سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(29,30)تیجا، چالیسواں اور برسی وغیرہ کرنا

  • 15250
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2686

سوال

(29,30)تیجا، چالیسواں اور برسی وغیرہ کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 تیجا کرنا، یعنی بعد مرنے مردوں کے تیسرے دن جو لوگ جمع ہو کر قرآن پڑھتے ہیں اور چنوں پر کلمہ پڑھ کر تقسیم کرتے ہیں، اور دسواں، بیسواں، چالیسواں، چھ ماہی، برسی کرنا کیسا ہے؟

۲۔ مردہ کو دفن کرنے کے بعد جمعہ کے دن تک کسی کو قبر پر قرآن پڑھنے کے واسطے بٹھانا اور جب جمعہ کا دن آیا جمعہ کے سپرد کرکے چلے آنا، اس اعتقاد سے کہ جب تک جمعہ کا دن نہیں آیا ہے، قرآن پڑھنے کے سبب سے منکر نکیر نہیں آئیں گے اور اس پر عذاب نہیں ہوگا۔ یہ فعل شرع سے ثابت ہے یا نہیں اور بصورت نہ ہونے کے عقیدہ رکھنے والا اس کا کیسا ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دونوں سوالوں کا یہ ہے کہ تیجا اور دسواں، بیسواں، چالیسواں، چھ ماہی، برسی اور گیارھویں اور فاتحہ مروجہ شب براءت کرنا اور اس طریقہ خاص سے مجتمع ہو کر قرآن اور کلمہ پڑھنا، خواہ مکان میں بیٹھ کر، خواہ قبر پر اور مردے کے دفن کے بعد جمعہ تک قبر پر بٹھانا، یہ سب بدعت اور گمراہی ہے۔ کسی حدیث سے ثابت نہیں اور نہ کسی صحابہ کا اس پر عمل ہوا اور نہ کسی مجتہد سے استحباب ان افعالوں کا منقول ہے۔ حاصل یہ ہے کہ یہ طریقے سب ایصالِ ثواب کے لیے ساتھ تقید اور تعیین روز و ماہ کے اور التزام قیودات مرسومہ کا کسی دلیل سے دلائل شرعیہ کے ثابت نہیں اور کرنے والا ان افعالوں کا مبتدع ہے۔

شیخ عبدالحق نے ’’ مدارج النبوة‘‘ میں لکھا ہے:

’’ وعادت نمود کہ برائے میت جمع شوند و قرآن خوانند و ختمات خوانند، نہ برسر گور نہ غیر آن، وایں مجموع بدعت است۔ ما ایں اجتماع مخصوص روز سوم و ارتکاب تکلفات دیگر و صرف اموال بے وصیت از یتامےٰ بدعت است و حرام۔ انتہے ‘‘

’’ یہ عادت نہیں تھی کہ میت پر جمع ہو جائے یا قبر پر قرآن خوانی یا ختم قرآن کریں۔ یہ سب کے سب بدعت ہیں۔ ہاں میت کے گھر والوں کی تعزیت داری کے لیے یا تسلی دینے کے لیے یا صبر کی تلقین کے لیے جمع ہونا سنت اور مستحب ہے۔ بہرکیف تیسرے دن میں مجلس خاص لگانا اور دوسرے بے جا تکلفات کرنا اور یتیم کے غیر وصیت شدہ مال کو ان ایام میں خرچ کرنا بدعت اور حرام ہے۔ ختم شد‘‘

اور فقیہ محمد بن محمد کردری نے ’’ فتاویٰ بزازیه‘‘ میں لکھا ہے:

’’ یکرہ اتخاذ الطعام فى الیوم الأول ، والثالث، وبعد الأسبوع، ونقل الطعام إلی القبر فى المواسم، واتخاذ الدعوة بقراءة القرآن، وجمع الصلحاء والفقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام والإخلاص‘‘ انتھی

’’ پہلے دن، تیسرے دن اور ایک ہفتے کے بعد کھانا لینا مکروہ ہے اور (مخصوص) موسم میں کھانا قبر کے پاس لے جانا اور (ایصالِ ثواب کے لیے) قراءتِ قرآن کی دعوت کرنا اور صلحا و فقرا کو ختمِ قرآن کے لیے یا سورۃ الانعام اور سورۃ الاخلاص کی تلاوت کے لیے جمع کرنا مکروہ ہے۔‘‘

اور ’’ فتاویٰ جامع الروایات‘‘ میں ہے:

’’ فى شرح المنھاج للنووي : الاجتماع علی المقبرة في الیوم الثالث وتقسیم الورد والعود وإطعام الطعام في الأیام المخصوصة کالثالث والخامس والتاسع والعاشر والعشرین والأربعین والشھر السادس والسنة بدعة مذمومة ‘‘ انتھی

’’ اور نووی کی ’’ شرح المنھاج‘‘ میں ہے کہ تیسرے دن قبر پر اجتماع، گلاب اور عود کا تقسیم کرنا اور مخصوص ایام میں کھانا کھلانا جیسے تیسرے، پانچویں، نویں، دسویں، بیسویں، چالیسویں، چھٹے مہینے اور سال میں، مذموم بدعتیں ہیں۔ ختم شد‘‘

شیخ ولی اللہ المحدث رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ وصیت نامہ‘‘ میں لکھا ہے:

’’ دیگر از عادات شنیعہ ما مردم اسراف است در ماتم ہاوسوم و چہلم و شش ماہی فاتحہ سالینہ۔ وایں رادر عرب اول وجود نبود ‘‘ انتہی

’’ اور ہماری بری عادتوں میں سے تیسرا دن یا چالیسواں دن اور ششماہی اور سالانہ فاتحہ خوانی میں ماتم کرنا ہے، جو عرب کے پہلے طبقے میں موجود نہیں تھا۔‘‘

بلکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا خاص مذہب یہ ہے کہ قراءۃِ قرآن مطلقاً قبر کے پاس مکروہ ہے۔ جیسا کہ عبدالوہاب شعرانی نے میزان کبری میں تصریح کی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 158

محدث فتویٰ

تبصرے