مصافحہ وقت لقاء کے حضرت صلعم اور اصحاب کرام سے ثابت ہے ۔اور بالتخصیص بعد نماز جمعہ اور عیدین کے بدعت ہے ۔کسی حدیث سے ثابت نہیں اور ائمہ دین سے بھی منقول نہیں ۔جیسا کہ شیخ ابنا لحاج نے مدخل لکھا ہے
وموضع المصافحة في الشرع انما هو عند لقاء مسلم لاخيه لا في ادبار الصلوة ‘ فحيث وضعها الشارع لايضعها فينهي عن ذلك وليزجر فاعلم لما اتي به خلاف السنة‘ انتهياور شیخ احمد بن علی رومی مجالس الابرار میں فرماتے ہیں ۔
اما المصافحة في غير حال الملاتاة مثل كو نها عقيب صلوة الجمعة والعيد كما هو العارة في زماننا فالحديث سكت عنه فيلقي بالدليل ّ وقد تقرر في موضعه ان مالا دليل حليه فهو مردود لايجوز التقليد فيه انتهياور شیخ عبدالحق نے شرح مشکوۃ میں لکھا ہے : آنکہ بعضے مردم مصافحہ می کنند نعد از نماز یا بعد از جمعہ چیزے نیست 'وبدعت است از جہت تخصیص وقت ۔
اسی طرح ملا علی قادری نے شر ح مشکوۃ میں ' اور ابن عابدین نے رد المختار میں لکھا ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب