا نکاح إلا بولي وشاھدي عدل، فإن أنکحھا ولي مسخوط علیه فنکاحھا باطل، وعدي ضعیف‘‘ انتھی (تلخیص الحبیر ۳ ؍۳۵۲)’’ صالح ولی اور دو عادل گواہوں کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں ہے۔ اس کی تخریج شافعی اور بیہقی نے ابن خثیم کے طریق سے انھوں نے سعید بن جبیر کے واسطے سے موقوفاً کی ہے۔ بیہقی نے کہا ہے اس کو دوسرے طریق سے روایت کرنے کے بعد ابن خثیم کے واسطے سے اسی سند کے ساتھ مرفوعاً ان الفاظ میں کہ نکاح بغیر ولی مرشد اور سلطان کے درست نہیں ہے۔ اور کہا ہے کہ محفوظ موقوف ہے۔ پھر اس کو روایت کیا ہے ثوری کے طریق سے ابن خثیم کے واسطے سے اور ابن الفضل کے طریق سے ابن خثیم کے واسطے سے سند مرفوع کے ساتھ ان الفاظ میں: نکاح ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر درست نہیں ہے۔ اگر عورت کے ناراض ولی نے اس کا نکاح اپنی مرضی سے کردیا ہے تو اس کا نکاح باطل ہوگا اور عدی ضعیف ہیں۔ ختم شد‘‘
اور ’’ رحمة الأمة ‘‘ میں ہے:
’’ ولا ولایة للفاسق عند الشافعي وأحمد، وقال أبو حنیفة و مالک: الفسق لا یمنع الولایة ‘‘ انتھی’’ امام شافعی اور احمد کے نزدیک فاسق کی ولایت درست نہیں ہے اور امام ابوحنیفہ اور مالک کہتے ہیں کہ فسق ولایت میں رکاوٹ نہیں۔‘‘
اور اگر فاسق کی ولایت علی رأی بعض الائمہ تسلیم بھی کرلی جاوے تب بھی ولایت اس عورت کی باپ سے منتقل ہو جائے گی، کیونکہ باپ اس عورت کا باعث فسق اپنے کے عاضل ہے، یعنی مانع نکاح ثانی سے ہے اور اس کو برا سمجھتا ہے اور عورت کو ضرورت نکاح کرنے کی ہے، پس اس صورت میں اگر کوئی دوسرا ولی بعید بھی موجود نہ ہو، اگر موجود بھی ہو مگر وہ بھی اجازت نہیں دیتا تو اب وہ عورت ایک مرد دین دار کو اپنا ولی قرار دے کر بہ ولایت اس رجل صالح کے اپنا نکاح کرلے۔
’’ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کوئی بھی عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ اگر یہ آپس میں جھگڑ پڑیں تو سلطان اس کا ولی ہے، جس کا کوئی ولی نہیں۔ چاروں نے اس کی تخریج کی ہے سوائے نسائی کے اور ابو عوانہ ، ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ایسا ہی ’’بلوغ المرام‘‘ میں ہے۔‘‘
’’ وقال في سبل السلام : ’’ قال ابن کثیر : وصححه یحییٰ بن معین من الحفاظ ، والمراد بالاشتجار منع الأولیاء من العقد علیھا، وھذا ھو العضل، به تنتقل إلی السلطان إن عضل الأقرب، قیل : بل تنتقل إلی الأبعد ، وانتقالھا إلی السلطان مبني علی منع الأقرب والأبعد ، وھو یحتمل أن السلطان ولي من لا ولي لھا لعدمه، أو لمنعه، ومثلھا غیبة الولي ، ثم المراد بالسلطان من إلیه الأمر‘‘ انتھی ( سبل السلام ۳ ؍۱۱۸)’’ (سبل السلام)میں کہا ہے کہ ابن کثیر نے کہا: یحییٰ بن معین جو حفاظ میں سے ہیں، انھوں نے اس کو صحیح قرار دیا ہے اور اشتجار (جھگڑا) سے مراد اولیا کا اس عورت کا نکاح کرنے سے انکار کرنا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ (ولایت) دور کے اولیا کے پاس منتقل ہو جائے گی اور اس کی ولایت سلطان کے پاس اس وقت منتقل ہوگی جب کہ قریب اور دور کے رشتے دار ولایت قبول کرنے سے انکار کردیں۔ یہی مطلب ہے (اس حدیث کا) کہ سلطان اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں۔ ولی کے نہ ہونے کی صورت میں یا اس کے انکار کرنے کی صورت میں۔ اس کی مثال ولی کے غائب ہونے جیسی ہے۔ پھر سلطان سے مراد وہ ہے جو امور کا نگران ہو۔‘‘
اور موطا امام مالک میں ہے:
’’سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: عورت کا نکاح اس کے ولی یا صاحبِ رائے یا سلطان کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جائے گا۔ ختم شد‘‘
وقال الزرقاني في شرح الموطأ : ’’ قال أبو عمر : اختلف أصحابنا في قول عمر ھذا ، فقال بعضھم : کل واحد من ھؤلاء یجوز إنکاحه اذا أصاب وجه النکاح من الکفو والصلاح۔ وقال آخرون: علی التریب لا التخییر ‘‘ انتھی ( شرح الزرقاني ۳ ؍۱۶۵)’’ اور زرقانی نے موطا کی شرح میں کہا ہے: ابو عمر نے کہا کہ ہمارے اصحاب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے درست قرار دیا ہے کہ وہ اس کا نکاح کرا دے، جب وہ نکاح میں ہمسری اور بھلائی کی صورت کا خیال رکھ رہا ہو۔ ختم شد‘‘
اور ’’ مغني المحتاج شرح المنھاج ‘‘ میں ہے:
’’ أو عدم الولي والحاکم فولت مع خاطبھا أمرھا رجلا مجتھداً ، لیزوجھا منه صح، لأنه محکم، والمحکم کالحکم، وکذا لو ولت عدلا صح علی المختار ، وإن لم یکن مجتھدا ، لشدۃ الحاجة إلی ذلک۔ قال في المھمات : ولا یختص ذلک بفقد الحاکم، بل یجوز مع وجودہ سفراً و حضراً ، بنا ء اً علی الصحیح في مجاز التحکیم۔‘‘ انتھی ( مغني المحتاج ۳ ؍۱۴۷)’’ یا ولی اور حاکم کی عدم موجودگی میں اس کی ولایت کسی مجتہد شخص کی طرف منتقل ہو جائے گی جو اس کے پیغام نکاح دینے والے کے ساتھ اس کی شادی کردے تو یہ شادی درست ہوگی۔ کیونکہ وہ محکم ہے اور محکم حاکم کی طرح ہوتا ہے۔ اسی طریقے سے اگر کوئی عادل ولی ہو جاتا ہے تو بھی صحیح بات یہ ہے کہ یہ نکاح درست ہوگا، اگرچہ وہ مجتہد نہ ہو، اس بنا پر کہ نکاح کی شدید حاجت ہوتی ہے۔ انھوں نے ’’ المھمات‘‘ میں کہا کہ حاکم کی عدم موجودگی سے اسے مختص نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کی موجودگی ہی میں سفر و حضر کی حالت میں جائز ہوگا۔ ختم شد‘‘
اور بھی ’’ مغني المحتاج ‘‘ میں ہے:
’’ وکذا یزوج السلطان إذا عضل النسیب القریب ، وإنما یحصل العضل من الولي إذا دعت بالغة عاقلة إلی کفو، وامتنع الولي من تزویجہ لأنه إنما یجب علیه تزویجھا من کفو‘‘ انتھی (مغني المحتاج ۳ ؍۱۵۳)’’ اور اسی طرح سے سلطان شادی کراسکتا ہے جب کہ قریبی نسب والا کنارہ کش ہو جائے، عضل یعنی کنارہ کشی ولایت سے اس وقت سمجھی جائے گی جبکہ بالغہ عاقلہ عورت کفو کا مطالبہ کرے اور ولی اس کی شادی کرانے سے گریزاں ہو، کیونکہ کفو میں اس کی شادی کرانا واجب ہے۔ ختم شد‘‘
اور ’’ کشاف القناع ‘‘ میں ہے:
’’ فإن عدم الولي مطلقاً بأن لم یوجد أحد ، أو عضل ولیھا، ولم یوجد غیرہ ، زوجھا ذو سلطان في ذلک المکان، کوالي البلد أو کبیرہ أو أمیر القافلة ونحوہ ، لأن لہ سلطة ، فإن تعذر ذو سلطان في ذلک المکان زوجھا عدل بادیتھا ‘‘ انتھی ( کشاف القناع ۵ ؍۵۲)’’ پس بے شک ولی کا مطلق عدم وجود یا اس کے ولی کا کنارہ کش ہو جانا اور اس کے علاوہ کسی کے نہ پائے جانے کی صورت میں اس علاقے کا سلطان اس کی شادی کراسکتا ہے، جیسے شہر کا والی یا شہر کا کوئی بڑا شخص یا امیر قافلہ وغیرہ، کیونکہ وہ صاحب اقتدار ہے۔ پس اگر اس علاقے کا صاحب اقتدار شخص معذرت کرے تو اس کی شادی اس کی بستی کا کوئی عادل شخص کراسکتا ہے۔ ختم شد‘‘
اور ’’شرح منتھی الإرادات ‘‘ میں ہے:
’’ فإن عدم الکل أي عصبۃ النسب والولاء والسلطان ونائبه من المحل الذي به الحرة ، زوجھا ذو سلطان في مکانھا، کعضل أولیائھا مع عدم إمام و نائبه في مکانه، والعضل الامتناع من تزویجھا …، واشتراط الولي في ھذہ الحال یمنع النکاح بالکلیة ‘‘ انتھی کلامه (شرح منتھٰی الإرادات ۲ ؍۶۳۹)’’ پس اگر کوئی بھی نہ ہو، یعنی کوئی قریبی نسبی رشتے دار ولی، اس علاقے کا سلطان اور اس کا نائب جہاں کہ وہ آزاد عورت رہتی ہے، تو اس کی شادی اس کے علاقے کا کوئی صاحب اقتدار شخص کراسکتا ہے، جیسے کہ اس کے اولیا کا انکار کردینا، امام کا نہ پایا جانا یا اس کے نائب کا موجود نہ ہونا۔ عضل شادی کرانے سے رک جانے کو کہتے ہیں اور اس حال میں ولی کی شرط نکاح کو بالکلیہ روک دیتی ہے۔ کلام ختم ہوا۔‘‘
اور ’’ رحمة الأمة ‘‘ میں ہے:
’’ فإن کانت المرأة في موضع لیس فیه حاکم، ولا ولي، فوجھان : أحدھما تزوج نفسھا ، والثاني : أنھا ترد أمرھا إلی رجل من المسلمین یزوجھا ‘‘ انتھی’’ پس اگر عورت ایسی جگہ میں ہے جہاں حاکم ہے نہ ولی، تو دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ وہ اپنی شادی خود کرلے اور دوسری یہ کہ اپنا معاملہ مسلمانوں میں سے کسی کے سپرد کردے جو اس کی شادی کرا دے۔ ختم شد‘‘
اب رہا یہ امر کہ نکاح میں شہادت عورت کی جائز ہے یا نہیں اور ایک و دو عورت اس کے لیے کافی ہیں یا نہیں؟ پس شافعی و امام احمد کے نزدیک شہادت عورتوں کی نکاح میں جائز نہیں ہے۔
’’ کشاف القناع في فقه الحنابلة ‘‘ میں ہے:
’’ الشرط الرابع : الشھادة علی النکاح ، فلا ینعقد النکاح إلا بشاھدین مسلمین عدلین ذکرین، لما روی أبو عبید في الأموال عن الزھري أنه قال : مضت السنۃ أن لا یجوز شھادة النساء في الحدود ، ولا في النکاح ، ولا في الطلاق ‘‘ انتھی ( کشاف القناع ۵ ؍۶۵)’’ چوتھی شرط نکاح کی گواہی ہے۔ نکاح دو مسلمان عادل مرد گواہوں کے بغیر منعقد نہیں ہوتا ہے،جیسا کہ ابو عبیدہ نے ’’ الأموال‘‘ میں زہری کے واسطے سے روایت کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ سنت جاری ہے کہ عورتوں کی گواہی حدود، نکاح اور طلاق میں جائز نہیں ہے۔ ختم شد‘‘
اور ’’ تلخیص الحبیر ‘‘ میں ہے:
’’ حدیث الزھري : مضت السنة من رسول اللہ ﷺ والخلیفتین من بعد أن لا تقبل شھادة النساء في الحدود۔ روي عن مالک عن عقیل عن الزھري بھذا ، وزاد : ’’ ولا في النکاح ولا في الطلاق‘‘ ولا یصح عن مالک، ورواہ أبو یوسف في کتاب الخراج عن الحجاج عن الزھري به ، ومن ھذا الوجه أخرجه ابن أبي شیبة عن حفص بن غیاث عن حجاج بہ ‘‘ انتھی (تلخیص الحبیر ۴ ؍۴۹۴ )’’ زہری کی حدیث کہ رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے بعد دونوں خلفا کی سنت گزر چکی ہے کہ حدود میں عورتوں کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ یہ روایت بیان کی گئی ہے مالک کے واسطے سے، انھوں نے عقیل کے واسطے سے، انھوں نے زہری کے واسطے سے۔ اس میں اتنی زیادتی ہے کہ اور نہ نکاح میں اور نہ طلاق میں۔ مالک کے واسطے سے یہ درست نہیں ہے۔ ابو یوسف نے کتاب الخراج میں حجاج کے واسطے سے انھوں نے زہری کے واسطے سے یہ روایت بیان کی ہے اور اسی طریق سے ابن ابی شیبہ نے حفص بن غیاث کے واسطے سے اور انھوں نے حجاج کے واسطے سے اس کی تخریج کی ہے۔ ختم شد‘‘
’’ وأخرج ابن أبي شیبة : نا عیسی بن یونس عن الأوزاعي عن الزھري: مضت السنة بأنه یجوز شھادۃ النساء فیما لا یطلع علیه غیرھن، ورواہ عبدالرزاق عن ابن جریج عن ابن شھاب قال : مضت السنة أن تجوز شھادة النساء فیما لا یطلع علیه غیرھن من ولادات النساء وعیوبھن‘‘ ( مصدر سابق) انتھی ، وھکذا في نصب الرایة في تخریج أحادیث الھدایة للزیلعي ، والدرایة للحافظ ابن حجر رحمه اللہ۔’’ اور ابن ابی شیبہ نے تخریج کی ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں عیسیٰ بن یونس نے بتایا، انھوں نے اوزاعی کے واسطے سے اور انھوں نے زہری کے واسطے سے کہ یہ سنت رائج ہے کہ عورتوں کی گواہی ان امور میں جائز ہے جن امور میں کہ ان کے علاوہ کسی کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ عبدالرزاق نے روایت کیا ہے ابن جریج کے واسطے سے اور انھوں نے ابن شہاب کے واسطے سے، انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ جاری ہے کہ عورتوں کی گواہی ان امور میں جائز ہوگی جن میں ان کے علاوہ کوئی شخص جان کاری حاصل نہیں کرسکتا، جیسے عورتوں کی ولادت اور ان کے عیوب۔ اسی طرح سے زیلعی کی ’’ نصب الرایۃ في تخریج أحادیث الھدایۃ ‘ ‘ اور حافظ ابن حجر کی ’’ الدرایۃ‘‘ میں ہے۔‘‘
مگر یہ روایتِ زہری مرسل ہے، قابل حجت نہیں۔ اور لفظ ’’ ولا في النکاح ولا في الطلاق ‘‘ کا من طریق مالک محفوظ نہیں ہے اور حجاج بن ارطاۃ راوی مدلس ہے، بلکہ کتاب الخراج لابی یوسف القاضی ومصنف ابن ابی شیبۃ وعبدالرزاق میں جملہ ’’ ولا في النکاح ‘‘ کا نہیں ہے۔
وأخرج الإمام الشافعي في مسندہ : ’’ أخبرنا الثقة عن ابن جریج عن عبدالرزاق بن القاسم عن أبیہ قال : کانت عائشة رضى اللہ عنھا یخطب إلیھا المرأةمن أھلھا فتشھد ، فإذا بقیت عقدۃ النکاح قالت لبعض أھلھا : زوج ، فإن المرأة لا تلي عقدۃ النکاح ‘‘ انتھی (مسند الشافعي ، ص: ۳۵۹) اصل کتاب میں مذکور حدیث کی سند میں ’’عبدالرزاق بن القاسم‘‘ کے بجائے ’’ عبدالرحمن بن القاسم‘‘ ہے اور یہی درست ہے۔
’’ اور امام شافعی نے اپنی مسند میں تخریج کیا ہے: انھوں نے کہا کہ ہمیں ثقہ راوی نے ابن جریج کے واسطے سے بتایا، انھوں نے عبدالرزاق بن قاسم کے واسطے سے اور انھوں نے اپنے والد سے کہ انھوں نے کہا کہ حضرت عائشہ کے پاس ان کے خاندان کی کسی عورت کے لیے پیغام نکاح لایا جاتا تو وہ حاضر ہوتیں اور جب نکاح کا عقد باقی رہ جاتا تو گھر والوں کو کہتیں کہ اس کا نکاح کردو، کیونکہ عورت نکاح نہیں کراسکتی۔ ختم شد‘‘
اس روایت میں امام شافعی کے شیخ کا نام مذکور نہیں ہے، پس علی قاعدہ المحدثین سند اس کی صحیح نہیں ہوئی۔ اور قطع نظر حکم عام قرآن شریف کی تخصیص کے لیے حدیث صحیح مرفوع چاہیے، نہ اثر موقوف صحابہ۔ اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورت کی شہادت نکاح میں جائز ہے، پس ایک مرد و دو عورت کی گواہی نکاح میں درست ہوگی اور یہ مسلک از روئے دلیل کے قوی ہے۔ قال اللہ تبارک و تعالی:
﴿ وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ۰ فَاِنْ لَّمْ يَكُوْنَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَاءِ ﴾ ( البقرۃ: ۲۸۲)
’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور اپنے میں سے دو دو گواہ رکھ لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنھیں تم گواہوں میں سے پسند کرلو۔‘‘
اور صحیح بخاری بخاری وغیرہ میں ہے:
’’ ابو سعید کے واسطے کہ انھوں نے کہا کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے نصف نہیں ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ کیوں نہیں؟ نبیﷺ نے فرمایا: یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔‘‘
پس آیہ کریمہ و حدیث صحیح سے ثابت ہوا کہ دو عورتوں کی شہادت قائم مقام ایک شہادت کے ہے۔ پس یہ حکم عام جمیع احکام شرعی میں جاری ہوگا من غیر تخصیص فی فرد دون فرد اور اس عام کی تخصیص کے لیے صریح سنت مرفوع چاہیے۔ اور وہ جو روایت مسند امام شافعی کی ہے:
’’ أخبرنا مالک عن ابن الزبیر قال : أتى عمر رضی اللہ عنه بنکاح لم یشھد علیه إلا رجل وامرأة ، فقال : ھذا نکاح السر أجیزہ؟‘‘ انتھی ( مسند الشافعي ۱ ؍۲۹۱)’’ ہمیں بتایا مالک نے ابن زبیر کے واسطے سے، انھوں نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ کو ایک نکاح کی بابت بتایا گیا جس میں ایک مرد اور ایک عورت گواہ تھے تو انھوں نے کہا کہ یہ مخفی نکاح ہے، اس کی میں کیسے اجازت دوں؟‘‘
پس یہ انکار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس سبب سے ہوا کہ اس نکاح کا گواہ صرف ایک مرد تھا اور ایک عورت تھی، حالانکہ اگر ایک مرد موجود تھا تو پھر بجائے دوسرے مرد کےدو عورتوں کا ہونا تھا۔
اور ہدایہ میں ہے:
’’ ولا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاھدین حرین عاقلین بالغین مسلمین، رجلین، أو رجل وامرأتین، ولا یشترط وصف الذکورة، حتی ینعقد بحضور رجل وامرأتین، وفیه خلاف الشافعي‘‘ انتھی (الھدایة للمرغیناني ، ص: ۱۸۵)’’ اور مسلمانوں کا نکاح منعقد نہیں مگر دو عاقل، بالغ، مسلم، مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت کے ساتھ۔ اس میں مرد ہونے کی شرط نہیں ہے، یہاں تک کہ ایک مرد اور دو عورتوں کی حاضری سے بھی نکاح منعقد ہو جائے گا اور اس میں شافعی کا اختلاف ہے۔ ختم شد‘‘
پس حاصل کلام یہ ہے کہ اگر اس عورت کا باپ بلا وجہ شرعی باعث فسق اپنے اس عورت کو نکاح سے روکتا ہے اور مانع از نکاح ہے اور وہ عورت خواہش مند نکاح کرنے کی ہے اور دوسرا ولی بعید بھی اس کا نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ بھی مانع از نکاح ہے، تو اس صورت میں مطابق مذہب ائمہ کرام کے وہ عورت اپنے نکاح کا ولی بنا کر نکاح کرے، وہ نکاح صحیح ہوگا۔ اور بنا بر مذہب صحیح اور دلیل قوی کے دو عورت اور ایک مرد کی گواہی کافی ہوگی۔ مگر خروجاً عن الخلاف اگر دو مرد کو گواہ مقرر کرلے تو بہتر ہے۔