سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) توحید کا اقرار کرنا لیکن واجبات ادا کرنے میں کوتاہی

  • 15157
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1326

سوال

(28) توحید کا اقرار کرنا لیکن واجبات ادا کرنے میں کوتاہی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو اللہ تعالی کی توحید کا تو قائل ہے لیکن بعض واجبات کے  اداکرنے میں کوتاہی کرتا ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسے شخص کا ایمان ناقص ہوگا ،اسی طرح جو شخص اللہ  تعالی کی نافرمانی کے بعض کام کرتا ہے تو اہل سنت والجماعت کے نزدیک اس کے ایمان میں بھی کمی واقع ہوجاتی  ہے ۔کیونکہ اہل سنت کے نزدیک ایمان ،قول وعمل اورعقیدہ کا نام ہے اوراطاعت کے ساتھ اس میں اضافہ اورمعصیت کے ساتھ کمی واقع ہوتی  ہے ،مثلا اگر کوئی شخص بغیر عذر کےرمضان کے سارے یا کچھ روزے ترک کردیتا ہے تویہ بہت بڑی معصیت ہے جو ایمان کو ناقص اورکمزوربنادیتی ہے اوربعض اہل علم کے نزدیک آدمی اس سے کافر  ہوجاتا ہے لیکن صیح بات یہ ہے کہ جو روزے کے وجوب کا اقرارکرلے اورکاہلی وسستی کی وجہ سے کچھ روزے چھوڑدے تو اس سے وہ کافر نہیں ہوگا۔اسی طرح اگر زکوۃ کے بروقت اداکرنے میں کوتاہی کی یا زکوۃ کو ترک کردیا تویہ بھی بہت بڑی معصیت ہوگی جو کہ ضعیف ایمان کا موجب ہوگی ۔بعض اہل علم نے  کہا ہے کہ ترک زکوۃ سے انسان کافر ہوجاتا ہے ،اسی طرح اگر کسی نے قطع رحمی کی یا اپنے والدین کی نافرمانی کی تو اس سے بھی ایمان میں نقص اورضعف پیدا ہوگااسی طرح دیگر تمام معصیتیں (نافرمانیاں)بھی ایمان میں ضعف اورنقص کا موجب ثابت ہوتی ہیں۔

اسی طرح ترک نماز بھی ایمان کے منافی اورموجب ارتداد ہے خواہ اس کے وجوب کا انکار نہ بھی کیا جائے،چنانچہ اس مسئلہ میں علماء کے دو اقوال میں سے صیح ترین قول یہی ہے ۔کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ‘‘اصل معاملہ تو اسلام ہے ،اس کا ستون نماز ہے اوراس کے کوہان کی بلندی جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔نیز آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہمارے اوران کے درمیان عہد نماز کا ہے ،جس نے اسے ترک کردیا ،وہ کافر ہے ۔اسی طرح اوربھی بہت سی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تارک نماز کافر  ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

مقالات و فتاویٰ

ص175

محدث فتویٰ

تبصرے