سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(19)نماز میں شہادت کی انگلی سے تشہد میں اشارہ کرنا

  • 15207
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1368

سوال

(19)نماز میں شہادت کی انگلی سے تشہد میں اشارہ کرنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

( الإشارة بالسبابة عند التشھد فى الصلاة)’’نماز میں شہادت کی انگلی سے تشہد میں اشارہ کرنا‘‘ حدیث شریف سے ثابت ہے یا نہیں اور اس کا کیا حکم ہے؟ اور محققین حنفیہ کا اس باب میں کیا مسلک ہے؟ 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اشارہ بالسبابہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔

’’ عن على بن عبدالرحمن أنه قال : رأنى عبداللہ بن عمرو أنا أعبث بالحصباء فى الصلاة، فلما انصرفت نھانى وقال : اصنع کما کان رسول اللہ ﷺ یصنع، فقلت: وکیف کان رسول اللہ ﷺ یصنع؟ قال : کان إذا جلس فى الصلاة وضع کفه الیمنی علی فخذه الیمنی، وقبض أصابعه کلھا، وأشاره بأصبعه التى تلى الإبھام، ووضع کفه الیسریٰ علی فخذه الیسریٰ، وقال ھکذا یفعل۔‘‘  رواہ مالک فى الموطأ (مؤطا الإمام مالک ۱؍ ۸۸)

’’ علی بن عبدالرحمان کے واسطے سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر نے مجھے دیکھا کہ میں دوران نماز میں کنکریوں سے کھیل رہا ہوں، پس جب وہ فارغ ہوئے تو مجھے منع کیا اور کہا کہ ویسے ہی کرو جیسے رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ رسول اللہ کیسے کیا کرتے تھے؟ انھوں نے کہا کہ آپﷺ جب نماز کے دوران میں بیٹھتے تو اپنی داہنی ہتھیلی اپنی داہنی ران پر رکھتے اور اپنی تمام انگلیوں کو موڑ لیتے اور اشارہ فرماتے، اس انگلی سے جو انگوٹھے سے متصل ہے اور اپنی بائیں ہتھیلی اپنی بائیں ران پر رکھتے۔ فرمایا: آپﷺ ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ اس کی روایت مالک نے موطا میں کی ہے۔‘‘

’’ عن ابن عمر أن النبی ﷺ کان إذا جلس فى الصلاة وضع یدہ الیمنی علی رکبته، ورفع أصبعه التى تلى الإبھام یدعوبھا، ویده الیسری علی رکبته باسطھا علیه‘‘ رواہ الترمذى  (سنن الترمذى، رقم الحدیث ۲۹۴)

’’ ابن عمررضی اللہ عنہما کے واسطے سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب نماز میں جلوس فرماتے تو اپنا داہنا ہاتھ اپنے گھٹنے پر رکھتے اور اپنی اس انگلی کو اٹھاتے جو انگوٹھے سے متصل ہے اور اسی انگلی کے ساتھ دعا کرتے اور اپنا بایاں ہاتھ گھٹنے پر پھیلا کر رکھتے۔ اس کی روایت ترمذی نے کی ہے۔‘‘

اسی طرح صحیح مسلم و دیگر کتبِ احادیث میں حدیث اس باب کی موجود ہے اور اسی پر عمل ہے تمام صحابہ اور تابعین اور ائمہ اربعہ و دیگر محدثین و متقدمین و متاخرین کا۔ کسی اہل علم کا اس مسئلہ میں خلاف نہیں۔ اور یہ جو بعض کتبِ فقہ حنفیہ میں کراہیت اس کی منقول ہے، وہ مردود ہے، قابل اعتبار اور لائق احتجاج نہیں اور ہرگزکراہیت اس کی بسند صحیح امام ابوحنیفہ تک نہیں پہنچی۔ بلکہ امام محمد رحمہ اللہ کہ جو شاگرد رشید امام صاحب کے ہیں، موطا میں اپنے، بعد نقل حدیث اس باب کی، فرماتے ہیں:

’’ قال محمد: وبصنیع رسول اللہ ﷺ نأخذ، وھو قول أبى حنیفة‘‘ انتھی (موطأ الإمام محمد ۱؍۲۲۸)

’’ محمد نے کہا: رسول اللہﷺ کے طرز عمل کو ہی اختیار کریں گے اور یہی قول ابوحنیفہ کا ہے۔ ختم شد۔‘‘

اور محقق حنفیہ شیخ کمال الدین ابن الہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں:

’’ لا  شک أن وضع الکف مع قبض الأصابع لا یتحقق حقیقة، فالمراد، واللہ اعلم، وضع الکف ثم قبض الأصابع بعد ذلک عند الإشارة، وھو المروى عن محمد فى کیفیة الإشارة، قال : یقبض خنصرہ والتى تلیھا، ویحلق الوسطی والإبھام، ویقیم المسبحة، وکذا عن أبى یوسف فى الأمالى، وھذا فرع تصحیح الإشارة، وعن کثیر من المشایخ أنه لا یشیر أصلا، وھو خلاف الروایة والدرایة‘‘ انتھی ( فتح القدیر لابن الھمام ۱؍ ۳۱۳)

’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگلیوں کی گرفت کے ساتھ ہتھیلی کا رکھنا حقیقتاً متحقق نہیں ہے اور اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے، مراد یہ ہے کہ ہتھیلی رکھ کر پھر اشارے کے وقت انگلیاں اکٹھی کرلے۔ اشارے کی کیفیت کے سلسلے میں محمد کے واسطے سے یہی مروی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنی خنصر یعنی چھوٹی انگلی کو موڑے گا اور اس کو جو اس سے متصل ہے اور انگوٹھے اور وسطی انگلی کا حلقہ بنائے گا اور تسبیح والی انگلی کھڑی کرے گا۔ ’’الامالی‘‘ میں ابو یوسف کے واسطے سے ایسی ہی روایت ہے۔ یہ اشارہ کی تصحیح کی فرع ہے اور بہت سے مشائخ کے واسطے سے بیان کیا جاتا ہے کہ نماز میں اصلاً اشارہ نہیں کرے گا۔ لیکن یہ چیز روایت اور درایت کے خلاف ہے۔ ختم شد۔‘‘

اور اسی طرح ملا علی قاری رحمہ اللہ ’’ تزین العبارۃ في حسین الإشارۃ‘‘میں، وشیخ ولی اللہ المحدث مسوی شرح موطا اور حجۃ اللہ البالغہ میں، اور محمد بن عبداللہ الزرقانی شرح موطا میں، وشیخ عبدالحق دہلوی شرح مشکوٰۃ و شرح سفر السعادت میں، وعلاؤ الدین حصکفی درمختار میں، اور ابن عابدین ردالمحتار میں فرماتے ہیں۔

(دیکھیں: الجامع الصغیر لعبد الحي اللکنوي ص:۷) ،(المسوی شرح الموطأ ۱؍ ۱۰۸) ،( شرح الزرقانی علی الموطأ ۱؍ ۶۵۲) ، (أشعۃ اللمعات ۱؍۴۳۲، فارسی)، (الدرالمختار ۱؍۵۰۸)، (حاشیۃ ابن عابدین ۱؍۵۰۸)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مجموعہ مقالات، و فتاویٰ

صفحہ نمبر 111

محدث فتویٰ

تبصرے