سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(41) میت کی پیشانی پر انگلی سے بسم اللہ لکھنا

  • 15119
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1178

سوال

(41) میت کی پیشانی پر انگلی سے بسم اللہ لکھنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میت کی پیشانی پر انگلی سے بسم اللہ لکھنا اور کوئی متبرک چیز مثلاً غلاف کعبہ کا ٹکڑا کفن پر باندھنا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت  کی پیشانی  پر انگلی  سے بسم اللہ لکھنا  کتاب الہی  وسنت  رسول اللہ واجماع  صحابہ  وقیاس مجتہدین  سے  ہرگز  ثابت نہیں  ہے اور  جوان  چار دلیلوں  میں سے  کسی سے بھی  ثابت  نہ ہو کام کرنا  منع ہے  اور اسی طرح  کفن  پر کوئی  چیز لکھنا  یا کسی  متبرک  چیز  کا رکھنا  بھی جائز نہیں ۔اگر سوال  کیا جائے  کہ فقہ  کی بعض  کتابوں  سے لکھنا  ثابت  ہوتاہے  جیسا کہ  محمد بن محمد بزازی  نے فتاوی  بزازیہ  میں لکھا ہے کہ" صفار نے لکھا ہے  کہ" اگر میت  کی پیشانی  یا پگڑی  یا کفن  پر عہد نامہ لکھا جائے  تو امید  ہے کہ اللہ تعالیٰ  اس کو بخش  دے  اور تاتارخانیہ  میں ہے کہ  کسی نے   اپنے  بیٹے  کو وصیت  کی کہ  جب میں مرجاؤں  اور غسل  دے دیا جائے  تو  میری پیشانی  پر  بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ دینا چنانچہ  میں نے ایسا ہی کیا پھر خواب  میں  باپ کو دیکھا  اس کا حال  پوچھا تو اس نے کہا جب مجھے  قبر میں رکھا گیا تو عذاب   کے فرشتے آئے  جب انھوں نے  میری پیشانی  اور سینے  پر  بسم اللہ لکھی دیکھی  تو کہنے  لگے  تو عذاب  سے بچ گیا ۔اور  ابراہیم  نے صغیری  شرح  منیہ میں  اور اعلاء  الدین  حصکفی  نے درمختار میں  اور  ابن  عابدین  نے ردالمختار میں بزازیہ  کے حوالہ  سے اس کی عبارت  کو لکھا ہے  اور جواز کا فتوی  دیا ہے  اور ابن  عجیل  پہلے  اس کا فتوی  دیتے تھے بعدازاں  صدقہ  کے  اونٹوں  پر  جو لفظ  "اللہ"  لکھا جاتا ہے  اس پر قیاس کرکے  لکھنے کا فتوی  بھی دینے  لگے ۔ اور اسی طرح  شرجی  کے حوالہ  سے بعض  محثین  نے  سینے  پر انگلی  سے  بسم اللہ اور لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ  لکھنا  نقل کیا ہے اور  یہی  فتوی  محمد اسحق دہلوی  کے  یہ مسائل  میں اور مفتاح الجنان  وکفایہ  شعبی  میں درج  ہے تو اس  سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔اس کےجواب  میں میں  کہتا ہوں  کہ اولہ اربعۃ  میں سے کوئی  دلیل  بھی مذکورہ کتابوں  میں نقل  نہیں  کی گئی اور اس  کی بنا قیاس فاسد پر ہے یا پھر خواب  پر قیاس کے متعلق عرض  یہ ہے کہ  اذکار اور  ادعیہ  ان کی  ہییت  کذائی  سب  توفیقی (جن میں  قیاس  کو دخل نہ ہو) ہیں ان  کو از خود  تجویز کرنے  اور ان پر اجر مرتب  کرنے  کا کسی  کوبھی  حق نہیں  ہے حضرت صرف اللہ تعالی  اور اس کے رسول کا ہے ۔ بعض  چیزیں بظاہر  دیکھنے  میں اچھی  معلوم  ہوتی ہیں  لیکن  چونکہ وہ منقول نہیں  ہیں لہذا منع ہیں ۔ دیکھئے  صبح  طلوع  ہونے  کے بعد آنحضرت  سے صرف  دورکعت  سنت  ثابت ہیں  اب  اگر کوئی  زیادہ  پڑھے تو ناجائز ہوگا حالانکہ  نماز فی نفسہ  بہت اچھی  چیز  ہے ، عیدگاہ  میں نفل  چونکہ آنحضرت  سے ثابت نہیں  ہیں اگر  وہاں  نفل  پڑھے  تو جائز نہ ہوگا۔فتاوی  عالمگیری  میں ہے  کہ سورۃ  قل یاایھا الکفرون سے لے کر  آخر  تک ایک ہی  رکعت نہ پڑھے  کیونکہ  یہ بدعت ہے  ثا

بت نہیں  ہے  اور صدقہ  کے اونٹوں  پر قیاس  کرکے لکھنا قیاس  مع الفارق ہے  کیونکہ اونٹوں پر جو لکھا جاتا ہے وہ علامت کے لیے لکھا جاتا ہے  اور یہاں جو کچھ لکھاجاتا ہے  وہ تبرک کے لیے  لکھا جاتا ہے  اور پھر وہاں  بے ادبی  کا امکان نہیں اور یہاں  پیپ  وغیرہ  میں ملوث  ہونے کا یقین  ہے۔پھر یہ بھی دیکھیں  کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے  تو اس کے کانوں  میں اذان کہتے ہیں کہ وہ اس کی زندگی کی ابتداء تھی  اسی پر انتہا کو قیاس کرکے بعض لوگوں نے دفن کے وقت  بھی اذان کہنا شروع  کردیا تو فقہا نے اس پر انکار کیا چنانچہ ابن عابدین نے  ردالمختار  میں اور ابن حجر  نے  اپنے فتاوی میں اس کو بدعت  لکھا ۔ عید اور جمعہ کی نماز کے بعد  بعض لوگوں نے مصافحہ کرنا شروع کردیا تو  گو مصافحہ فی نفسہ بری چیز نہیں  لیکن  فقہا نے اس کا انکار کیا کیونکہ یہ  اس موقع  میں ثابت  نہیں ۔ صلوۃ  الرغائب  کہ جس  کو بعض  بدعتی  لوگوں نے جاری کردیا اس کے خلاف فقہا نے  آواز  اٹھایا۔

باقی  رہا خواب  کا معاملہ  تو نبی  کے خواب  کے سوا کسی کا خؤاب  حجت شرعی  نہیں ہے اور   اس سے احکام کا استنباط نہیں کیاجاسکتا ۔ دیکھئے  علامہ  کرمانی  نے شرح  صحیح بخاری  میں اس حدیث  کہ ابولہب  کی ایک لونڈی  ثوبیہ  تھی ۔اس نے ابولہب کو انحضرت ﷺ کی  پیدائش کی جب خوشخبری سنائی  تو ابو لہب  نے اس کو آزاد کردیا  ۔ پھر ثوبیہ  نے نبی ﷺ کو دودھ پلایا جب ابولہب مر گیا تو اس کے گھر والوں میں سے اسے کسی نے خواب میں دیکھا  الخ اگر کیاجائے کہ اس میں دلیل ہے کہ کافروں کو بھی نیک اعمال نفع دیتے ہیں  تو میں یہ کہتا ہوں کہ یہ واقعہ قرآن مجید کی  آیت  فجعناه هباء منثورا  كے مخلاف  ہے  حافظ ابن حجر  نے بھی ایسا  ہی لکھا ہے  اور کہا ہے کہ  اس حدیث  سے دلیل نہیں  لی جاسکتی  کیونکہ  یہ مرسل ہے  اس کو عروۃ نے بیان  کیا ہے  اور کہا ہے کہ  اس حدیث  سے دلیل نہیں  لی جاسکتی  کیونکہ  یہ مرسل  ہے کہ  عروہ  نے بیان  کیا ہے  اور  کس  سے سنی  ہے یہ بیان نہیں  کرتا  اور اگر بالفرض  یہ حدیث موصول بھی ہوتی  تو ایک خواب  ہونے کی وجہ سے  اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا  قسطلانی  بھی یہی کہتے ہیں  بلکہ  نسفی کی شرح  منار  میں تو  یہاں تک لکھا ہے  کہ نبیﷺ کے علاوہ  کسی کا الہام  بھی حجت  نہیں ہے اور نہ  کسی کا خواب حجت ہے ۔ باقی  یہ جتنی  کتاوں کا حوالہ  دیاگیا ہے انھوں نے  بزازیہ  سے نقل کیا ہے  اور  بزازیہ  نے اس  پر کوئی  شرعی دلیل  قائم نہیں  کی ہے لہذا وہ توجہ سینے کی قابل نہیں ۔ابن صلاح  اور  صاحب  درمخٹار  نے بہت  صحیح لکھاہے  کہ خداتعالی  کانام  یا قرآن  کی کوئی  سورت  میت  پر یا کفن  پر لکھنا تو  درکنار ۔ روپیہ ، دیوار  اور فرش  پر بھی نہیں  کھنا چاہیے  کیونکہ اس  سے بے ادبی کا احتمال  ہے اور کفن  پر لکھنے  میں تو بےادبی  کا یقین ہے ۔ پس ایسی صورت  میں یہ لکھنا  کیسے جائز  ہوجائے گا۔

اور کفن  میں متبرک شے کا  اضافہ  کرنے  کے متعلق  تحقیقی  جواب یہ ہے کہ  روایات  سے ثابت  ہے کہ خؒفائے  راشدین  کے زمانے میں خانہ کعبہ  پر ٖ غلاف  چڑھایا جاتا تھا اور کسی نے  اس کا انکار نہ کیا اس سے اتنا  تو معلوم ہوتا  ہے کہ خانہ کعبہ پر غلاف چڑھانا درست ہے لیکن اس کے بعد اس کو خریدنا یا فروخت کرنا  اوردوسرے ممالک  میں بطور تبرک لےجانا اس میں علماء کا اختلاف ہے  چنانچہ علامہ  عینی  عمدۃ القاری  میں اسی باب  کے تحت  لکھتے ہٰں  کہ اس کا بیچنا  اور دوسرے ممالک  میں لےجانا  جائز نہیں  ہے اور  فضل  بن عدلان  ک افتوی  بھی یہی ہے ۔ابن صلاح  نے کہا  کہ اگر  اس کاخریدنا  یا فروخت  کرنا جائز بھی تسلیم  کرلیاجائے  تو اس  کی فروخت  سے جو مال  میسر  ہو اس  کو بیت المال میں داخل  کرنا ضروری ہے  ازرقی  نے بھی لکھا ہے ۔ حضرت  عباس اور عائشہ  صدیقہ  کا فتوی  ہے کہ  خانہ کعبہ  اترجانے کے بعد جنبی اور حائضہ اس کو  پہن سکتے ہیں  جو اس کی خرید فروخت  کے قائل ہیں  ان کے نزدیک  کعبہ  کے اترے  ہوئے غلاف  کا کفن دینا جائز  ہے  اور متبرک  کپڑے  ک اکفن  دینا  حدیث  سے ثابت  ہے چنانچہ  عبداللہ بن ابی منافق جب مرگیا   تو اس کے بیٹے  عبداللہ  نے آنحضرت ﷺ سے درخواست  کی کہ اپنی قمیص عنایت فرمادیں  تاکہ اس کو

 کفن  کو دیاجاسکے  چنانچہ  آپﷺ نے  قمیص دے دی  ایک عورت نے  نبیﷺ کو ایک کپڑا  بن کردیا آپ ﷺ نے اس کو سن لیا پھر کچھ  مدت  کے بعد اس نے حضورﷺ سے کپڑا مانگا ۔

آپ ﷺ نے دے دیا اس نے  اس کپڑے  کو  اسے کفن  کے لیے رکھ  لیا۔ نبی ﷺ کی ایک   صاحبزادی  فوت ہوئیں   تو  آپ نے اپنا تہہ بند اتار  کردے دیا ان روایات سے یہ تو ثابت  ہوتا ہے کہ متبرک کپڑے می ں کفن  دینا درست  ہے لیکن  یہ ثابت  نہیں ہوتا کہ مسنون  کفن  کے بعد اس پر متبرک  کپڑے کا اضافہ کیاجائے  چنانچہ  میت کو پگڑ ی  پہنانے  کے خلاف   فقہاء  نے  فتوی دیا کیونکہ  حضرت  عائشہ  سے مروی ہے  کہ رسول اللہ ﷺ کو تین کپڑوں  میں  کفن  دیاگیا ان میں  قمیص اور عمامہ  نہیں تھا۔فتاوی  قاضٰ  خاں  میں  ہے کہ  کفن تین کپڑے  ہیں  جن میں  ہمارے  مذہب  کے مطابق پکڑی  نہیں ہے ۔بحر الرائق  ۔مجتبی تنویرالابصار  قہستانی ۔ جامع الرموز۔ زاہدی  وغیرہ  میں بھی اسی طرح ہے ۔ تو کفن  کے ہمراہ  غلاف  کعبہ  کا ٹکڑا رکھنا  ایک زائد  چیز  ہوگی  جو سنت کے خلاف ہے ۔اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے" جب  کوئی قوم  کوئی بدعت  رائج کرتی ہے  تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے  ایک سنت  اس قوم  سے اٹحالیتے  ہیں تو سنت  کا تھام  لینا بدعت کے جاری   کرنے سے بہتر ہے "خلاصہ  یہ کہ بسم اللہ کو انگلی سے پیشانی  پر لکھنا  اور  غلاف  کعبہ کا ٹکڑا کفن پر رکھنا  دونوں بدعت  ہیں اور رسول اللہﷺ نے فرمایا" جو  کوئی دین  میں کوئی  نیا کام جاری  کرے  جس کے متعلق ہمارا حکم  نہیں  ہے تو  وہ کام  مردود ہے ۔اور  آپ نے یہ بھی فرمایا۔"دو چیزیں  ہیں کالم  اور طریقہ  تو بہترین  کلام اللہ  تعالیٰ کی  کلام ہے  اور بہترین راستہ  رسول اللہ ﷺ کا  راستہ ہے ۔ تم نئے کاموں سے بچنا  کہ بدترین  کام نئے  کام ہیں  اور دین میں  ہر نیا کام بدعت  ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ مولانا شمس الحق عظیم آبادی

ص354

محدث فتویٰ

تبصرے