اس بات کی کوئی صحیح اورصریح دلیل نہیں ہے کہ امام سکوت اختیار کرے تاکہ جہر ی نماز میں مقتدی سورہ فاتحہ پڑھ سکے،مقتدی کوچاہئے کہ وہ اس وقت فاتحہ پڑھے جب امام قرات کے درمیان سکوت کرے اوراگرامام قرات کے درمیان سکوت نہ کرے تومقتدی کو چاہئے کہ فاتحہ کو اپنے جی میں پڑھ لے خواہ امام قرات ہی کیوں نہ کررہا ہواورپھر سورہ فاتحہ پڑھنے کے بعد خاموش ہوجائے کیونکہ نبی ﷺکے حسب ذیل ارشادکے عموم کا تقاضا یہ ہے کہ سورہ فاتحہ کو ہر رکعت میں پڑھا جائے:
‘‘اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جوسوره فاتحہ نہ پڑھے۔’’
اورنبیﷺنے فرمایاتھا کہ ‘‘شاید تم اپنے امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو؟’’صحابہ نے عرض کیا ‘‘جی ہاں’’فرمایا:
(مسند احمد ’سنن ابي داود’وصحيح ابن حبان باسنادحسن)
‘‘سوره فاتحہ کے سوا اورکچھ نہ پڑھوکیونکہ جو شخص سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔’’ (احمد ’سنن ابي داود’ ابن حبان،اس کی سند حسن ہے)
یہ دونوں حدیثیں حسب ذیل ارشادباری تعالی اورارشادنبوی کے عموم کی تخصیص کردیتی ہیں۔
‘‘اور جب قرآن پڑھا جائے توتوجہ سے سناکرو اورخاموش رہا کروتاکہ تم پر رحم کیا جائے۔’’
‘‘امام اس لئے بنایا جاتا ہےکہ اس کی اقتداء کی جائے لہذا اس سے اختلاف نہ کرو،جب وہ اللہ اکبر کہے توتم بھی اللہ اکبر کہو۔اورجب وہ قرات کرے توتم خاموش رہو۔’’(صحیح مسلم)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب