مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ کی قرات کے بارے میں علماء میں اختلا ف ہے لیکن نبی ﷺکے ارشادگرامی:
‘‘اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جوسوره فاتحہ نہ پڑھے۔’’
كے عموم کے پیش نظر راجح ترین بات یہ ہے کہ مقتدی کے لئے بھی سورہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے ،اسی طرح آنحضرت ﷺکا ارشادہے کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا‘‘جی ہاں’’توآپؐ نے ارشادفرمایا:
‘‘سوره فاتحہ کے سوا اورکچھ نہ پڑھوکیونکہ جو شخص سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔’’ (ابو داودودیگر محدثین باسنادحسن)
اگرامام جہری نماز میں سکتہ نہ بھی کرے تو پھر بھی مقتدی کو ہر حال میں سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئے خواہ ا س وقت ہی کیوں نہ پڑھے ،جب امام قرات کررہا ہو اورپھر سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد خاموش ہوجائے تاکہ دونوں احادیث پر عمل ہوجائے۔اگر مقتدی بھول جائے یا وہ جاہل ہواوراسےسورہ فاتحہ کے پڑھنے کے وجوب کا علم نہ ہو تو اس سے فاتحہ کا پڑھنا ساقط ہوجائے گا۔جس طرح اس شخص سے ساقط ہوجاتا ہے جو امام کے ساتھ آکررکوع کی حالت میں ملے توعلماء کے صحیح قول کے مطابق اس کی یہ رکعت ہوجائے گی ،اکثر اہل علم کا یہی قول ہے کیونکہ حضرت ابوبکرہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ‘‘وہ جب مسجد میں آئے تو نبی کریمﷺرکوع فرمارہے تھے توانہوں نے بھی صف میں داخل ہونے سے پہلے ہی رکوع شروع کردیا اورپھر اسی طرح بحالت رکوع صف میں داخل ہوگئے توآنحضرت ﷺنے نماز سے سلام پھیر نے کے بعد فرمایا‘‘اللہ تعالی تمہارے شوق میں اضافہ فرمائے،آئندہ اس طرح نہ کرنا ۔’’لیکن آپ ؐ نے انہیں اس رکعت کے دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا تھا ۔(صحیح بخاری /فتاوی اسلامیہ میں سماحۃ الشیخ ابن باز حفظہ اللہ تعالی کے اس فتوی کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ من كان له امام فقراءة الامام له قراءةجس کا امام ہو تو اس کی قرات ہوگی ،ضعیف اور ناقابل استدلال ہے ،اگریہ صحیح بھی ہو تو یہ عام ہے اورسورہ فاتحہ کا پڑھنا اس مسئلہ میں وارد صحیح احادیث کے پیش نظر خاص ہوگا/واللہ ولی التوفیق،ملاحظہ فرمائیے فتاوی اسلامیہ ،ج۱ص۲۶۰،جمع وترتیب محمد بن عبدالعزیز المسند ،دارالوطنی الریاض ۱۴۱۴ھ۱۹۹۴ء/مترجم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب