جوشخص بتوں کو پکارے یا ان سے استغاثہ وغیرہ کرے تو اس کا حکم بحمدللہ واضح ہے کہ یہ کفر اکبر ہے الا یہ کہ وہ یہ دعوی کرے کہ اس نے اللہ تعالی کی عبادت کے قصد سے قبروں کا طواف کیا ہے جس طرح کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے اوریہ گمان کرے کہ قبروں کا طواف جائز ہےاوراس کا اس سے قصداصحاب قبورسےتقرب کا حصول نہ ہو بلکہ قصد صرف اللہ وحدہ کے تقرب کا حصول ہو تو ایسے شخص کو کافر نہیں بلکہ بدعتی قراردیا جائے گا کیونکہ قبروں کے پاس جس طرح نماز پڑھنا بدعت ہے،اسی طرح قبروں کا طواف بھی ایک منکر بدعت ہے اوریہ سب باتیں بالآخر کفر تک پہنچانے والی ہیں،قبروں کے پجاریوں پر غلبہ اصحاب قبورکے تقرب کے حصول ہوکا ہوتا ہے جس طرح کہ وہ ان کے نام پر جانوروں کو ذبح کرکے اوران کے نام کی نذر مان کر ان کے تقرب کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اوریہ سب شرک اکبر کی صورتیں ہیں،جو شخص ان کا ارتکاب کرتےہوئے مرجائے ،وہ کافر مرےگا،اسے نہ غسل دیا جائے گا ،نہ اس کا جنازہ پڑھا جائے گا اورنہ اسے مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کیا جائے گا ،آخرت میں اس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہوگا اگراس کے پاس توحید کی دعوت نہیں پہنچی تویہ اہل فترت کے حکم میں ہوگا اوراس کی دلیل نبیﷺکی والدہ کا قصہ ہے کہ انہوں نے آپؐ کی نبوت کے زنانہ ہی کو نہیں پایا جس کی وجہ سے وہ اپنی قوم کے دین پر تھیں،نبی کریمﷺنے اللہ تعالی سے ان کی مغفرت کے لئے دعاکرنے کی اجازت طلب کی تو آپؐ کو یہ اجازت نہیں ملی کیونکہ وہ اپنی قوم کے دین پر تھیں،اسی طرح آپؐ کے والد کا معاملہ ہے کہ جب ایک سائل نے آپؐ سے اپنے باپ کے بارے میں پوچھا توآپؐ نے فرمایا تھا کہ‘‘میرا باپ اورتمہارا باپ دونوں جہنم میں ہیں ۔’’آپؐ کے والد کا انتقال زمانہ جاہلیت میں ہوا تھا اور وہ اپنی قوم کے دین پر تھے ،لہذا ان کا حکم بھی کافروں کے حکم جیسا ہے لیکن وہ شخص جس تک دنیا میں توحید کی دعوت نہ پہنچے ،وہ حق سے ناواقف ہو اورفوت ہوجائے توعلماء کے صیح قول کے مطابق قیامت کے دن اس کا امتحان ہوگا،اگرامتحان کامیاب ہوگیا توجنت میں داخل ہوگااوراگر امتحان میں ناکام رہا توجہنم رسید ہوگا،ان تمام اہل فترت کے بارے میں بھی یہی حکم ہے ،جن تک دین کی دعوت نہیں پہنچ سکی تھی کہ ارشاد باری تعالی ہے:
‘‘اورجب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے۔’’
لیکن جس شخص کے پا س قرآن پہنچ گیا یا جس کے پاس رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچ گیا اوراس نے لبیک نہ کہا تواس پر حجت قائم ہوگئی ،جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشادفرمایا ہے:
‘‘اور یہ قرآن مجید مجھ پر اس لئے اتارا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تم کو اور جس شخص تک وہ نہ پہنچ سکے آگاہ کردوں۔’’
اورفرمایا:
‘‘یہ(قرآن)لوگوں کے نام(اللہ کا پیغام ہے) تاکہ ان کو اس سے ڈرایا جائے۔’’
جس شخص کے پاس قرآن اوراسلام پہنچ جائے اورپھر وہ دائرہ اسلام میں داخل نہ ہو تووہ کافر ہے۔صیح حدیث میں ہے کہ نبی کر یم ﷺ نے فرمایا ‘‘اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !اس امت میں سے جو یہودی اورعیسائی بھی میر ے بارے میں سنے،پھر مرجائے اوراس دین پر ایمان نہ لائے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے تووہ اہل جہنم میں سے ہوگا۔’’(صیح مسلم)اس حدیث میں نبی کریم ﷺکی بعثت کے بارے میں سننے ہی کو حجت قراردیا گیا ہے۔
حاصل کلام یہ کہ جودیاراسلام میں کفر کا اظہار کرےتو اس کا حکم کافروں جیسا ہے،باقی رہا یہ مسئلہ کہ وہ روز قیامت نجات پائے گا یا نہیں تویہ معاملہ اللہ سبحانہ وتعالی کے سپرد ہے،اگر اسے دعوت نہیں پہنچی اوررسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بارے میں اس نے نہیں سنا تو قیامت کے دن اس کا امتحان ہوگا اوراس کی طرف جہنم کی آگ کی ایک گردن بھیجی جائے گی جیسا کہ حدیث اسود بن شریع میں آیا ہے کہ اس سے کہا جائے گا کہ اس میں داخل ہوجاو اوراگروہ داخل ہوگیا تو آگ اس کے لئے ٹھنڈی اورسلامتی والی بن جائے گی اوراگر اس نے آگ میں داخل ہونے سے انکار کیا تویہ گردن اس کے گرد لپٹ جائے گی اوروہ جہنم رسید ہوجائے گا۔(ہم اللہ تعالی سے سلامتی کی دعا کرتے ہیں)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس تک دعوت نہ پہنچے جیسے کہ وہ لوگ جو اطراف دنیا میں رہتے ہیں یا جن کا تعلق اوقات فترت سے ہے یا دعوت تو پہنچے لیکن وہ مجنون اورفاترالعقل ہویا بے عقل ہوتو یہ اوران جیسے دیگر لوگ مشرکوں کے ان بچوں کی طرح ہیں جو چھوٹی عمر میں فوت ہوجائیں کہ مشرکوں کے وہ تمام بچے جو بلوغت سے پہلے فوت ہوجائیں ،ان کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے کیونکہ اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے ،چنانچہ نبی کریم ﷺ نے بھی اس وقت یہی جواب دیا تھا ،جب آپؐ سے ان چھوٹے بچوں کے بارے میں سوال کیا گیا تھا ۔ان کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالی کے علم کا اظہار اوز قیامت ان کے امتحان سے ہوگا جو امتحان میں کامیاب رہا ،وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو ناکام رہا وہ جہنم رسید ہوگا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب