میرےپاس دینی بھائی مولانا منظوراحمد مہتمم جامعہ عربیہ چنیوٹ پاکستان کے دستخط سے درج ذیل سوال آیا ہے:
‘‘حضرات علماء کرام حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات اوران کے جسد عنصری شریف کے ساتھ آسمان پ رفع اورپھر قرب قیامت آسمان سے زمین پر نزول کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ، حضرت عیسیؑ کا نزول تو اشراط قیامت میں سے ہے ، اس شخص کے بارے میں کیاحکم ہےجو ان کے قرب قیامت نزول کا انکار کرے اوریہ دعوی کرے کہ انہیں پھانسی پر تو لٹکا دیا گیا تھا لیکن وہ اس سے فوت نہیں ہوئے بلکہ کشمیر ہجرت کرگئے تھے اورپھر کشمیر میں طویل عرصہ تک زندہ رہنے کے بعد طبعی موت سے فوت ہوئے اورقیامت سے پہلے حضرت عیسی نازل نہیں ہوں گے بلکہ وہ ان کا مثیل ہوگا،براہ کرم فتوی سے سرفراز فرمائیے ،اللہ تعالی آپ کو اجروثواب سے نوازے گا۔’’کتاب وسنت کے بے شمار دلائل سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالی کے بندے حضرت عیسی ابن مریم علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کی روح اورجسم کو اکٹھا ہی آسمان پر اٹھالیا گیا تھا،آپ فوت ہوئے نہ قتل اورنہ پھانسی دیئے گئے ،آپ آخری زمانہ میں آسمان سے نازل ہوں گے ،دجال کو قتل کریں گے،صلیب کو توڑدیں گے،خنزیر کو قتل کریں گے ،جزیہ ختم کردیں گے اور صرف اسلام ہی قبول کریں گے اوریہ ثابت ہے کہ آپ کا نزول اشراط قیامت میں سے ہے ،ہم نے جو کچھ ذکر کیا ہے ،اس پر ان تمام علماء اسلام کا اجماع ہے، جن کے اقوال پر اعتماد کیا جاتا ہے ،ہاں البتہ ان کا اللہ تعالی کے حسب ذیل ارشادگرامی میں مذکور ‘‘توفی’’کے معنی میں اختلاف ہے:
‘‘اس وقت اللہ تعالی نے فرمایا کہ عیسی میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھالوں گا۔’’
اس سلسلہ میں کئی اقوال ہیں جن میں سے ایک قول یہ ہے کہ اس مراد وافات (موت)ہے کیونکہ جو شخص باقی دلائل پر غورنہ کرےاس کےسامنے اس آیت کے بظاہر یہی معنی ہیں اورپھر اسی لئے بھی کہ اس معنی میں یہ لفظ قرآن مجید میں کئی باراستعمال بھی ہوا ہےمثلا :
‘‘کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جوتم پر مقررکیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے۔’’
اورارشادباری تعالی ہے:
‘‘اورکاش اس وقت (کی کیفیت )دیکھو جب فرشتے کافروں کی جانیں نکالتے ہیں۔’’
اسی طرح کچھ اورآیات بھی ہیں جن میں‘‘توفی’’ کالفظ موت کے معنی میں استعمال ہوا ہے تواس معنی کے اعتبار سے آیت میں تقدیم وتاخیر ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ ‘‘توفی’’ کے معنی قبض کرنے کے ہیں،حافظ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں ائمہ سلف کی ایک جماعت سے یہ معنی بیان کئے ہیں اورخود انہوں نے بھی اسی قول کو پسند کیا اوردیگر اقوال پر اسے ترجیح دی ہے تواس قول کے اعتبار سے آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ‘‘اے عیسی!میں تجھے عالم ارض سے قبض کرکے عالم آسمان تک پہنچانے والاہوں جب کہ تو زندہ ہوگا اورتجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔’’چنانچہ عرب اسی معنی میں اس لفظ کو استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیںتوفيت مالي من فلان یعنی‘‘فلاں شخص سے میں نے اپنا سارامال قبضہ میں لے لیا ہے۔’’
تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وفات نیند ہے کیونکہ نیند کو بھی وفات کہا جاتا ہے اوردلائل سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہم السلام فوت نہیں ہوئے لہذا واجب ہے کہ آیت کو وفات نیند پر محمول کیا جائے تاکہ تمام دلائل میں تطبیق ہوسکے ،وفات کے نیند کے معنی میں استعمال کی مثال حسب ذیل ارشادباری تعالی ہے:
‘‘اوروہی تو ہے جو رات کو(سونے کی حالت میں)تمہاری روح قبض کرلیتا ہے۔’’
اورفرمایا:
‘‘اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اورجو مرے نہیں (ان کی روحیں)سوتے میں(قبض کرلیتا ہےپھر جن پر موت کا حکم کر چکتا ہے ،ان کو روک رکھتا ہےاورباقی روحوں کو ایک وقت مقررتک کے لئے چھوڑدیتا ہے۔’’
پہلے قول کی نسبت آخری دو قول قابل ترجیح ہیں،بہر حال حق بات یہ ہے جو ناقابل تردید دلائل وبراہین سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھالیا گیا تھا لہذا وہ فوت نہیں ہوئے بلکہ ابھی تک آسمانوں میں زندہ ہیں،آخرزمانہ میں آسمان سے نازل ہوں گے اوران امورکو سرانجام دیں گے جو ان کے سپرد کئے جائیں گے،جیسا کہ اس کی تفصیل ہمیں حضرت محمد ﷺکی صیح احادیث سے ملتی ہے۔
اس کے بعد پھر حضرت عیسی علیہ السلام پر وہ موت طاری ہوگی جو اللہ تعالی نے ان کے لئے لکھ رکھی ہے۔لہذا معلوم ہوا کہ آیت میں مذکورہ لفظ‘‘توفی’’ کی موت سے تفسیر کرنا ایک ضعیف اورمرجوح قول ہے اوراگر اس قول کو صیح فرض بھی کرلیا جائے تو موت سے مراد وہ موت ہوگی جو آسمانوں سے نزول کے بعد ان پر وارد ہوگی اورآیت میں تقدیم وتاخیر ہے کیونکہ حرف واوترتیب کا متقاضی نہیں ہوتا جیسا کہ اہل علم نے اسے بیان کیا ہے ،واللہ الموفق!
جو شخص یہ کہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو قتل کردیا گیا یا پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا توقرآن مجید بڑی صراحت کے ساتھ اس قول کی تردید کرتے ہوئے اسے باطل قراردیتا ہے،اسی طرح اس شخص کا قول جو یہ کہے کہ حضرت عیسی کوآسمانوں پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ وہ کشمیر کی طرف ہجرت کرگئے تھے،وہاں عرصہ دراز تک رہے اور پھر وہاں طبعی موت فوت ہوگئے تھے لہذا وہ قیامت سے پہلے نازل نہیں ہوں گے بلکہ نازل ہونے والی حضرت عیسی علیہ السلام کے مثیل کوئی دوسری شخصیت ہوگی تو یہ قول بھی بالکل باطل ہے بلکہ اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺ پر افتراءاورکذب ہے۔حضرت مسیح علیہ السلام اس وقت تک تو نازل نہیں ہوئے لیکن وہ زمانہ مستقبل میں ضرورنازل ہوں گے جیساکہ رسول اللہ ﷺنے اس کی خبر دی ہے ۔مذکورہ تفصیل سے سائل اوردیگر لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جو شخص یہ کہے کہ حضرت مسیحؑ کو قتل کردیا یا پھانسی پر لٹکادیا گیا تھا یا کہ کہے کہ وہ کشمیر کی طرف ہجرت کرگئے اوروہاں طبعی موت فوت ہوگئے تھےاورآسمانوں پر نہیں اٹھا ئے گئے یا یہ کہے کہ حضرت عیسیؑ آسمانوں سے نازل ہوچکے ہیں یا یہ کہے کہ حضرت عیسی نہیں بلکہ ان جیسی کوئی اورشخصیت آسمانوں سے نازل ہوگی تووہ اللہ تعالی پرافتراءپردازی کرتا بلکہ اللہ تعالی اوراس کے رسول کی تکذیب کرتا ہے اور جو شخص اللہ تعالی اوراس کے رسول کی تکذیب کرے،وہ کافر ہے ۔واجب یہ ہے کہ اس سے ان اقوال سے توبہ کروائی جائے اورکتاب وسنت کے دلائل کی روشنی میں اس کے سامنے مسئلہ کو واضح کیا جائے ،اگروہ توبہ کرکے حق کی طرف رجوع کرے توبہت خوب ورنہ اسے کافر قراردیتے ہوئے قتل کردیا جائے گا۔اس مسئلہ سے متعلق دلائل بہت زیادہ بھی ہیں اور مشہورومعروف بھی ہیں مثلا اللہ سبحانہ وتعالی نے
حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں سورہ نساء میں فرمایا:
‘‘اور انہوں نے عیسیؑ کو قتل نہیں کیا اورنہ انہیں سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو ان کی سی صورت معلوم ہوئی اورجولوگ ان کے بار ےمیں اختلاف کرتے ہیں وہ ان کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اورپیروی ظن کے سوا ان کو اس کا مطلق علم نہیں اورانہوں نے عیسی علیہ السلام کو یقینا قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طر ف اٹھالیا اوراللہ غالب (اور)حکمت والا ہے۔’’
اسی طرح متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام ایک حاکم عادل کی حیثیت سے آخرزمانہ میں نازل ہوں گے مسیح ضلالت (دجال)کو قتل کریں گے،صلیب توڑدیں گے،خنزیر کو قتل کریں گے،جزیہ ختم کردیں گےاورصرف اسلام قبول کریں گے۔رسول اللہ ﷺ کی یہ متواتراحادیث ہیں جو قطعی طورپرصیح ہیں،علماء اسلا م کا ان کی قبولیت اوران کے ساتھ ایمان پر اجماع ہے جیسا کہ کتب عقائد میں مذکورہے ۔اگرکوئی شخص ان کا یہ کہتے ہوئے انکار کرے کہ یہ اخبار آحاد ہیں،ان سے قطعی علم حاصل نہیں ہوتا ،یا ان کی یہ طویل کرے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آخر زمانہ میں لوگ حضرت مسیح علیہ السلام جیسے اخلاق رحمت وشفقت کواختیار کرلیں گے تویہ اقوال بالکل باطل ،اسلام کے عقیدہ کے خلاف ،بلکہ شریعت کی ثابت شدہ اورمتواترنصوص کے صریحا خلاف ،شریعت بیضاءپر ظلم ،اسلام اورپیغمبر معصوم علیہ الصلوۃ والسلام کی احادیث کے خلاف بدترین جرات ،ظن اورخواہش نفس سے فیصلہ اورجادہ حق وہدایت سے خروج کے مترداف ہیں۔ایسا اقدام کو ئی ایسا شخص نہیں کرسکتا جس کا ایمان صادق ہو ،علم شریعت میں رسوخ حاصل ہو اورجس کے دل میں شریعت کے احکام اورنصوص کی تعظیم ہو۔اس طرح یہ کہنا کہ حضرت مسیح سے متعلق احادیث اخبارآحادہ ہیں جو علم قطعی کا فائدہ نہیں بخشتیں تویہ بھی ایک بالکل فاسد قو ل ہے کیونکہ یہ احادیث بہت زیادہ ہیں۔کتب صحاح ،سنن اورمسانید میں مختلف سندوں اورمتعددمخارج کے ساتھ موجود ہیں اورتواتر کی شرائط پر پوری اترتی ہیں،جس شخص میں شریعت کے بارے میں ادنی سی بھی بصیرت ہو وہ انہیں نظر انداز نہیں کرسکتا اورنہ انہیں باقابل اعتمادقراردےسکتا ہے اوراگرہم یہ تسلیم کربھی لیں کہ یہ اخبارآحادہ ہیں توتمام اخبارآحادہ کے بارے میں تویہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ مفید علم قطعی نہیں ہیں بلکہ صیح بات یہ ہے ،جیسا کہ محقق اہل علم کا یہ قول ہے کہ اخبارآحادہ کی سندیں جب متعدد اورصیح ہوں اوران کے خلاف صیح احادیث موجود نہ ہوں تو وہ مفید علم قطعی ہوں گی۔لہذا اس اعتبار سے جب ہم اس موضوع کی احادیث کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ قطعی طورپر صیح ہیں، کی سندیں متعددہیں اوران کے خلاف صیح احادیث بھی نہیں ہیں تویہ مفید علم قطعی ہیں خواہ ہم انہیں اخبارآحادہ کا نام دیں یا یہ کہیں کہ کہ احادیث متواترہیں۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ شبہ بالکل باطل ہےاوراس کا قائل جادہ حق وصواب سے دورہٹاہواہے اوراس بدتر اورزیادہ باطل قول اس شخص کا ہے جو اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺ کے ارشادات کی مخالفت کی جرات کرتے ہوئے مذکورہ بالاآیات واحادیث کی غلط تاویل کرتا ہے۔اس شخص نے ایک طرف تو نصو ص کتاب وسنت کی تکذیب کی ،انہیں باطل قراردیا اوردوسری طرف اس کا ان باتوں پر ایمان بھی نہیں ہے جوان نصو ص سے ثابت ہیں یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کانزول،لوگوں میں عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرنا،دجال کو قتل کرنا اوروہ دیگر امور جوان احادیث میں مذکور ہیں۔اس شخص نے رسول اللہ ﷺ کی طرف جوامت کے سب سے زیادہ ہمدرداورخیرخواہ تھے اوراللہ تعالی کی شریعت کو سب سے بڑھ کرجاننے والے تھے،دجل وتلبیس کو بھی منسوب کیا ہے،اس کی بات سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ معاذ اللہ آپؐ کا ارادہ کچھ اورتھا لیکن آپﷺ کا کلام اورآپﷺکے الفاظ بظاہر کچھ اورہیں گویا نعوذباللہ آپؐ نے امت کے سامنے افتراء کذب اوردھوکا پرمبنی الفاظ استعمال کئے ،ایسی سوچ اورفکر سے اللہ کی پناہ کیونکہ رسول اللہﷺ کامقام ومرتبہ اس سے کہیں بلند وبالااورارفع واعلی ہے کہ آپؐ کی ذات گرامی کی طرف کوئی ایسی گھٹیا بات منسوب کی جائے،یہ قول توان ملحدین کے قول سے مشابہت رکھتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ عوام کی مصلحت کی خاطر انبیاء کرام علیہم السلام دجل وتلبیس سے کام لیتے رہے کہ انہوں نے جو کچھ بظاہر کہا ،درحقیقت وہ ان کا مقصود نہ تھا ۔اہل علم وایمان نے الحمد اللہ ایسے ملحدین کی تردید میں خوب لکھا ہے اوردلائل قاطعہ وبراہین ساطعہ کے ساتھ ان کی ان لغو باتوں کو باطل قراردیا ہے۔ہم دلوں کی کجی ،امورکے التباس ،گمراہ کن فتنوں اورشیطان کے وسوسوں سے اللہ تعالی سے پناہ مانگتے ہیں اورہم اللہ عزوجل کی بارگاہ قدس میں دست بدعا ہیں کہ وہ ہمیں اورتمام مسلمانوں کو خواہش نفس اورشیطان کی اطاعت سے محفوظ رکھے ،بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے اوراللہ تعالی بزرگ وبرتر کے سوا کو ئی نیکی کی توفیق عطاکرسکتا ہے نہ برائی سے بچاسکتا ہے ۔امید ہے ہم نے جو کچھ ذکر کیا اس میں سائل کے لئے تشفی کا سامان بھی ہوگا اورحق کی وضاحت بھی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب