سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(22)مسجد واحد میں جواز تکرارِ جماعت

  • 15210
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1375

سوال

(22)مسجد واحد میں جواز تکرارِ جماعت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جواز تکرارِ جماعت مسجدِ واحد میں، حدیث صحیح سے ثابت ہے یا نہیں اور فقہائے حنفیہ کی اس میں کیا رائے ہے؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بلاشک و شبہ فضیلت و ثواب جماعت اولیٰ کا زیادہ ہے بہ نسبت جماعت اُخری کے۔ مگر اس سے یہ بات لازم نہیں آتی ہے کہ تکارِ جماعت بعد جماعتِ اولی ناجائز ہو جائے اور کراہت بھی اس کی کسی حدیث صحیح سے ثابت نہیں، بلکہ جواز تکرارِ جماعت فی مسجد واحد حدیث صحیح سے ثابت ہے اور صحابہ و تابعین اور ائمہ مجتہدین کا اس پر عمل بھی رہا ہے۔

دیکھو روایت کی ابوداود نے سنن میں :

’’ باب فى الجمع فى المسجد مرتین۔ حدثنا موسی بن إسماعیل ثنا وھیب عن سلیمان الأسود عن أبى المتوکل عن أبى سعید الخدرى أن رسول اللہ ﷺ أبصر رجلا یصلى وحدہ، فقال : ألا رجل یتصدق علی ھذا فیصلى معه؟ ‘‘ (سنن أبى داود، رقم الحدیث ۵۷۴ مسند أحمد ۳؍۶۴)

یعنی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: کیا کوئی شخص اس کو صدقہ نہیں دیتا جو اس کے ساتھ نماز پڑھے؟

گویا چھبیس نمازوں کا ثواب اس کو صدقہ دیامیں دیا، اس واسطے کہ جماعت سے نماز پڑھنے میں ستائیس نمازوں کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ (صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۶۹) صحیح مسلم، رقم الحدیث ۶۵۰)

اور روایت کیا ترمذی نے:

’’ باب ماجاء فى الجماعة فى مسجد قد صلى فیه مرة۔ عن أبى سعید قال : جاء رجل ، وقد صلی رسول اللہ ﷺ ، فقال : أیکم یتجر علی ھذا؟ فقام رجل وصلی معه۔ وفى الباب عن أبى أمامة وأبى موسی والحکم ابن عمیر۔ قال أبو عیسی : وحدیث أبى سعید حدیث حسن۔‘‘ (سنن الترمذى، رقم الحدیث ۲۲۰)

یعنی روایت ہے ابو سعید سے کہا کہ آیا ایک شخص اور نماز پڑھ چکے تھے رسول اللہﷺ ، فرمایا: کون تجارت کرتا ہے اس شخص کے ساتھ؟ یعنی اس کے ساتھ شریک ہو جائے تو جماعت کا ثواب دونوں پائیں، سو کھڑا ہوا ایک مرد اور نماز پڑھ لی اس کے ساتھ۔

اور مسند امام احمد بن حنبل میں ہے:

’’ عن أبى أمامة أن النبى ﷺ رأی رجلًا یصلى، فقال : ألا رجل یتصدق علی ھذا یصلى معه؟ فقام رجل فصلی معه، فقال رسول اللہ ﷺ : ھذان جماعة۔‘‘ کذا فى فتح البارى شرح صحیح البخارى۔  (مسند أحمد ۵؍۲۵۴)

’’ ابو امامہ کے واسطے سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو تنہا نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ کیا کوئی ہے جو اس شخص کے ساتھ صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز ادا کرے؟ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپﷺ نے فرمایا: یہ دونوں جماعت ہے۔ ایسا ہی بخاری کی شرح فتح الباری میں ہے۔‘‘

اور ایک روایت میں مسند کے اس لفظ کے ساتھ وارد ہے:

’’ صلی رسول اللہ ﷺ بأصحابه الظھر فدخل رجل وذکرہ‘‘ کذافى المنتقی۔ ‘‘( فتح البارى ۲؍ ۱۴۲)

’’ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر ایک شخص داخل ہوا۔ پھر پوری حدیث ذکر کی ہے۔ المنتقیٰ میں ایسا ہی ہے۔‘‘

’’ ورواہ ابن خزیمة وابن حبان والحاکم فى صحاحھم، قال الحاکم: حدیث صحیح علی شرط مسلم ولم یخرجاہ۔‘‘ انتھی ( نیل الأوطار شرح منتقی الأخبار (۳؍ ۱۸۵) نیز دیکھیں:مسند أحمد ۳؍ ۸۵)

’’ اور اس کی روایت ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم نے اپنی صحاح میں کی ہے۔ حاکم نے کہا ہے کہ مسلم کی شرط کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے، لیکن دونوں نے اس کی تخریج نہیں کی ہے۔‘‘

اور روایت کیا دارقطنی نے سنن مجتبی میں:

’’ عن محمد بن الحسن الأسدى عن حماد بن سلمة عن ثابت عن أنس أن رجلا جاء وقد صلی رسول اللہ فقام یصلى وحدہ، فقال رسول اللہ ﷺ : من یتجر علی ھذا فیصلى معه؟ ‘‘ (سنن الدارقطنى ۱؍ ۲۷۶)

’’ محمد بن حسن اسدی کے واسطے سے روایت ہے، اور وہ حماد بن سلمہ کے واسطے سے، اور وہ ثابت کے واسطے سے، اور وہ انس کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی آیا جب کہ نبیﷺ نماز پڑھ چکے تھے، وہ کھڑا ہوگیا اور تنہا نماز پڑھنے لگا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: کون ہے جو اس شخص سے تجارت کرے گا اور اس کے ساتھ نماز پڑھے گا‘‘

کہا زیلعی نے اس حدیث دارقطنی کے بارے میں:

’’ وسندہ جید‘‘ انتھی ’’ اور اس کی سند عمدہ ہے۔‘‘ ( نصب الرایۃ ۲؍۲۹)

اور بھی روایت کیا دارقطنی نے:

’’ عن عصمة بن مالک الخمى قال : کان رسول اللہ ﷺ قد صلی الظھر، وقعد فى المسجد، إذ دخل رجل یصلى، فقال علیه السلام: ألا رجل یقوم فیتصدق علی ھذا فیصلى معه؟‘‘ ( سنن الدارقطنى ۱؍۲۷۷)

 ’’ عصمہ بن مالک الخطمی کے واسطے سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ظہر کی نماز پڑھ چکے تھے اور مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی داخل ہوا اور نماز پڑھنے لگا تو آپﷺ نے فرمایا: کیا کوئی ایسا ہے جو کھڑا ہو اور اس شخص پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے؟‘‘

اور یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے، مگر چنداں مضر نہیں، کیونکہ طرق متعددہ سے یہ حدیث ثابت ہے۔ اور روایت کیا بزار نے مسند میں:

’’ حدثنا محمد [ بن أشرش] ثنا أبو جابر محمد بن عبدالملک ثنا الحسن بن أبى جعفر عن ثابت عن أبى عثمان عن سلمان أن رجلا دخل المسجد، والنبىﷺ قد صلی، فقال: ألا رجل یتصدق علی ھذا فیصلى معه؟‘‘ کذافى نصب الرایة للحافظ الزیلعی۔‘‘ (نصب الرایة ۲؍ ۲۹۔ نیز دیکھیں:  مسند البزار ۶؍ ۵۰۱، رقم الحدیث ۲۵۳۸)

 ’’ ہم سے حدیث بیان کی محمد بن اشرس نے، انھوں نے کہا کہ مجھ سے ابو جابر محمد بن عبدالملکنے بیان کیا، ان کو حسن بن ابو جعفر نے ثابت کے واسطے سے، انھوں نے ابو عثمان کے واسطے سے، انھوں نے سلمان کے واسطے سے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا، درآں حالیکہ نبیﷺ نماز پڑھ چکے تھے، آپﷺ نے فرمایا: کیا کوئی ہے جو اس شخص پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے؟ حافظ زیلعی نے ’’ نصب الرایہ‘‘ میں ایسا ہی بیان کیا ہے۔‘‘

اور یہ شخص جو شریک ہوئے اس شخص کے ساتھ نماز میں وہ حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ تھے۔

کہا حافظ زیلعی نے:

 ( ’’ وفى روایة البیھقى: أن الذى قام فصلی معه أبوبکر رضی اللہ عنه‘‘ انتھی( نصب الرایۃ ۲؍ ۲۹، نیز دیکھیں: سنن البیھقي ۲؍ ۳۰۳، یہ حسن بصری رحمہ اللہ کی مرسل روایت ہے )

’’ بیہقی کی روایت میں ہے کہ جو شخص کھڑا ہوا اور اس آدمی کے ساتھ نماز پڑھی، وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ ختم شد۔‘‘

اور کہا علامہ جلال الدین سیوطی نے ’’ قوت المغتذي‘‘ میں:

’’ قال ابن سید الناس: ھذا الرجل الذى قام معه ھو أبوبکر الصدیق۔ رواہ ابن أبي شیبة عن الحسن مرسلا۔‘‘ انتھی ( قوت المغتذى علی جامع الترمذى للسیوطی ۱؍ ۱۳۱، نیز دیکھیں: مصنف ابن أبي شیبۃ ۲؍ ۱۱۱)

’’ ابن سید الناس نے کہا: وہ آدمی جو اس شخص کے ساتھ کھڑا ہوا تھا وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، اس کی روایت ابن ابی شیبہ نےحسن کے واسطے سے مرسلاً کی ہے۔ ختم شد۔‘‘

پس ثابت ہوا کہ مسجد واحد میں تکرارِ جماعت جائز و درست ہے، کیونکہ اگر تکرارِ جماعت مسجد واحد میں جائز نہ ہوتا تو رسول اللہﷺ یہ کیوں ارشاد فرماتے:

(( ألا رجل یتصدق علی ھذا فیصلى معه؟ ))

’’ کوئی شخص  ہے جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے؟‘‘

اگر کوئی یہ شبہ پیش کرے کہ یہاں پر اقتدا متنفل کی مفترض کے ساتھ پائی گئی اور اس میں کلام نہیں، گفتگو اس میں ہے کہ اقتداء مفترض کی مفترض کے ساتھ مسجد واحد میں بہ تکرار جماعت جائز ہے یا نہیں؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ قول رسول اللہﷺ:

’’ ألا رجل یتصدق علی ھذا فیصلی معه ’’ و ’’ أیکم یتجر علی ھذا؟ ‘‘ و ’’ من یتجر علی ھذا فیصلى معه؟ ‘‘ و ’’ ألا رجل یقوم فیتصدق علی ھذا فیصلى معه‘‘

’’ کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اس کو صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے؟ تم میں کون ہے جو اس کے ساتھ تجارت کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے؟ کیا کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو کھڑا ہوا اور اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے؟‘‘

عموم پر دلالت کرتا ہے، خواہ مقتدی متصدق و متجر متنفل ہو یا مفترض، اور اگرچہ اس واقعہ خاص میں متصدق اس کا متنفل ہوا، مگر یہ خصوص مورد قادح عموم لفظ کا نہ ہوگا۔ اور اول دلیل اس پر یہ ہے کہ حضرت انس بن مالک جو منجملہ رواۃ اس کے حدیث کے ہیں، انھوں نے بھی یہی عموم سمجھا، چنانچہ انھوں نے بعد وفاتِ رسول اللہﷺ کے جماعت ثانیہ ساتھ اذان و اقامت کے قائم کی، اس مسجد میں جہاں جماعت اولیٰ ہوچکی تھی۔

صحیح بخاری کے باب فضل صلاة جماعه میں ہے:

’’ وجاء أنس إلی مسجد قد صلى فیه فأذن وأقام و صلی جماعة۔‘‘ انتھی (صحیح البخاري، رقم الحدیث ۲ ؍ ۷۵، اس اثر کو امام عبدالرزاق (۱؍ ۵۱۳) اور امام ابن ابی شیبہ (۲ ؍ ۱۱۱) نے موصولاً بیان کیا ہے، نیز دیکھیں: تغلیق التعلیق ۲ ؍ ۲۷۶)

’’ انس رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے اور اس میں نماز پڑھی جا چکی تھی تو انھوں نے اذان دی، اقامت کہی اور باجماعت نماز پڑھی۔ ختم شد۔‘‘

کہا حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں:

’’ وجاء أنس … الخ، وصله أبو یعلی فى مسندہ من طریق الجعد أبى عثمان قال : مربنا أنس بن مالک فى مسجد بنى ثعلبة فذکر نحوہ، قال: وذلک فى صلاة الصبح، وفیه : فأمر رجلا فأذن وأقام ثم صلی بأصحابه۔ وأخرجه ابن أبي شیبة من طرق عن الجعد، وعند البیھقى من طریق أبى عبد الصمد الأعمی عن الجعد نحوہ، وقال: مسجد بنى رفاعة، وقال : فجاء أنس فى نحو عشرین من فتیانه۔‘‘ انتھی (فتح البارى ۲ ؍ ۱۳۱)

’’ انس رضی اللہ عنہ آئے … الخ۔ ابو یعلی نے اپنی مسند میں الجعد ابو عثمان کی سند سے اسے موصول بیان کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مسجد بنو ثعلبہ میں انس بن مالک ہمارے پاس سے گزرے اور اسے ذکر کیا۔ انھوں نے کہا: یہ فجر کی نماز کا وقت تھا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو حکم دیا، اس نے اذان و اقامت کہی۔ پھر انھوں نے اپنے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھی۔ ابن ابی شیبہ نے اس کی تخریج جعد کے واسطے سے کئی طرق سے کی ہے، اور بیہقی کے نزدیک جعد کے واسطے سے ابو عبدالصمد الاعمی کے طریق سے اسی طرح ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ مسجد بنو رفاعہ کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ انس رضی اللہ عنہ آئے اپنے بیس جوانوں کے ساتھ۔ ختم شد۔‘‘

حاصل کلام کا یہ ہوا کہ یہ سات صحابہ حضرت ابو سعید خذری و انس بن مالک و عصمہ بن مالک و سلمان و ابو امامہ و ابو موسیٰ اشعری والحکم بن عمیر رضی اللہ عنہم نے اس واقعہ کو رسول اللہﷺ سے روایت کیا، اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بموجب ارشادِ رسول اللہﷺ ساتھ اس کے نماز پڑھنے لگے، اس مسجد میں جہاں جماعت اولیٰ ہوچکی تھی اور اطلاق اس پر جماعت کا ہوگا، کیونکہ (الاثنان فما فوقھما جماعۃ) ’’ دو یا دو سے زیادہ جماعت ہیں۔‘‘ ( سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۹۷۲) یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے، لیکن شدتِ ضعف کی بنا پر قابل احتجاج نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: فتح الباري (۲ ؍ ۱۴۲) إرواء الغلیل ۲ ؍ ۲۴۸)

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بعد وفاتِ رسول اللہﷺ کے اس پر عمل کیا، جیسا کہ روایت سے مسند ابو یعلی موصلی و ابن ابی شیبہ و بیہقی کے معلوم ہوا۔ اور امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مذہب ہے، جیسا کہ جامع ترمذی میں مذکور ہے۔ اور یہی مذہب صحیح و قوی ہے کہ تکرارِ جماعت بلا کراہت جائز ہے۔ (سنن الترمذي ۱ ؍ ۴۲۷)

اور فقہائے حنفیہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ تکرار جماعت ساتھ اذان ثانی کے اس مسجد میں کہ امام و موذن وہاں مقرر ہوں، مکروہ ہے، اور تکرار اس کا بغیر اذان کے مکروہ نہیں۔ بلکہ امام ابو یوسف سے منقول ہے کہ اگر جماعت ثانیہ ہیئت اولی پر نہ ہو تو کچھ کراہت نہیں اور محراب سے عدول کرنے میں ہیئت بدل جاتی ہے۔

’’ بحر الرائق شرح کنز الدقائق‘‘ میں ہے:

’’ ومنھا حکم تکرارھا فى مسجد واحد، ففى المجمع: لا یکررھا فى مسجد محلة بأذان ثان، وفى المجتبٰی: ویکرہ تکرارھا فى مسجد بأذان وإقامة ‘‘ انتھی مختصرا ۔ ( البحر الرائق ۱ ؍ ۳۶۷)

’’ اور اس میں سے ایک یہ ہے کہ ایک ہی مسجد میں نماز کی تکرار کا حکم، تو مجمع میں ہے کہ ایک ہی مسجد میں دوبارہ اذان کے جماعت نہ کرائے اور مجتبیٰ میں ہے کہ اذان و اقامت کے ساتھ مسجد میں دوبارہ جماعت کروانا مکروہ ہے۔ مختصراً۔ ختم شد۔‘‘

اور ’’ شرح منیته المصلي ‘‘ میں ہے:

’’ وإذا لم یکن للمسجد إمام و مؤذن راتب فلا یکرہ تکرار الجماعة فیه بأذان وإقامة عندنا، بل ھو الأفضل، أما لو کان له إمام و مؤذن فیکرہ تکرار الجماعة، وعن أبى یوسف رحمه اللہ : إذا لم تکن علی ھیئة الأولیٰ لا یکرہ وإلا یکرہ ، وھو الصحیح۔‘‘

’’ اور جب کسی مسجد میں وظیفہ یاب امام اور موذن نہ ہو تو اس میں تکرار جماعت ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ ہمارے نزدیک مکروہ نہیں، بلکہ یہ افضل ہے، لیکن اگر وہاں وظیفہ یاب امام و موذن معین ہو تو تکرار جماعت مکروہ ہے۔ ابو یوسف سے منقول ہے کہ اگر پہلی صورت نہ ہو تو مکروہ نہیں ہے اور بصورت دیگر مکروہ ہے، اور یہی درست ہے۔‘‘

اور ’’ طوالع الأنوار حاشیه در المختار‘‘ میں ہے:

’’ کراھة الجماعة فى غیر مسجد الطریق مقیدة بما إذا کانت الجماعة الثانیة بأذان وإقامة لا بإقامة فقط ، وعن أبى یوسف رحمه اللہ : إذا لم تکن علی ھیئة الأولی لا تکرہ وإلا تکرہ، وھو الصحیح، وبالعدول عن المحراب یختلف الھیئة‘‘ انتھی

’’ عام راستے کی مسجد میں دوبارہ جماعت کی کراہت اس قید کے ساتھ ہے جب دوسری جماعت ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ ہو، نہ کہ صرف اقامت کے ساتھ، اور ابو یوسف رحمہ اللہ کے واسطے سے منقول ہے کہ اگر اول الذکر حیثیت پر نہ ہو تو مکروہ نہیں ہے اور بصورت دیگر مکروہ ہے اور یہی درست ہے۔ اور محراب سے ہٹ کر پڑھنے کی صورت میں ہیئت مختلف ہو جاتی ہے۔‘‘

اور ’’ رد المحتار حاشیة درالمختار‘‘ میں ہے:

’’ یکرہ تکرار الجماعة فى مسجد محلة بأذان وإقامة ، إلا إذا صلی بھما فیه أولاً غیر أھله، أو أھله لکن بمخافتة الأذان، ولو کرر أھله بدونھا، أو کان مسجد طریق جاز إجماعا، کما في مسجد لیس له إمام ولا مؤذن‘‘ انتھی (ردالمحتار ۱؍ ۳۹۵)

’’ محلی کی مسجد میں ایک اذان اور ایک اقامت کے ذریعے تکرار جماعت مکروہ ہے الا یہ کہ پہلے مسجد والوں نے یا دوسرے لوگوں نے اذان اور اقامت کہہ کے نماز پڑھ لی ہو، جو وہاں کے نہیں ہیں، یا وہاں کے لوگوں ہی نے اذان آہستہ کہہ کر نماز پڑھ لی ہو۔ اگر محلے والوں نے اذان اور اقامت کے بغیر تکرار کرلیا یا وہ راستے کی مسجد تھی تو بالاجماع جائز ہے، یہ اسی طرح ہے جیسے اس مسجد میں نماز پڑھ لی جائے جس کا نہ امام معین ہو اور نہ موذن۔ ختم شد۔‘‘

اور بھی ’’ ردالمحتار ‘‘ میں ہے:

’’ قد علمت بأن الصحیح أنه لا یکرہ تکرار الجماعة إذا لم تکن علی الھیئة الأولی ‘‘ انتھی مختصرا (ردالمحتار ۱ ؍ ۳۹۶) 

’’ تجھے معلوم ہوگیا ہے کہ درست بات یہ ہے کہ تکرارِ جماعت مکروہ نہیں ہے جبکہ وہ ہیئت اولیٰ کی صورت میں نہ ہو۔ ختم شد۔‘‘

پس ان روایات سے صاف معلوم ہوا کہ جب جماعت ثانیہ میں عدول محراب سے ہو جائے یا تکرار اس کا بغیر اذان کے ہو تو بلا کراہت جائز ہے، اگرچہ اقامت اس میں کہی جائے۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کے فعل سے ثابت ہوا کہ انھوں نے تکرار جماعت ساتھ اذان و اقامہ دونوں کے کیا۔ واللہ اعلم بالصواب

حررہ: أبو الطیب محمد شمس الحق العظیم آبادی عفی عنه۔
أبو طیب محمد شمس الحق
’’ لِلہ در من أجاب‘‘ حررہ : أبو المجد عبدالصمد بھاری۔ سید محمد نذیر حسین غفرلہ ولوالدىه۔
’’ ما أحسن ھذا الجواب المقرون بالصدق والصواب !‘‘ حررہ : الراجى عفو ربه القوى أبو الحسنات محمد عبد الحي تجاوز اللہ عن ذنبه الجلي والخفي۔ أبو الحسنات محمد عبدالحي۔
’’ أصاب من أجاب‘‘ حررہ : محمد حمایت اللہ جلیسری۔
’’ صح الجواب ‘‘ الفقیر أمیر علی عفا اللہ عنه۔

’’ للہ در المجیب حیث أتی بدلائل شافیة وبراھین قاطعة التى زال عنھا شبھة المعاندین، ودفع بھا شکوک المجادلین فلیعمل العاملون‘‘ حررہ : عاجز البشر أبو ظفر محمد عمر الأڑیسوی، عفی عنه، أبو ظفر محمد عمر 
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 119

محدث فتویٰ

تبصرے