اس حدیث کی سند‘‘لاباس به’’( یعنی قابل حجت)ہے،اسے احمد اورابوداود نے بروایت ابن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کیاہے۔اہل علم کے نزدیک ا س کے معنی یہ ہیں کہ وہ دم جو ایسے الفاظ کے ساتھ ہوں ۔جن کے معنی معلوم نہ ہوں یا وہ شیطانوں کے نام یا اس طرح کی دیگر چیزوں پر مشتمل ہوں تووہ ممنوع ہیں۔‘‘تولہ’’جادو کی ایک قسم ہے ،جس کا نام صر ف اورعطف بھی ہے۔‘‘تمائم’’سے مراد وہ تعویذ ہیں جو نظر یا جن وغیرہ کا اثر ختم کرنے کے لئے بچوں پر لٹکائے جاتے ہیں،کبھی بیماروں ،بڑی عمر کے لوگوں اوراونٹوں اوروغیرہ کو بھی باندھے جاتے ہیں،تیسرے سوال کے جواب کے ضمن میں اس کا جواب گزر چکا ہے جانوروں پر جو لٹکایا جاتا ہے ،اسے اوتار کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے،یہ شرک اصغر ہے اوراس کا حکم وہی ہے جو تعویذوں کا ہے،صیح حدیث سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بعض مغازی میں یہ پیغام دے کرایک کو بھیجا کہ لشکر میں تانت کا کوئی قلادہ باقی نہ رہنے دیا جائے۔یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ تمام قسموں کے تعویذ حرام ہیں خواہ وہ قرآنی ہوں یا غیر قرآنی۔
اسی دم کے الفاظ اگر مجہول ہوں تو وہ حرام ہے اوراگر وہ الفاظ معروف ہوں،ان میں شرک نہ ہو اورنہ کوئی ایسی بات جو شریعت کے مخالف ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے خود بھی دم کیا اورکرایا بھی اورفرمایاکہ‘‘دم میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ شرکیہ نہ ہو۔’’(مسلم)
پانی پر دم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں یعنی دم کرکے اگر پانی پر پھونک ماردی جائے اورمریض اسے پی لے تو اس میں کوئی حرج نہیں یا اس پر پانی کے مریض پر چھینٹے ماردیئے جائیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ،چنانچہ سنن ابی داودکے باب کتاب الطب میں یہ حدیث موجود ہے کہ نبی کریم ﷺنے پانی پر دم کرکے ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ پر اس پانی کے چھینٹے مارے،سلف سے بھی ایسا ثابت ہے لہذا اس میں کوئی حرج نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب