سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(34) ایک شہر کی چند جگہوں میں نمازِ جمعہ جائز ہے یا نہیں؟

  • 15102
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 890

سوال

(34) ایک شہر کی چند جگہوں میں نمازِ جمعہ جائز ہے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(یہ فتوی ایک ٹریکٹ  کی شکل میں کلکتہ  سے شائع ہوا تھا اس کے  شروع میں " عبداللہ حنفی بہاری ثم عظیم  آبادی " کے قلم  سے ڈیڑھ صفحے میں اس فتوی کا پس منظر  بیان ہوا ہے م پھر مذکورہ سوال کا ایک جواب  ان ہی کا تحریر کردہ ہے  جس کی تصدیق مولانا عبداللہ غازی پوری ' مولانا عبدالمنان وفا غازی  پوری  اور مولانا محمد اسحاق غازی  پوری نے کی ہے ، پھر  دوسرا جواب  مولانا شمس الحق عظیم آبادی  کے قلم سے ہے جو یہاں درج کیا جارہا ہے )

ایک شہر  میں چند  جگہوں میں جمعہ کی جماعت جائز ہے یا نہیں؟ قدیم  جامع  مسجد  کے نزدیک دوسری جامع مسجد اور جمعہ  کی جماعت  قائم  کرنی  جس سے  جامع  مسجد  قدیم کی  جماعت  مں تفرق اور نقصان  واقع  ہو جائز ہے یا نہیں ؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نحمده ونصلي ۔ ایک شہر میں بغیر  عذر  شرعی کے متعدد جگہ نماز قائم کرلینے اور محض  اپنی کسل  اور ہواے  نفس وتغافل  سے مسجد  جامع میں نماز جمعہ  کے واسطے  مجتمع  نہ ہونا خلاف  سنت مطہرہ  رسول اللہ ﷺ وخلاف عمل وطریقہ خؒفائے راشدین وصحابہ کرام  رضوان اللہ کے ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک  وخلفائے راشدین  کے عہد  رشد  میں یہی طریقہ  تھا، بلکہ لوگ  مامور تھے  کہ مدینہ منورہ  اور اطراف  مدینہ  منورہ  کے سب مکلفین  مسجد نبوی  میں مجتمع  ہوکر ادائے نماز جمعہ  کریں ۔جیسا کہ  حافظ ابن المنذر نے کتاب الاشراف  میں اور حافظ بیہقی  نے کتاب المعرفۃ  میں  اور شیخ  الاسلام  ابن حجر  نے تلخیص الجبیر  میں لکھا ہے  لیکن  بایں  ہمہ تعدد جمعہ  سے ادائے فرض  میں نقصا ن  نہیں  لازم  آوے گا، یعنی ان لوگوں  کی نماز جمعہ ادا  ہو جاوے گی ۔ مگر  ترک سنت موکدہ  کے گناہ سے بری نہیں  ہوں گے ۔اور تفصیل  اس امر  کی رسالہ  جواز  تعددالجمعۃللحافظ ابن حجر میں ہے ،اور کسل وتغافل سے نہیں بلکہ خاص تفریق جماعت  کی غرض  سے ایک مسجد جامع کے قریب یا بعید دوسری مسجد جامع مقرر کرکے  وہاں نماز قائم  کرنا بالکل ناجائزومخالف کتاب اللہ تعالیٰ ہے،کیونکہ یہ تفریق جماعت  فساد فی الدین  ہے ، وقال اللہ تعالیٰ:وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا اور جہاں پر عذر شرعی موجود  ہو'اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو'اور اذیت پہنچنے کا خوف ہو' جیسےزمانہ پرآشوب  میں جماعت  احناف کو جماعت  اہلحدیث  کے ساتھ  مخاصمت ومخالفت ہورہی  ہے تو ایسی حالت  میں ایک ہی  مسجد جامع میں مجتمع ہوکر نماز  جمعہ ادا کرنے میں مجبوری ہے،پس عدم حضوری  جامع  مسجد سے  ترک  سنت  موکدہ کا مواخذہ  ان جماعت  اہل حدیث پر نہ ہوگا، بلکہ جماعت احناف  پر ہوگا، جیسا کہ حضرت عثمان زمانہ  فتنہ میں مسجد نبوی  کی حاضری سے مجبور رہے اور بخوف اعداء اپنے مکان  ہی میں محصور رہے لیکن  ان جماعت  اہل حدیث  کو باہم  ایک ہی  مسجد جامع میں مجتمع ہوکر ادائےجمعہ کرنا ضرور ہے ۔اور متعدد جگہوں میں مختلف جماعتیں  قائم  کرلینا جائز نہیں ہے۔ اس میں بھی ترک سنت  موکدہ کا مواخذہ  باقی رہے گا۔

بس  اسعد الناس اور عامل بالحدیث  اور سابقالی الخیرات وہ شخص ہے جو اس سنت نبویہ  کی اشاعت  میں کوشش کرے،اور بعد امانت کے اس کو جاری کرے کیونکہ  فی زماننا تعدد جمعہ وعدم  حاضری  جامع مسجد  کی لوگ کچھ پرواہ نہیں کرتے  واللہ اعلم  بالصواب

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ مولانا شمس الحق عظیم آبادی

ص184

محدث فتویٰ

تبصرے