سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(35) تعزیہ داری کرنا گناہ ہے یا نہیں؟

  • 15106
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1481

سوال

(35) تعزیہ داری کرنا گناہ ہے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تعزیہ داری کرنا جس طرح کہ اس  ملک  ہندوستان میں مروج  ہے  گناہ کبیرہ  ہے'یا نہیں ؟اور جو آدمی بعد توبہ  کرنے اس فعل  کے ' پھر  مرتکب اس کا ہوا'اس کا شرع شریف میں کیا حکم  ہے؟ اور جو  لوگ مسلمان اہل سنت حنفی  ہوکر  تعزیہ داروں کے ساتھ  اتحاد  ومحبت  رکھتے ہیں 'اور جو  رنج  وراحت  میں ان کے شریک رہتے ہیں اور ان کے ان  افعال  شینیعہ  پر مانع  نہیں ہوتے  ہیں ان کا کیاحکم ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
﴿ إِنِ الحُكمُ إِلّا لِلَّهِ﴾﴿سُبحـٰنَكَ لا عِلمَ لَنا إِلّا ما عَلَّمتَنا إِنَّكَ أَنتَ العَليمُ الحَكيمُ ﴿٣٢﴾... سورةالبقرة

 ارباب فطانت  پر واضح ہو کہ  تعزیہ  پرستی  کرنا  جس طرح  پر کہ  ملک  ہندوستان  وغیرہ  میں شائع  وذائع  ہے ،سراسر  شرک  وضلالت  ہے،  کیونکہ  تعزیہ  پرست  لوگ  فہم ناقص وخیال باطل ہیں ' حضرت  امام حسین  رضی اللہ عنہ کی تصویر  بناتے ہیں  اس طور پر کہ پانچویں تاریخ  محرم  کو تھوڑی  مٹی  کسی جگہ  سے  لاتے ہیں ۔اور  اس کو نعش  حضرت  امام حسین  رضی اللہ  عنہ کی تصویر بناتے ہیں ،اس طور  پر کہ پانچویں تاریخ   محرم کو تھوڑی مٹی  کسی جگہ سے لاتے ہیں  اور اس کو نعش  حضرت امام حسین  قرار دیکر نہایت عزت واحترام کے ساتھ  ایک چیز بلند پر  مثل  چبوترہ  وغیرہ  کے اس کو  رکھ کر ہر روز  اس پر  شربت  ومٹھائی ومالید ہ وپھول وغیرہ  اپنے  زعم فاسد میں فاتحہ و نیاز  دیتے ہیں  اور کسی شخص کو اس چبوترے  پر جو  تہ پہرے  ہوئے نہیں جانے دیتے  اور اس  مٹی  کے سامنے  جس کو نعش  قراردیا ہے  سجدہ کرتے ہیں  اور ترقی  مال ودولت  واولاد کی اس مٹی  سے طلب کرتے ہیں  کوئی منت مانگتا ہے  کہ یا امام حسین  میرا فلانا مریض  اچھا ہوجائے  کوئی کہتا ہے کہ میری  فلانی  مراد  بر آوے ،اسی  طرح کوئی اولاد مانگتا ہے  کوئی اپنے  اور مشکلات  کے حل چاہتا ہے  الغرض   جو معاملہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ  چاہیے  وہ سب  معاملہ اس مٹی  کے سامنے  جس کو  نعش  قراردیا  ہے ' کرتے ہیں  اور پھر  اس نعش  کی دستار بندی  کرکے  اور سہرہ  ومقنع  باندھ  کے خوب  ڈھول   باجہ  کے ساتھ  تمام گشت کراتے  ہیں 'اور نعرہ  یاحسین  یاحسین  کا مارتے ہیں ۔ علی  ہذا القیاس  اسی قسم  کے  اور  بہت  سے افعال  شنعیہ  ومنکر  کرتے ہیں ۔پس  جب  حقیقت  تعزیہ  پرستی  کی یہ ہے تو اس کے شرک  ہونے  میں کیا شک  وشبہ  باقی  رہا ۔ان تعزیہ پرستوں  نے  اپنی   پرستش  کے لیے ایک نشانی  ٹھرالیا ہے ۔اب یہ تعزیہ  بھی  ایک  فرد  نصاب  کا ہے  اور  پوجنا نصب  کاحرام  ہے پس  تعزیہ بنانا  اور پوجنا اس کو  بھی حرام ہوا ،حق  سبحانہ تعالیٰ نے  سورۃ مائدۃ  میں

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا الخَمرُ‌ وَالمَيسِرُ‌ وَالأَنصابُ وَالأَزلـٰمُ رِ‌جسٌ مِن عَمَلِ الشَّيطـٰنِ فَاجتَنِبوهُ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٩٠﴾... سورة المائدة

ترجمہ :اے جو لوگ ایمان لائے ہو سوائے  اس کے نہیں کہ شراب  اور جوا اورانصاب  اور تیر فال  کی ناپاک ہیں  کام شیطان  کے سے پس بچو اس سے تو تم فلاح  پاؤ

اور معنی  انصاب  کے صحاح جوہری  میں یوں لکھا ہے

النصب  مانصب  فعبد  من دون الله انتهي

یعنی جو چیز گاڑھی جاوے  اور اس کی  پرستچ کی جاوے سوائے  اللہ تعالیٰ کے اور المصباح المنير  میں ہے :النصب لضمتن  حجر  نصب  وعبد من دون الله وجمعه  انصاب  انتهي 

یعنی جو پتھر  کہ گاڑا ہوجائے  اور اس کی  عبادت کی جائے  سوائے  اللہ تعالیٰ۔

اور مجالس  الابرار  ومسالک الاخیٰار میں ہے۔  فالانصاب  جمع  نصب  بضمتين  اوجمع  نصب  بالفتح  والسكون  وهو كل مانصب  وعبد  من دون  الله تعالي من شجر  او حجر ’او قبر ’ وغير  ذلك ’والواجب هدم  ذلك محو اثر ه

 پس  دیکھو کہ حافظ  ابن قیم  اور صاحب  مجالس  الابرار نے صاف  لکھ دیا ' کہ جو  چیز  پوجی جاوے اللہ تعالیٰ کے سوائے  خواہ  کوئی درخت ہو ' یاپتھر  ہو' یا کسی  کی  یا لکڑی ہو' یا جو چیز مثل اس کے ہو۔ سب  نصب  میں داخل  ہے  اس کا  توڑ دینا  واجب ہے ۔

اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے برائی  شراب  اور انصاب  اور جو ا تینوں  کی ایک ہی جگہ  بیان فرمایا اور تینوں  کو نجس  وکام  شیطان  قراردیا ۔اور تعزیہ کا یعنی اس کو  سجدہ کرنا  اور اس سے انواع  وقسام  کی مدد چاہنا  اظہر من الشمس  ہے ۔

 پس ہر مسلمان کو چاہیے  کہ اس کو توڑدیں  اور خاک  سیاہ  کردیں ۔ دیکھو  جب جناب  رسول اللہ ﷺ سال فتح  مکہ میں ' مکہ معظمہ کو تشریف  لے گئے  آپ اندر بیت اللہ داخل نہ ہوئے  بسبب اس کے کہ  بیت اللہ کے چاروں  طرف   تین  سو ساٹھ  تصویریں  رکھی  تھیں  کہ جن  میں تصویر  حضرت ابراہیم  واسمعیل  علیہم الصلوۃ والسلام  کی بھی تھی' آپ نے  حکم دیا کہ وہ سب  تصویریں  نکالی جاویں  ، اور توڑدی جاویں ' چنانچہ  وہ تصویریں  نکالی گئیں  آپ ان تصویروں  کو لکڑی سے مارتے تھے ۔ اور کسی  تصویر  کے آنکھ  میں ٹھوکر  لگاتے تھے  پس  سب بت  گرتے  جاتے تھے 'اور جو تصویریں  کہ دیواروں  پر منقش  تھیں  ان کو پانی  سے دھو دینے  کا حکم دیا۔ جیسا کہ  صحیح بخاری ومسلم  میں  ہے ۔

عن عبدالله قال دخل  النبي صلي الله عليه وسلم  مكة يوم الفتح  وحول  البيت  ستون  وثلث  مائة نصب  فجعل  يطعنها بعود  في يده  ويقول  جاء الحق وزهق الباطل  جاء الحق ومايبدئ الباطل  ومايعيد

 ترجمہ : حضرت  عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ  داخل ہوئے  رسول اللہ ﷺ مکہ معظمہ  میں  دن فتح  کے ۔اور  چاروں طرف بیت اللہ کے تین  سو ساٹھ  تصویریں  تھیں ' پس  آپ ٹھوکر لگانے لگے ان تصویروں  کو ایک لکڑی  سے' جو آپ کے ہاتھ میں تھی  اور فرماتے تھے کہ آیا حق اور گم ہوا باطل  اور پھر  نہ لوٹے گا باطل ۔

اور بھی صحیح بخاری  میں ہے

  عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ أَبَى أَنْ يَدْخُلَ البَيْتَ وَفِيهِ الآلِهَةُ، فَأَمَرَ بِهَا فَأُخْرِجَتْ، فَأَخْرَجُوا صُورَةَ إِبْرَاهِيمَ، وَإِسْمَاعِيلَ فِي أَيْدِيهِمَا الأَزْلاَمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَاتَلَهُمُ اللَّهُ،

 حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رسول اللہ ﷺ جب مکہ  میں تشریف  لائے  تو اندر خانہ کعبہ  کے داخل  ہونے سے  انکار فرمایا اس حالت  میں کہ  اس میں مشرکین کی  معبودیں ہوں ' پس  حکم ان  کے  نکالنے کا دیا ،پس  وہ سب  معبودیں  (جوکہ تصویریں تھیں ) نکالے گئے  پس انھیں  تصویروںمیں حضرت  ابراہیم واسماعیل  علیہم السلام  کی بھی تصویر  تھی 'اور  ان دونوں  کے ہاتھوں  میں تیر  فال کی تھی' پس  آپ نے فرمایا کہ اللہ  تعالیٰ کی لعنت مشرکوں پر ۔

اور صحیح  مسلم میں حضرت  ابو ہریرہ  سے مروی ہیں

قَالَ: وَفِي يَدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْسٌ وَهُوَ آخِذٌ بِسِيَةِ الْقَوْسِ، فَلَمَّا أَتَى عَلَى الصَّنَمِ جَعَلَ يَطْعُنُهُ فِي عَيْنِهِ، وَيَقُولُ: {جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ}

 کیا  ابو ہریرہ  نے اور  ہاتھ میں رسول اللہ ﷺ کے کمان تھی ۔ اور آپ پکڑے  ہوئے تھے  سرے  کو کمان کے ۔پس  جبکہ  آتے تھے  بت  کے پاس اس کے آنکھ  میں ٹھوکر  لگاتے تھے ۔اور فرماتے کہ  آیا  حق اور گم  ہوا باطل

 اور صحیح  ابن  حبان  میں حضرت  ابن عمر رضی اللہ عنہ  سے اسی واقعہ  میں مروی  ہے۔

فليسقط  الصنم  ولايمسه  یعنی  ٹھوکر  لگانے  سے  بت  گرجا تا  تھا۔اور آپ اس  کو  دست  مبارک  سے  چھوتے  نہیں ۔

 اور طبرانی  نے حضرت  ابن عباس سے روایت  کیا ہے ۔

 فلم  یبق وثن  الاسقط  علی قفاہ  مع انھا کانت  تابتة بالارض  قدشد لهم ابليس اقدامها بالرصاص

  یعنی  پس نہیں باقی  رہا  کوئی  بت  مگر یہ کہ کٹ کرگیا  باوجود اس کے  وہ بت سب زمین  میں گڑے ہوئے تھے 'اور شیطان  نے ان  کے پیروں   کو  رانگا سے جکڑدیا تھا۔

اور  ابوداؤد نے حضرت جابر  سے روایت کیا ہے

ان النبي  صلي الله عليه وسلم  ام عمر بن الخطاب  وهو بالبطحاء  ان ياقي  الكعبة  فيمحو كل  صورة  فيها ّ فلم  يدخلها حتي  محبت  الصور ’وكان  كم  هوالذي اخرجها

 رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا  حضرت  عمر  رضی اللہ عنہ  کو  اور  وہ بطحاء میں تھے ' کہ جاویں  کعبہ میں اور مٹادیں  تصویروں  کو جو وہاں  ہوں   پس  نہ داخل  ہوئے رسول اللہ ﷺ کعبہ میں یہاں تک کہ صورتیں  مٹادی گئیں ' اور جو صورتیں   ذی  جسم تھیں  ان  کو  حضرت  عمر رضی اللہ عنہ  نے باہر  نکالا کہا  حافظ ابن حجر  نے فتح الباری  میں

والذي  يظهرانه محاما كان من الصور  مدهونا مثلا واخرج  ماكان مخروطا

ترجمہ: سب روایتوں  کو ملانے  سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے  کہ جو صورتیں  منقش  کی ہوئی تھیں ان کو حضرت  عمر رضی اللہ عنہ  نے مٹادیا ۔ اور  ان کو حضرت  عمر رضی اللہ عنہ  نے مٹادیا، اور  جو تراش  کے بنائی گئی  تھیں  یعنی ذی جسم  تھی  اس کو  باہر  نکال دیا ۔

 واخرج  ابو داؤد  والطیالسی

عن اسامة  قال دخلت  علي  رسول الله  صلي الله عليه وسلم في الكعبة  فراي  صورا فدعها  بدلوا من ماء  فاتيته  به ‘ فضر ب  به  الصور وسنده  جيد

ترجمہ : کہا اسامہ  نے گئے  ہم  رسول اللہ  ﷺ  کے پاس  کعبہ میں  پس دیکھا  آپ نے بہت  سی صورتیں  پس  ایک  ڈول  پانی مانگا ، ہم  نے  لادیا ' پس آپ  چھینٹ ا آپ نے  ان صورتوں  پر ۔ پس  جب وہ تصویریں  جن میں  تصویر  حضرت  ابراہیم  واسمعیل  علیہم السلام  کی بھی تھی  رسول اللہ ﷺ نے باقی  نہیں رکھا ۔ بلکہ  تصویریں  ذی  جسم کو توڑدیا' اور ذی نقش  کو پانی  سے دھودیا۔ پس  اب تعزیہ  کے توڑدینے  میں کسی قسم  کا تردد  وشبہ  باقی  نہیں رہا  کیونکہ  ان تصؤیروں کی چونکہ  پرستش  ہوتی تھی  اسی لیے  رسول اللہ ﷺ نے ان کو توڑا'اور مٹادیا ' وہی  وجہ  بعینہ  تعزیہ  میں بھی موجود  ہے'  اور قطع  نظر  پرستش  کے جس  گھر میں  تصویر  ذی  روح  کی رہتی  ہے 'وہاں  فرشتہ  رحمت کے نہیں آتے ہیں۔

جیسا کہ  تمام کتب  احادیث اس سے مالا مال ہے ۔

اور فتح الباری میں  ہے:

 َكَانَتْ تَمَاثِيلُ عَلَى صُوَرٍ شَتَّى فَامْتَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ دُخُولِ الْبَيْتِ وَهِيَ فِيهِ لِأَنَّهُ لَا يُقِرُّ عَلَى بَاطِلٍ وَلِأَنَّهُ لَا يُحِبُّ فِرَاقَ الْمَلَائِكَةِ وَهِيَ لَا تَدْخُلُ مَا فِيهِ صُورَةٌ انتھی

 یعنی  تھیں  وہ تصویریں  مختلف  صورتوں   کی   پس  باز  آئے  رسول اللہ  ﷺ بیت اللہ  کے داخل  ہونے سے  درحالیکہ وہ تصویریں  بیت اللہ میں رہیں ' کیونکہ  رسول اللہ  ﷺ  امر باطل  پر سکوت  نہیں فرماتے 'اور  اس سبب  سے  کہ آپ  نہیں دوست رکھتے ہیں  فرشتوں   کی جدائی  کو 'اور فرشتے  نہیں داخل  ہوتے اس جگہ  جہاں  تصویر ہو  پس  جس جگہ  تعزیہ  وغیرہ صورت  ذی جان  کی ہو وہاں  فرشتے  نہیں آتے ہیں۔

تمامی ممالک  ہندو وغیرہ  میں جہاں  جہاں تعزیہ داری  ہوتی ہے  ہزاروں  در ہزار آدمی  شرک  میں گرفتار  رہتے ہیں ، کوئی  ترقی  مال  ودولت  کوئی صحت  مریض  ' کوئی  کچھ  اور  کوئی کچھ 'اور ایسی  عظمت  وتعظیم  جو خاص واسطے باری تعالیٰ  کے لائق ہے  کرتےہیں 'اور سمجھتے ہیں  کہ  ذرا سا بے ادبی  کرنے میں  قہر  وبلا  نازل  ہونے لگے  گی 'اب  اے  غافل  لوگ تم  سب  متنبہ  اور ہوشیار  ہوجاؤ کہ تم  لوگ کیسے  گناہ عظیم میں مبتلا  ہو ہوشیار  ہوجاؤ۔ دیکھو اللہ تبارک وتعالیٰ  فرماتا ہے ۔ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی تجھ ہی کو پوجتے ہیں  اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں

حصر ہے ایاک نعبد نستعین                                                                                                                                              استعانت  غیر سے لائق نہیں

اور فرمایا﴿ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾

پس نہ ٹھہراؤ اللہ کے ساجھی  اور تم جانتے ہو کہ اللہ کے برابر کوئی نہیں ہے

اور فرمایا َ﴿اعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا﴾

 اور عبادت کرو اللہ کی اورمت ٹہراؤ اس کے ساتھ شریک

اور فرمایا﴿ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا﴾

تم  لوگ ایسی چیز کو پوجتےہو  اللہ کو چھوڑ  کر جو مالک نہیں تمہارے  ضررا ور نفع کا اور فرمایا﴿ وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾

ترجمہ :اور اگر  پہنچادےاللہ تجھ کو کوئی مصیبت  نہیں دور کرنے والا اس کو سوائے اللہ کے  اور اگر پہنچائے اللہ بھلائی ' پس وہ  ہر چیز پر قادر  ہے۔

اور فرمایا ﴿وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ﴾

اور حکم یہی ہوا تھا کہ بندگی  کریں ایک اللہ کی نہیں کوئی قابل  عبادت  کے مگر وہی  اور فرمایا

 ﴿اَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ﴾

حکم کیا اللہ پاک نے  کہ نہ عبادت  کرو مگر  اسی کی

اور فرمایا ﴿أَفَمَن يَخْلُقُ كَمَن لَّا يَخْلُقُ ۗ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ﴾

بھلا جو پیدا کرے  برابر ہے  اس کے  جو کچھ نہ پیدا  کرے  تم لوگ  کچھ نہیں سوچتے  ہو

اور فرمایا﴿ وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِّنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ﴾

 اور پوجتے ہیں  اللہ کے سوا ایسوں کو جو مختار  نہیں ان کی روزی  کی آسمان اور زمین سےکچھ 'اور نہ مقدور رکھتے ہیں

اور فرمایا﴿  هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّـهِ يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ﴾

  کوئی ہے  بنانے والا  اللہ کے سوا روزی  دیتا تم  کو آسمان اور زمین  سے کوئی حاکم نہیں مگر  وہ پھر  کہاں الٹے  جاتے ہیں

اور فرمایا﴿ َا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ﴾

 ترجمہ  مت سجدہ کرو آفتاب  کو اور چاند کو،اور سجدہ  کرو اللہ کو جس نے  آفتاب  اور چاند کو بنایا۔ اگر  ہو تم  اللہ کو پوجتے

اور فرمایا﴿ وَاتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا﴾

 ترجمہ  پکڑا لوگوں  نے سوائے  معبودوں  کو جو نہیں بناتے  کچھ چیز اور  خود  بنائے  گئے ہیں  اور نہیں  مالک اپنی  جان  کے نقصان  ونفع کے اور نہیں مالک مرنے کے نہ جینے  کے اور نہ جی اٹھنے  کے۔

 اور فرمایا﴿  لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾

 ترجمہ  اسی کے پاس ہیں کنجیاں  آسمانوں کی  'اور زمین  کی کشادہ کرتا  ہے  رزق  کی ،کشادہ  کرتا ہے  رزق کے واسطے  چاہتا ہے اور تنگ  کرتا ہے  اور ہر چیز کو جاننے  والا ہے

﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ﴾

 اور جن کو تم پکارتے ہو سوائے اللہ کے مالک نہیں ایک چھلکے  کے

لِّلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَ ﴿٤٩﴾ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ

اللہ ہی کو بادشاہت  آسمانوں اور  زمین کی  پیدا کرتا ہے  جو چاہتا ہے  ۔دیتا ہے جس  کو چاہے بیٹے  یا ملادیتا ہے ان کو بیٹے اور بیٹیاں اور کردیتا ہے جس کو چاہتا ہے بانجھ  بیشک وہی ہے جاننے والا قدرت والا

اور فرمایا

وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ

  اور مت پکار  اللہ کے سوا ایسے کو  کہ نہ نفع  پہنچاسکے  تجھ کو،اور نہ ضرر پہنچاسکے پھر اگر  تو نے  یہ کیا تو تو ظالموں  میں ہے

 اور فرمایا  قل  لايعلم  من في السموات  والارض  الغيب  الا الله

  تو کہہ غیب نہیں جانتا آسمانوں اور زمین کا کوئی رہنے والا سوائے اللہ کے

اور فرمایا لَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ ۚ قُلْ أَفَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّـهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ ۚ قُلْ حَسْبِيَ اللَّـهُ ۖ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ

اور جو   تو  ان سے پوچھے  کس نے بنائے  آسمان اور زمین  ۔تو کہیں اللہ نے ، تو کہہ بھلا  دیکھو تو جن  کو پوجتے ہو اللہ کے سوا اگر چاہے  اللہ  مجھ  پر کچھ  تکلیف کیا وہ ہیں  کہ کھول دیں  تکلیف اس کی یاد وہ چاہیے  مجھ پر مہروہ ہیں کہ روک  دیں  اس کی مہر کو مجھ  کو  بس ہے اللہ  اسی پر  بھروسہ  رکھتے ہیں   بھروسہ  رکھنے والے

اور فرمایا  إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ

اور  اللہ ہی ہے  روزی  دینے  والا زور آور  مضبوط

وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ

اسی کے  پاس  کنجیاں  ہیں  غیب کی ،اس کو کوئی نہیں جانتا اس کے سوا۔اور اسی  مضامین  کی  اور ہزاروں  آیتیں  ہیں 'جن  سے یہ  بات ثابت  ہے  کہ  شدید اور مصیبتوں  کے وقت  اللہ تعالیٰ ہی  کو پکارنا  چاہیے ،اور اسی  سے استعانت'ومدد'وطلب  روزی  واولاد 'وصحت امراض کرناچاہیے  اور اس کے سوائے کسی  کو خواہ  انبیاء  اولیاء وقطب  ہوں  علم  غیب  حاصل نہیں ، کہ  شیداید  کے  وقت  جب وہ پکارے جاویں  تو  وہ سنیں  اور مدد کریں ۔اور ان کو ذرا بھی اختیار  حاصل  نہیں۔ کہ کسی  کو کچھ  نفع نقصان  پہنچائیں '  تعزیہ  پرستوں ' وقبر پرستوں  نے خالق ومخلوق کو برابر کردیا، بلکہ  مخلوق سے  زاید ڈرنے لگے ،اور  اللہ تعالیٰ کی کچھ  قدر  نہیں پہنچانتے۔

مَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ ان لوگوں سے  اور مشرکین  مکہ سے  کچھ فرق نہیں مشرکین  مکہ بھی  اللہ تعالی کو ایک جانتے  تھے  کہ اولاد ورزق وہی  دیتا ہے ۔ مگر  اس کے ساتھ  ہی وہ لوگ  اپنے  بتوں کے عظمت وتعظیم  مثل  خدائے  تعالیٰ کی کرتے تھے اور ان سے مدد واستعانت چاہتے تھے اور ان کو پوجتے 'اور  کہتے  کہ واسطے  حصول  تقرب  الہی ان کو  پوجتے ہیں ۔

جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا 

 

مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ

نہیں عبادت  کرتے  ہم ان کو'مگر تو کہ  نزدیک  کریں  ہم کو اللہ کے نزدیک  کرنے  کر وہی حال  قبر پرستوں  اور تعزیہ  پرستوں کا ہے ' کہ  وہ بھی  اللہ تعالیٰ کو خالق ورازق جانتے ہیں اور بزرگوں سے بھی مدد واستعانت  چاہتے ہیں ۔اور  ان کی قبروں  پر سجدہ  اور طواف کرتے ہیں ،اور  اوپر  آیات قرآنیہ  سے ثابت  ہوچکا  کہ عبادت  غیر اللہ کی حرام  وشرک ہے۔

اب جاننا چاہیے کہ  طلب  اعانت ومدد  دعا بھی ایک  فرد عبادت ہے۔ جیسا کہ  تفسیر  نیشا پوری  میں ہے

  قال   جمعهور العلماء ان الدعاء  من اعظم  مقامات العبودية

  کہا سارے علماء نے کہ  تحقیق  دعا مانگنا  بہت بڑی  عبادتوں میں ہے ۔اور تفسیر معالم التنزیل  میں ہے

 الاستعانة نوع تعبد

مدد کرنا ایک قسم کی  عبادت ہے

اور بھی  تفسیر  نیشا پوری میں ہے

 حقيقة الدعاء  استدعاء  العبد ربه  رجل جلاله  والاستمداد والمعونة انتهي

 اصل معنی  دعا کے یہ ہے کہ  حاجت  اور مدد  اور اعانت  اللہ تعالیٰ سے طلب کرنا ۔اور نصاب  الاحتساب  میں ہے  اذاسجد  لغير الله يكفر  لان وضع الجبهة علي الارض  الا من يجوز الا الله تعاليٰ

  ترجمہ : سوائے اللہ تعالیٰ  کےاور کسی  کو سجدہ  کرنے  سے کافر ہوجاتا ہے  اس واسطے  کہ رکھنا  پیشانی کا زمین  پر جائز نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کے واسطے  اور ایسا ہی  تفسیر کبیر میں   بذیل  آیۃ کریمہ ا  تَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ کے ہے ۔

اور ایسا  ہی ہے  شرح  مرقاۃ  ملا علی قاری  میں، بشرح  حدیث  لعن الله يهود والنصاري  میں

اب یہ سب  بیان  ماسبق سے تعزیہ   پرستی کا  شرک ہونا  ثابت  ہوا۔اور مشرکین  کے حق میں یہ وعید  نازل ہوئی  ہے۔

إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ

تحقیق اللہ نہیں  بخشتا  ہے اس کو  جو شریک  اس کا پکڑے  اور بخشتا ہے  شرک کے سوا جس کو چاہے

 اور فرمایا 

إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ

  مقرر  جس نے شرک  کیا اللہ کا سو حرام  کی اللہ نے  اس پر جنت 'اور اس کا ٹھکانا  دوزخ ہے ۔اور کوئی  نہیں ظالموں  کا مدد کرنے  والا

اور فرضا اگر کوئی  شخص  تعزيه وغيره  به نيت  برستش وعبادت وتعظيم  بغير  الله  کے  نہ بناوے  بلکہ اپنے  زعم  فاسد  میں ماتم  حضرت  امام حسین رضی اللہ عنہ  قراردے  یا صرف  بنا بر رسم  ورواج   طمع  دنیاوی  کے بنادے  تب بھی  گناہ  کبیرہ ہونے  سے  خالی نہیں 'اس لیے  کہ اگرچہ  وہ اس کی  پرستش نہیں کرتا  ۔مگر  وسیلہ پرستش تو ہے ' دوسرے جہاں  اس کی پرستش  کریں گے 'اور  خود وہ شخص بدعتیوں میں داخؒ ہوا کیونکہ  اس طرح  پرتمثال  وصورت  قائم کرکے  ماتم کرنا  حرام وبدعت  ہے ' نہ تو رسول اللہ ﷺ کے زمانے  میں ہوا۔ نہ صحابہ کے زمانوں میں پایا جاتا۔

صحیح بخاری وغیرہ میں ہے  قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ» اور  فرمایا جناب رسول اللہ ﷺ  نے جس نے   میری  اس دین میں نکالا وہ چیز  جو کہ دین میں نہیں ہے پس  وہ چیز مردود ہے ۔

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبَى اللَّهُ أَنْ يَقْبَلَ عَمَلَ صَاحِبِ بِدْعَةٍ حَتَّى يَدَعَ بِدْعَتَهُ رواہ ابن ماجہ

 اور رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بدعتیوں  کا عمل  قبول نہیں فرماتا جب تک  وہ اپنے  بدعت سے توبہ  نہ کریں

وعن  انس بن مالك قال قال رسول الله  صلي الله عليه وسلم  ان الله  حجب  التوبة  عن كل  صاحب  بدعة  يدع  بدعته  رواه الطبراني  باسناد  حسن

 اللہ تعالیٰ بدعتیوں  کی توبہ  کو قبول  نہیں فرماتا  جب  تک وہ اپنی  بدعت سے  توبہ نہ کریں ،

وعن  ابراهيم  بن  ميسرة  قال قال  رسول الله عليه وسلم  ومن قر  صاحب   بدعة  فقد  اعان  هدم الاسلام  رواه البيهقي   في شعب الايمان

 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  جس نے  عظمت  وتوقیر  بدعتیوں  کی کیا ،اس نے اسلام  ڈھانے  پر اعانت  کیا۔

اور ہر تقدیر  صورت  ثانیہ  کے  یعنی  بناء  بر اسم  ورواج  کے تعزیہ  بنانا  یہ بھی  مصیبت  میں داخل  ہے، کیونکہ  یہ فعل  اس کا  معین  علی الشرک  ہے' اور پابندی  رسم ورواج  کی درباب  امور شرکیہ کے خود شرک ہے ۔اور  وہ داخل  ہے اس آیت کریمہ  میں

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا

 ترجمہ : اور جب کہا جاتا ہے واسطے  ان کے  پیروی  کرو اس  چیز  کی کہ اتار  اللہ نے  کہتے  ہیں بلکہ  پیروی کریں  گے  ہم  اس چیز  کی کہ پایا ہم نے  اوپر  اس کے باپوں  اپنے۔

پس  ہر تعزیہ  پرستوں  کو لازم وواجب ہے کہ  تعزیہ بنانے اور  تعزیہ  کی پرستش سے توبہ کریں 'اور عذاب  آخرت  اپنی  گردن  میں نہ لیں 'اور جو آدمی  بعد توبہ  کرنے  کے تعزیہ  پرستی  سے ' پھر  مرتکب  اس کا ہوا۔ اور تعزیہ پرستی  شروع  کیا ، اس شخص کا وہی حکم ہے  جو کہ  تصریحاً اوپر  بیان  ہوا  اور  وہ انھیں  صورتوں  میں داخل  ہوا العیاذ باللہ

 اور جو  لوگ  اپنے  کو  سنی  کہتے ہیں ان کو تعزیہ  پرستوں  کے ساتھ  اتحاد  ومحبت  رکھنا  گناہ ہے 'اور جائز نہیں  کہ ان کے جلسے  میں شریک  ہوں 'اور نہ ان کی  دعوت کریں ' بلکہ   انکی  اس فعل   شنیع  پر مزاحمت  کریں  ورنہ  انھیں  تعزیہ  پرستوں  کے ساتھ یہ بھی  قیامت  میں  اٹھائے جائیں گے  اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے :

وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ  اور چاہیے  کہ ہو  تم  میں سے  ایک جماعت  کہ بلاویں  طرف  بھلائی  کے 'اور  حکم کریں  ساتھ  اچھی  چیز کے'  اور  منع کریں  بری بات  سے 'اور یہ لوگ چھٹکارا پانے والے ہیں ۔ اور فرمایا  كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ

  ہو  تم بہتر امت ' جو نکالے  گئے  ہو واسطے  لوگوں کے ، حکم کرتے  ہو ساتھ  اچھی باتوں  کے،اور منع   کرتے ہو برائی سے

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ»

  ابو سعید  سے روایت ہے  رسول اللہ  ﷺ نے فرمایا ۔ مت  ساتھ کر  کسی کا سوائے  مومن کے ۔اور مت  کھلا اپنا  کھانا مگر پرہیز  گار  کو ۔

 یعنی  بدکاروں  کی دعوت  نہ کرے  اوران  کی صحبت  میں نہ  بیٹھے ۔ نہ  ان کے ساتھ  خلط ملظ  رکھے ۔ ورنہ ان کی عادتیں  اس میں بھی اثر  کریں گی ۔

قال الخطابي  هذاس في طعام  الدعوة  دون  طعام الحا جة ’وانما   حذر  من صحبة  من ليس  ليبقي  وزجر  عن مخالطته  ومواكلته  لان  المطاعة   توقع  الالفة  والمودة  في القلوب  يقول  لاتولف  من ليس  من اهل  التقوي  والورع  ولاتتخذه  جليسا تطاعمه  وتنادمه انتهي

 حاصل ترجمہ  علامہ خطابی  کے یہ  ہے کہ  بدکاروں  کی دعوت نہ کرے ۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بدکاروں  کے ساتھ رہنے  کو'  اور  میل جول  رکھنے کو 'اور ان  کے ساتھ کھانے  پینے  کو اس واسطے  منع  فرمایا  کہ ان لوگوں  سے دوستی  ومحبت  نہ ہوجائے ،

 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ» رواہ ابوداود  والترمذی  وحسنہ  وصححہ  الحاکم

 ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدمی  اپنی  دوست  کے دین  پر ہوگا تو دیکھ  لے کسی  سے دوستی کرنا  یعنی  سمجھ بوجھ  کر دوستی  کرے ،ایسا  نہ ہو کہ مشرک یا بدعتی  سے دوستی کرلے ' پھراس کے ساتھ  آپ بھی جہنم   میں  جاوے  

وعن قال  قال رسول الله صلي الله عليه وسلم  لايجب  رجل  قوما الا حشر  معهم  رواه الطبراني  والاوسط  باسناد وجيد

 حضرت علی سے روایت  ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی  کسی  قوم  کو دوست  رکھتا ہے  وہ اس کے  ساتھ  قیامت میں  اٹحایا جائےگا ۔

  وعن  جرير  قال سمعت  النبي صلي الله عليه وسلم  يقول  مامن  رجل  يكون  في  قوم  يعمل  فيهم  بالمعاصي  يقدرون  علي  ان يغيروا عليه  فلا يغيروا الااصابعهم  الله  بعقاب  من قبل  ان يموتوا

  ترجمہ : جریر  سے  روایت  ہے کہ  کہا رسول اللہ ﷺ  سے  میں نے سنا  ہے  آپ فرماتے تھے جو شخص  کسی قوم  میں برے کام  کیا کرتا ہو  اور قوم  والے باوجود قدرت کے اس کو اس کے کام  نہ بگاڑیں ' تو اللہ اپنا  عذاب  ان پر ان کے  موت سے پہلے  ہی پہنچاتا ہے ۔

معلوم ہوا کہ امر بالمعروف  اور نہی  عن المنکر  کے چھوڑدینے  کے سبب سے دنیا  میں بھی  عذاب  اترتا ہے، اور آخرت  کا عذاب  بھی  باقی  رہتا  ہے،

 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَوَّلَ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، كَانَ الرَّجُلُ يَلْقَى الرَّجُلَ، فَيَقُولُ: يَا هَذَا، اتَّقِ اللَّهَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ، فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ لَكَ، ثُمَّ يَلْقَاهُ مِنَ الْغَدِ، فَلَا يَمْنَعُهُ ذَلِكَ أَنْ يَكُونَ أَكِيلَهُ وَشَرِيبَهُ وَقَعِيدَهُ، فَلَمَّا فَعَلُوا ذَلِكَ ضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ "، ثُمَّ قَالَ: {لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ [ص:122] عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ} إِلَى قَوْلِهِ {فَاسِقُونَ} رواہ ابو داؤد

  عبداللہ بن مسعود  سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا پہلی  خرابی  کو بنی اسرائیل  میں پڑی  یہ تھی ' کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا اور  اس سے کہتا  خدا سے  ڈر ۔اور اپنی حرکت  سے باز آ کیونکہ  یہ درست نہیں ہے۔ پھر جب  دوسرے دن  اس سے ملتا  تو منع  نہیں کرتا ان  باتوں  سے  اس لیے  کہ شریک ہوجاتا اس کے کھانے  اور پینے  اور بیٹھنے  میں  یعنی  جب  صحبت  ہوتی  اور کھانے پینے  کا مزہ ملتا  تو امر بالممعروف  چھوڑدیتے  ' پھر  جب ایسا  کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی  بعضوں کے دلوں کو بعضوں کے ساتھ ملادیا

وعن  حذيفة  عن النبي صلي الله عليه وسلم  قال  والذي   نفسي  بيده لتا مرن  بالمعروف  وتنهون  عن المنكر  اوليوشكن  الله يبعث  عليكم  عقا منه ثم  تدعونه  فلايستجب  لكم ورواه الترمذي  وقال   حسن  غريب

ترجمہ  فرمایا رسول اللہ ﷺ نے قسم ہے  اس  ذات  پاک کی جس کے ہاتھ میں   میری جان  ہے ۔البتہ  تم  لوگ  حکم  اچھے  کام کا کرو اور بری   بات سے  روکو'یا یہ کہ قریب ہے  کہ اللہ تعالیٰ بھیجے گا تم لوگوں پرعذاب اپنے  طرف  سے ، پھر  تم لوگ  پکاروگے  اس کو ، پس نہیں قبول کرے گا تمہاری  دعا کو

  حاصل کلام یہ ہے کہ  ان احادیث  مذکورہ بالا  وآیات  قرانیہ  سے صاف  معلوم  ہوتا ہے کہ  بدعتیوں  اور بدکاروں  کے ساتھ  محبت  ودوستی  وکھانا پینا  نہ رکھے ۔اور انہ ان کے برے  کاموں  اور بدعتوں  پر راضی  ہو، اور  نہ ان کی شرکت  دے ورنہ  عذاب  الہی   میں گرفتار ہوگا ،واللہ اعلم بالصواب  حرره  ابو طيب  محمد  ائمه شمس الحق عظيم آبادي  عفي عنه  وعن  والديه  وعن  مشائخه

 فی الواقعہ  تعزیہ  پرستی  شرک ہے  اس سے  توبہ  کرنا فرض ہے  اور مشرکوں  سے خلط  ملط  رکھنا  بھی معصیت  ہے ۔حررہ محمد اشرف  عفی عنہ  عظیم آبادی

 محمد اشرف

 تعزیہ  داری  شرک  وکفر  ہونے  کے علاوہ  خاص  بے عزتی  وبے حرمتی  وتوہین  حضرت امام کی ہے  کوئی آدمی  اپنے آبا کی نقل  بنانے کو پسند  نہیں کرتا  ہے تو  امام صاحب  کی نقل  بنانا کس طرح  پسند  ہوسکتی ہے ۔ نوراحمد عفی عنہ  عظیم آبادی

 بیشک  تعزیہ بنانا یا اس کی  مدد اور  کوشش  کرنا شرک وبدعت ہے ہر مسلمان کو لازم  ہے کہ  اس سے بچے  اور توبہ کرے  اور اس  کے مٹانے  میں جان  ومال  سے کوشش کرے  حضرت  شیخ قطب الدین  سید  محی الدین  عبدالقادر  جیلانی  قدس   اپنی کتاب  غنیۃ الطالبین  میں بدعتی کے بارے میں تحریر  فرماتے ہیں۔

 وان لا يكاثر  اهل البدع ولا  يدا  ينهم  ولا يسلم  عليهم  لان  اماما احمد  بن حنبل  رحمة الله عليه  قال من سلم  علي صاحب  بدعة  فقد  احبه  لقول النبي صلي الله عليه وسلم  افثوا السلام بينكم  تحابوا ولايحالسكم ولايقرب  منهم   ولا  يهنيم  في الاعياء  واوقات   السرور  ولايصلي  عليهم  اذاماتوا ولا يترحم عليهم  اذا ذكر  وابل  يبانهم  ويعادهم  في الله  عزوجل  معتقدابطلان  مذهب  اهل بدعة  محتسبا بذلك  الغواب  الجزيل والاجر  الكثير  وروي  عن النبي صلي الله عليه وسلم  انه قال  من نظر  الي  صاحب بدعة  بغضا له في  الله  قلبه  امنا وايمانا ومن النتهر صاحب  بدعه بفضاله  في الله  امنه الله  يوم القيامة  ومن استحقر  صاحب  بدعة  رفعه  الله تعاليٰ في الجنة  مائة  درجة  ومن  لقيه لبشر  او بما يسره  فقد استخف  ما انزل الله تعالي علي محمد  صلي الله عليه وسلم  وعن ابي مغيرة  عن ابن عباس رضي الله عنه  انه قال قال  رسول الله  صلي الله عليه وسلم  ابي الله عز وجل  ان يقبل  عمل  صاحب  بدعة  حتي  يدع  بدعته  وقال  فضٰل  بن عياض من احب  صاحب  بدعة  احبط الله عمله  واخرج  نورالايمان  من قلبه  واذا علم الله عزوجل  من رجل  انه  ميغض  لصاحب بدعة  رجوت  الله تعاليٰ ان  يغفر  ذنوبه  وان  قل عمله واذا رايت  مبتدعا في طريق فخذ طريقا آخر  وقال  فضيل بن  عياض  رحمه الله تعالي  سمعت  سفيان  بن عيينه  رحمة الله تعالي   يقول من  تبع  جنازة مبتدلم يزل  في سخط  الله  تعاليٰ حتي  يرجع  وقد  لعن النبي صلي الله عليه وسلم  المبتدع فقال النبي صلي الله عليه وسلم من احدث  حدثا  او اوي محدثا فعليه  لعنة الله  والملئكة والناس  اجمعين  ولايقبل  الله  منه اصرف  والعدل  يعني بالصرف  الفريضة وبالعدل النافلة  وعن  ابي ايوب  السخاني  رحم الله  انه قال اذا حدثت  الرجل  بالسنة  فقال  دعنا  من هذا وحدثنا  فاعلم  انه مال

  بدعتیوں سے  دوستی  اور مصاحبت  نہ رکھے  اور نہ ان کے طریقے  پر چلے  اور نہ ان  لوگوں  کو سلام کرے  اس واسطے  کہ  ہمارےے سردار  احمد بن حنبل  رحمہ اللہ نے  فرمایا کہ جس  نے سلام  کیا بدعتی  کو تحقیق اس نے  درست  رکھا  اس کو  (کیونکہ  سلام  وکلام  موجب زیادتی  محبت ہے )  موافق نبی ﷺ  کے کہ ظا ہر  کرو سلام کو آپس میں  تو کہ محبت ہو تم لوگوں  میں۔اور  بدعتیوں  کے ساتھ نہ بیٹھے  اور نہ  ان  ان لوگوں سے نزدیک ہووے اور نہ ان لوگوں  کی خوشی  میں مبارکباد  دے  اور جب وہ لوگ مرجائیں  ان کی نماز جنازہ  نہ پڑھی جائے  اور جب ان لوگوں کا ذکر ہوتو رحم نہ کیا جائے  ان پر  بلکہ دور کیا جائے رحمت  سے اور عداوت رکھے  ان سے اللہ  جل شانہ کے واسطےیہ  برتاؤ  ان کے ساتھ  اس واسطے کرے  کہ ان کی  مذہب کا  بطلان  اس کی اعتقاد  میں آجاوے  اور بہت  بڑے  ثواب  اور بڑی  مزدوری کا امیدوار ہے ۔اور نبی ﷺ سے روایت  ہے کہ فرمایا کہ جس نے  بدعتی کو اللہ کے واسطے  بغض  سے دیکھا  تو اللہ جل شانہ  اس کے  دک کو  ایمان  اور امن  سے بھردیتا ہے  اور جس  نے بدعتی  کو اللہ کے واسطے  جھڑکا  قیامت کے دن  اللہ جل شانہ  اس کو امن میں رکھے گا اور جس نے بدعتی  کی حفاظت  کی اللہ تعالیٰ اس کے واسطے  جنت میں سو درجہ  بلند  کرے گا اور جس نے  بدعتی سے خوشی سے ملا تحقیق ہلکا  جانا  اس چیز  کو کہ اتارا اللہ جل شانہ  نے محمد  رسول اللہ ﷺ پر ۔ابو مغیرہ  وہ ابن عباس سے روایت کرتے  ہیں  فرمایا رسول اللہ ﷺ نے انکار کیا اللہ عزوجل  نے کہ بدعتی  کا عمل قبول  کرے  یہاں  تک کہ  بدعت  کو چھوڑدے  اور کہا  فضیل  بن عیاض  نے  جس نے محبت رکھا  بدعتی  سے  اللہ تعالیٰ اس کے عمل کو نیست  کردے گا  اور نور  ایمان کو  اس کے دل سے  نکال دے گا اور جب جان   لیا  اللہ تعالیٰ نے کسی  آد می  کو کہ بغض  رکھنے  والا ہے  بدعتی  سے امید  کرتا ہوں  اللہ سے  کہ اس  کے گناہ  کو معاف  کرے  اگرچہ  عمل اس کا کم ہو اور جب  دیکھے  تو بدعتی کو  ایک راستے  پر چلتے ہوئے  تو دوسرے  راستے سے جا۔اور کہا  فضیل  بن  عیاض  نے سنا  میں نے  سفیان  بن عیینہ  سے کہ فرماتے  تھے کہ  جو بدعتی  کے جنازے  میں گیا  ہمیشہ  اللہ کے عذاب  میں رہتا ہے  یہاں تک  کہ لوٹ  آوے  اور تحقیق لعنت  کی نبی ﷺ نے بدعتی  پر ' نبی ﷺ نے فرمایا جس نے کوئی  بدعت نکالی  یا بدعتی  کو جگہ  دی ، اس  پر اللہ جل شانہ  اور اس کے فرشتے  اور سب  لوگوں کی  لعنت  ہے اور اللہ تعالیٰ فرض  اور نفل  عبادت  اس کی قبول نہیں کرتا اور ابی  ایوب  سختیانی  سے روایت  ہے کہ کہا  جب کسی آدمی  سے بیان کرے تو سنت  ( یعنی  حدیث  نبوی  اس کے سامنے  پیش  کرے) پس  وہ جواب  یوں  دے کر  چھوڑ  میرے پاس حدیث کا بیان  کرنا اور  بیان کر   وہ چیز جو کہ قرآن   میں  ہے  پس جان  کہ وہ شخص گمراہ ہے۔اس لیے   کہ حدیث رسول اللہ ﷺ کو قرآن  شریف  کے مخالف  سمجھتا  ہے  پورا ہوا، ترجمہ  غنیہ  الطالبین کا کتبہ  العاجزابو ظفر محمد عمر  صانہ  اللہ عن کل  شرو  ضر ر یوم  البعث  والنشر

بیشک تعزیہ داری شرک ہے  اور تعزیہ  پرست  مشرک ہیں  اور مشرکین    مکہ  سے  بدرجہ  بڑھ  کر اس لیے  کہ وہ لوگ  مصیبت  واضطرار  کے وقت  خاص  اللہ تعالیٰ سے فریاد  کرتے تھے  اور اپنے  معبودوں کو نہیں پکارتے تھے  اور یہ لوگ  یعنی  تعزیہ  پرستا ن  وگور  پرستا ن وغیرہ  ہممصیبت  واضطرار کے وقت  بھی اپنے  رب کی طرف رجوع  نہیں کرتے  بلکہ ان کا شرک س اس وقت  اور زیادہ  ہوجاتا ہے  اللہ توفیق توبہ نصیب کرے  آمین  ابوالفضل   عبدالرحمان  البہا ری عظیم  آبادی  عفا اللہ عنہ  ۔المجیب  حررہ  غلام  رسول  انفجابی

  اس میں شک نہیں  کہ تعزیہ  داری  شرک جلی وکفر  ہے فورا اس سے توبہ  کرے  ورنہ مشرکین  کے لیے  ہرگز  بخشایش  نہیں ہے کیونکہ قرآن پاک  میں اللہ پاک  نے صاف فرمایا۔

إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ  ( کتبہ  محمد  حاذق بہاری )

 قال اللہ تعالیٰ  لَا تُشْرِكْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ

وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم  لاتشرک باللہ وان  قتلت ادحرقت

 واقعی  دیار ہند  میں تعزیہ  پرستی  شرک   جلی ہے  جمیع  اہل اسلام  موحدین  سنیین  پر تعزیہ  پرستوں  سے ترک  سلام کلام  اور ترک   معاملات  اور ترک  مناکحت  لازم  واجب ہے  کیونکہ  یہ لوگ  مسلمان نہیں  جب تک  توبہ نصوص   اس کفر سے نہ کریں ۔ حررہ  محمد حسین  الدہلوی  عفا عنہ ۔

جواب صحیح ہے۔  قادر علی مدرس  مدرسہ  حسین  بخش  پنجابی

بیشک  تعزیہ  داری  گمراہی ہے  چنانچہ حضرت  مولانا شاہ عندالعزیز  صاحب قدس سرہ العزیز نے تفسیر عزیزی  میں بایں  عبارت  کہ ملائکہ س وارواح  انبیاء  واولیاء  اور پردہ  صوروتماثیل وقبور وتعزیہا معبود سازندن  بیان فرمایا ہے واللہ اعلم  بالصواب  ۔ حررہ  الفقیر محمد  عبدالغفار  عفی عنہ البنارسی

ان ھذا الجواب  قرین  بالحق والصواب  حررہ  الراجی  غٖفورب الاناسی  ابو منصور محمد  عبدالغفور بنارسی

واقعی  امر یہ ہے کہ  تعزیہ داری  بت پرستی  سے کسی طرح کم  نہیں ہے  بت پرستوں  سے مرادیں  مانگتے ہیں  ان  پر شیرینی  پھول  چڑھاتے ہیں ۔ تعزیہ پرست  تعزیہ پر پھول  شیرینی   شربت  مالیدہ چڑھاتے ہیں بھلا  غور  کرنے کا مقام  ہے کہ اس سے بڑھ  کر اور کیا  شرک  ہوگا۔ حالانکہ  جابجا  قرآن  میں بھی حکم ہے  کہ سوائے اللہ کے  کسی دوسرے  کو مت پوچھو۔ ماسوائے  اس کے دوسرے  سے مدد  مت مانگو اے تعزیہ  پرستوں  توبہ کرو طریقہ  اسلام  جس کی  تعلیم  اللہ ورسول  نے کی ہے ۔ سیکھو ماعلینا الاالبلاغ  حررہ  محمد  سعید عفی عنہ

 التحقيقات  العلي  باثبات فرضية الجمعة  في القري ( یہ رسالہ  مطبع احمدی  پٹنہ سے  1309ھ میں شائع ہوا تھا  دوسری بار لاہور  میں ایک مجموعے  ک اندر چھپا اس کا قلمی  نسخہ خدابخش  لائبریری  میں  زیر رقم  3180/3 موجود ہے  جس سے  مقابلہ  کرلیا گیا ہے بعض  حواشی  اور کتا بوں  کے حوالے  مولانا عطاء اللہ بھوجیانی کے قلم سے ہیں)

الحمد لله رب العلمين  والصلوة  والسلام  علي خير خلقه  محمد  واله واصحابه  اجمعين
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ مولانا شمس الحق عظیم آبادی

ص186

محدث فتویٰ

تبصرے