سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(34)حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بحالت رکوع انگشتری صدقہ کرنا

  • 15272
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2451

سوال

(34)حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بحالت رکوع انگشتری صدقہ کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بحالت رکوع جو تصدق انگشتری کی روایت ابو ذر کتب قوم میں مسطور ہے، اس کی بابت حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’ الکاف الشاف في تخریج أحادیث الکشاف‘‘  میں لکھا ہے کہ ’’ إسنادہ ساقط ‘‘  (اس کی سند ساقط ہے)۔

اگرچہ کتاب مذکور میں اس کی سند مذکور نہیں ہے، مگر ثعلبی نے اپنی تفسیر میں سورہ مائدہ میں آیہ کریمہ : ﴿  اِنمَّمَا وَلِیُّکُمْ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ ﴾ ( المائدۃ: ۵۵)   ’’ ( مسلمانوں!) تمہارا دوست خود اللہ ہے‘‘ کی تفسیر میں سند اس طرح لکھی ہے:

’’ یحییٰ بن عبدالحمید الحماني عن قیس بن الربیع عن الأعمش عن عبایة بن ربعي عن ابن عباس عن أبي ذر‘‘
دریافت طلب یہ ہے کہ یہ سند کس وجہ سے ساقط ہے؟ کیا درمیان کا کوئی راوی ساقط ہوگیا ہے یا اور کچھ معنی ’’ ساقط‘‘ کے ہیں؟ اور عبایہ بن ربعی کی روایت ابن عباس سے صحیح ہے یا نہیں؟ اور کتب احادیث میں ہے یا نہیں؟ اور کیا ان کا ترجمہ ہے؟ بحوالہ کتب جواب تحریر فرمائیے۔

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیشک یہ روایت تصدیق انگشتری کی بہت سی کتابوں میں مذکور ہے، لیکن یہ روایت مرفوعاً سند صحیح سے مروی نہیں ہے، بلکہ ضعیف الاسناد ہے۔ اسی واسطے حافظ ابن حجر نے اس حدیث کے بارے میں ’’ساقط‘‘ لکھاہے اور ’’ساقط‘‘ سے مراد حافظ ابن حجر کی یہ نہیں ہے کہ اس سند میں کوئی راوی ساقط ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ سند اس حدیث کی ضعیف اور ساقط الاعتبار ہے۔ اور ’’ساقط‘‘ کا اطلاق رواۃ ضعفاء پربھی ہوا کرتا ہے۔

حافظ ذہبی نے مقدمہ میزان الاعتدال میں لکھا ہے:

’’ وأردی عبارة الجرح : دجال کذاب أو وضاع، ثم متھم بالکذب، ثم متروک وذاھب الحدیث وھالک وساقط، ثم واہ بمرة‘‘ انتھی مختصرا ( میزان الاعتدال ۱؍ ۴)

’’ اور جرح کی عبارت کے سب سے سخت الفاظ دجال، کذاب یا وضاع ہیں، پھر جھوٹ (کذب) سے مہتم، پھر متروک، ذاہب الحدیث، ہالک اور ساقط ہیں۔ پھر واہ بمر ہیں۔‘‘

اور عبایہ بن ربعی، جن سے اعمش روایت کرتے ہیں، وہ بہت ضعیف ہیں۔ حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے: 

’’عبایة بن ربعي من غلاة الشیعة ۔ وقال العلاء بن المبارک : سمعت أبا بکر بن عباس یقول للأعمش : أنت حین تحدث عن موسی عن عبایة فذکرہ ، فقال : واللہ ما رویته إلا علی وجه الاستھزاء‘‘ انتھی ( میزان الاعتدال ۲ ؍ ۳۸۷)

’’عبایہ بن ربعی غالی شیعہ میں سے ہیں۔ علاء بن مبارک نے کہا ہے کہ میں نے ابوبکر بن عباس کو اعمش سے کہتے ہوئے سنا: تم جب موسیٰ کے واسطے سے حدیث بیان کرتے ہو اور وہ عبایہ کے واسطے سے … اور اس کا ذکر کیا۔ تو اعمش نے کہا کہ بخدا میں نے اس کی روایت محض استہزاء کے طور پر کی تھی۔ ختم شد‘‘

اور علامہ جلال الدین سیوطی نے ’’ ذیل اللآلی ‘‘   کے کتاب المناقب میں ایک سند نقل کی ہے اس طور سے:

’’  حدثنا قیس بن الربیع عن الأعمش عن عبایة بن ربعي عن أبي أیوب الأنصاري أن رسول اللہﷺ قال لفاطمة رضي اللہ عنھا … الحدیث ثم قال السیوطي : وقیس بن الربیع لا یحتج به، وعبایة بن ربعي ، قال العقیلي : شیعي غال ملحد‘‘

’’ قیس بن ربیع نے اعمش کے واسطے سے ہم سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبایہ بن ربعی کے واسطے سے، انھوں نے ابو ایوب انصاری کے واسطے سے کہ رسول اللہﷺ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا … الحدیث۔ پھر سیوطی نے کہا: قیس بن ربیع سے حجت نہیں قائم کی جاسکتی۔ اور عبایہ بن ربیع کی بابت عقیلی نے کہا: وہ غالی شیعہ اور ملحد ہے۔‘‘

اور میزان الاعتدال میں ہے:

’’ قیس بن الربیع الأسدي الکوفي ، قیل لأحمد : ولم ترکوا حدیثه؟ قال : کان یتشیع ، وکان کثیر الخطأ‘‘ انتھی مختصرا (میزان الاعتدال ۳؍ ۳۹۳)

’’ قیس بن ربیع اسدی کوفی، احمد سے پوچھا گیا: کیوں لوگوں نے ان کی حدیث کو چھوڑ دیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ وہ شیعہ ہوگئے تھے اور وہ کثیر الخطا تھے۔ ختم شد‘‘

حاصل یہ کہ گو قیس بن الربیع مختلف الاحتجاج ہے، مگر عبایہ بن ربعی متفق علی ضعفہ ہے۔ اس لیے روایت ’’ قیس بن الربیع عن الأعمش عن عبایة بن ربعي ‘‘  ساقط الاعتبار ہے۔

اور کتاب ’’ أسباب النزول، للإمام أبي الحسن الواحدي‘‘ میں یہ روایت دوسری سند سے مروی ہے:

’’ وعبارته ھکذا : ’’ أخبرنا أبوبکر التمیمي قال : أخبرنا عبداللہ بن محمد ابن جعفر قال : حدثنا الحسین بن محمد بن أبي ھریرو قال : حدثنا عبد اللہ بن عبدالوھاب قال : حدثنا محمد بن الأسود عن محمد بن مروان عن محمد بن السائب عن أبي صالح عن ابن عباس …‘‘ فذکر الحدیث۔ وفي آخرہ قال : ثم إن النبيﷺ خرج إلی المسجد، والناس بین قائم وراکع ، فنظر سائلا فقال : ھل أعطاک أحد شیئا ؟ قال : نعم ، خاتم من ذھب، قال : من أعطاك ؟ قال : ذلک القائم وأومأ بیدہ إلی علي بن أبي طالب رضي اللہ عنه، فقال : علی أي حال أعطاک ؟ قال : أعطاني ، وھو راکع، فکبر النبيﷺ ثم قرأ : ﴿ وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللہَ وَرَسُوْلَه وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللہِ ھُمْ الْغٰلِبُوْنَ ﴾ (المائدة: ۵۶)  ( أسباب النزول للواحدي، ص: ۱۹۰)

’’ اور ان کی عبارت اس طرح ہے: ہمیں خبر دی ابوبکر تمیمی نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں خبر دی عبداللہ بن محمد بن جعفر نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے بیان کیا حسین بن محمد بن ابوہریرہ نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن الاسود نے محمد بن مروان کے واسطے سے بیان کیا۔ انھوں نے محمد بن سائب اور وہ ابو صالح سے اور وہ ابن عباس کے واسطے سے … پھر حدیث ذکر کی اور اس کے آخر میں کہا: پھر نبی ﷺ مسجد کے لیے نکلے اور لوگ قیام و رکوع کی حالت میں تھے، پس ایک سائل کو دیکھا اور فرمایا: کیا تمہیں کسی نے کچھ دیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں، سونے کی ایک انگوٹھی۔ آپﷺ نے پوچھا: تم کو کس نے یہ دیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اس کھڑے ہوئے شخص نے اور اپنے ہاتھ سے علی بن طالب رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا، پھر آپﷺ نے پوچھا کہ کس حال میں تمہیں انھوں نے دیا ہے؟ اس شخص نے کہا کہ انھوں نے مجھے اس حالت میں دیا ہے کہ وہ رکوع میں تھے۔ پس نبیﷺ نے تکبیر کہی، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’ جو اللہ اور رسول اور ان لوگوں سے جو ایمان لائے، دوستی رکھے گا ( تو جان لے کہ) اللہ کا گروہ ہی غالب ہے۔‘‘

لیکن یہ سند بھی مخدوش ہے۔ محمد بن مروان السدی اور محمد بن السائب الکلبی ضعفاء میں ہیں۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے کتاب ’’ الإتقان في معرفۃ علوم القرآن، النوع الثمانون في طبقات المفسرین‘‘  میں لکھا ہے:

’’ ومن جید الطرق عن ابن عباس : طریق قیس عن عطاء بن السائب عن سعید بن جبیر عن ابن عباس، وھذه الطریق صحیحة علی شرط الشیخین ، وأوھی طرقہ : طریق الکلبي عن أبي صالح عن ابن عباس۔ فإذا نظم إلی ذلک روایة محمد بن مروان السدي الصغیر فھي سلسلة الکذب ، وکثیرا ما یخرج منھا الثعلبي والواحدي‘‘ انتھی ( الإتقان للسیوطي ۲ ؍ ۴۹۷)

’’ ابن عباس کے واسطے سے سب سے عمدہ طریق، قیس کا طریق ہے جو عطا بن السائب کے واسطے سے ہے اور وہ سعید بن جبیر کے واسطے ہے اور وہ ابن عباس کے واسطے سے، شیخین کی شرط کے مطابق یہ طریق صحیح ہے۔ اور سب سے خراب اور واہی طریق کلبی کا ہے جو ابو صالح سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابن عباس کے واسطے سے۔ اور جب اس سے محمد بن مروان سدی صغیر کی روایت جوڑ دی جائے گی تو یہ کذب کا سلسلہ ہوگا۔ عام طور سے ثعلبی اور واحدی اس طریق سے روایت کرتے ہیں۔ ختم شد‘‘

اور ’’ میزان الاعتدال‘‘ میں ہے:

’’ محمد بن مروان السدي الصغیر ، ترکوه ، واتھمه بعضھم بالکذب، وھو صاحب لکلبي ، قال البخاري : سکتوا عنه ‘‘ انتھی (میزان الاعتدا  ۴ ؍ ۳۲)

’’ محمد بن مروان السدی الصغیر کو (لوگوں نے) ترک کردیا ہے اور بعض نے ان پر کذب کا الزام لگایا ہے اور وہ کلبی کے ساتھی ہیں۔ بخاری نے کہا ہے کہ (لوگ) ان کے بارے میں خاموش ہیں۔ ختم شد‘‘

اور میزان الاعتدال میں محمد بن السائب الکلبی کے ترجمہ میں لکھا ہے:

’’ ترکه یحییٰ وابن مھدي ، ثم قال البخاري : قال علي : حدثنا یحییٰ عن سفیان، قال لي الکلبی : کلما حدثتک عن أبي صالح فھو کذب‘‘ انتھی ( میزان الاعتدال ۳؍ ۵۵۷)

’’ یحییٰ اور ابن مہدی نے اس کو چھوڑ دیا ہے۔ پھر بخاری نے کہا: علی نے کہا: ہمیں یحییٰ نے سفیان کے واسطے سے حدیث بیان کی، انھوں نے (سفیان نے) کہا کہ مجھ سے کلبی نے کہا کہ جو بھی میں نے ابو صالح کے واسطے سے تمھیں حدیث بیان کی ہے، وہ جھوٹی ہے۔ ختم شد‘‘

اور تفسیر ابن جریر طبری میں ہے:

’’ حدثنا محمد بن الحسین حدثنا أحمد بن المفضل ثنا أسباط عن السدي قال : ثم أخبرھم من یتولاھم فقال : ﴿  اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَرَسُوْلُه وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَھُمْ رٰکِعُوْنَ ﴾ ھولاء جمیع المؤمنین ، ولکن علي بن أبي طالب مربه سائل، وھو راکع  في المسجد فأعطاه خاتمه‘‘ ( تفسیر ابن جریر الطبري ۴ ؍ ۶۲۸)

’’ ہمیں بیان کیا محمد بن حسین نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں بیان کیا احمد بن مفضل نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں بیان کیا سدی کے واسطے سے اسباط نے، انھوں ( سدی) نے کہا: پھر لوگوں کو بتایا کہ جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو فرمایا کہ تم لوگوں کا ولی اللہ، اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ رکوع کرنے والے ہیں۔ یہ تمام کے تمام لوگ مومنین ہیں۔ علی بن ابی طالب کے پاس سے ایک سائل گزرا اور وہ مسجد میں رکوع کی حالت میں تھے، تو انھوں نے اس کو اپنی انگوٹھی دی۔‘‘

’’ حدثنا ھناد بن السري قال : حدثنا عبداللہ بن عبدالملک عن أبي جعفر قال : سألته عن ھذه الآیة : ﴿ اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَرَسُوْلُه وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوة وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوة وَھُمْ رٰکِعُوْنَ ﴾  قلنا: من الذین آمنوا؟ قال : الذین آمنوا، قلنا : بلغنا أنھا أنزلت في علي بن أبي طالب، قال : علي من الذین آمنوا‘‘

’’ ہمیں حدیث بیان کی ہناد بن سری نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے بیان کیا عبداللہ بن عبدالملک نے ابوجعفر کے واسطے سے، انھوں نے کہا کہ میں نے ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا: ’’ تم لوگوں کا ولی صرف اللہ، اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور رکوع کرنے والے ہیں۔‘‘ ہم نے پوچھا کہ کون لوگ ایمان لائے؟ انھوں نے کہا کہ جو لوگ ایمان لائے، ہم نے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ آیت علی بن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ علی ان لوگوں میں شامل ہیں جو ایمان لائے۔‘‘

’’ حدثنا ابن وکیع قال : ثنا المحاربي عن عبدالملک قال : سألت أبا جعفر عن قول اللہ ﴿  اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَرَسُوْلُه …﴾ وذکر نحو حدیث ھناد عن عبدة۔‘‘

’’ ہم سے ابن وکیع نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے محاربی نے عبدالملک کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے ابو جعفر سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں سوال کیا: ﴿  اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَرَسُوْلُه …﴾ تو  انھوں نے ہناد بواسطہ عبدہ ایسی ہی حدیث بیان کی۔‘‘

’’ حدثنا إسماعیل بن إسرائیل الرملي قال : ثنا أیوب بن سوید قال: ثنا عتبة  بن أبي حکیم في ھذه الآیة: ﴿ اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَرَسُوْلُه وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ … ﴾ قال : علي بن أبي طالب‘‘

’’ اسماعیل بن اسرائیل الرملی نے ہم سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے ایوب بن سوید نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سےعتبہ بن ابو حکیم نے اس آیت کے بارے میں بیان کیا: ’’ تمہارا ولی تو صرف اللہ، اس کا رسول اور مومنین ہیں‘‘ انھوں نے کہا کہ وہ علی بن ابی طالب ہیں۔‘‘

’’ حدثني الحارث قال : ثنا عبدالعزیز قال : ثنا غالب بن عبید اللہ قال : سمعت مجاھدا یقول في قوله: ﴿ اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللہُ وَرَسُوْلُه... ﴾ الآیة۔ قال : نزلت في علي بن أبي طالب، تصدق وھو راکع۔‘‘ (تفسیر الطبري ۴ ؍ ۶۲۸)

’’ ہم سے حارث نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے غالب بن عبید اللہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے مجاہد کو اللہ تعالیٰ کے اس قول کے سلسلے میں کہتے ہوئے سنا: ’’ تم لوگوں کا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول! … الآیہ۔ انھوں نے کہا کہ (یہ آیت) علی بن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوئی تھی، انھوں نے صدقہ کردیا جب وہ رکوع میں تھے۔‘‘

یہ چار آثار ہیں سدّی و ابو جعفر و عتبہ بن ابی حکیم و مجاہد کے۔ پس تین آثار اخیرہ سے معلوم ہوا کہ یہ آیہ کریمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 190

محدث فتویٰ

تبصرے