سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(122) جان بوجھ کر نماز ترک کرنے کے بارے میں حکم

  • 15284
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 827

سوال

(122) جان بوجھ کر نماز ترک کرنے کے بارے میں حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرابڑابھائی نماز ادانہیں کرتا توکیا میں اس سے صلہ رحمی کروں یا نہ کروں؟یاد رہے یہ صرف والد کی طرف سے میرابھائی ہے۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جوشخص جان بوجھ کر نماز ترک کرتا ہے تووہ علماء کے صحیح قول کے مطابق کفراکبر کامرتکب ہے جب کہ وہ وجوب نماز کااقرار کرتا ہواوراگرنماز کے وجوب ہی کا منکر ہوتو پھر تمام اہل علم کے ہاں وہ کافر ہے،کیونکہ نبی کریمﷺنے فرمایا

‘‘اصل معاملہ تواسلام ہے ،اس کا ستون نماز ہے اوراس کے کوہان کی بلندی جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔’’اس حدیث کو امام احمد وترمذی نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔اسی طرح نبی ﷺنے یہ بھی فرمایا ہےکہ‘‘آدمی اورکفر وشرک کے درمیان فرق ترک نماز ہے ۔’’ (صحیح مسلم) نیز آپﷺکا ارشاد پاک ہے کہ‘‘وہ عہدجوہمارے اوران کے درمیان ہے،وہ نمازہے ،جو اسے ترک کردے ،وہ کافر ہے۔’’اس حدیث کو امام احمداوراہل سنن نے سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

جوشخص نماز کے وجو ب کا منکر ہے وہ درحقیقت اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکی تکذیب کرتا ہے،لہذا اس بات پر تمام اہل علم وایمان کا اجماع ہے کہ اس کا کفر اس شخص کے کفر کی نسبت اکبر واعظم ہے جو محض سستی کی وجہ سے نمازکا تارک ہے۔بہر حال دونوں صورتوں میں مسلمان حکمرانوں پریہ واجب ہے کہ وہ تارک نماز سے توبہ کرائیں،اگر توبہ کرے تو بہت بہتر ورنہ اس سلسلہ میں وارد دلائل کی بنیاد پر اسے قتل کردیا جائے۔تارک نماز کا بائیکاٹ ،اس کے ساتھ قطع تعلقات اوراس کی دعوت کو قبول نہ کرنا واجب ہے حتی کہ وہ توبہ کرلے۔اسی طرح یہ بھی واجب ہے کہ اسے نصیحت کی جائے ،حق کی دعوت دی جائے ،اوران سزاوں سے ڈرایا جائے جو ترک نماز کی وجہ سے دنیا وآخرت میں مرتب ہوتی ہیں شاید اسی طرح وہ توبہ کرلے اوراللہ تعالی بھی اس کے گناہ معاف فرمادے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مقالات و فتاویٰ

ص250

محدث فتویٰ

تبصرے