امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کا پڑھنا خواہ صلوۃ سریہ میں ہو جہریہ میں احادیث صحیحہ مرفوعہ سے ثابت ہے ۔
اور روایت کی گئی ہے حدیث اس باب کی حضرت عائشہ وانس وابو قتادۃ وعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ۔ اور اسی پر عمل ہے بہت سے صحابہ اور تابعین اور محدثین کا جیسا کہ جامع الترمذی میں مسطور ہے ۔
باقی رہا حکم اس کا پس بعض قائل استحباب کے ہیں جیسا کہ امام ابوعیسی ترمذی اپنی جامع میں فرماتے ہیں
قد اختلف اهل العلم في القراءة خلف الامام ‘ فراي اكثر العلم من اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم القراة خلف الامام ‘ وبه يقول مالك وابن المبارك والشافعي واحمد واسحاق وروي عن عبدالله بن المبارك انه قال :انا اقرا خلف الامام والناس يقرؤن الاقوم من الكوفين ’ واري من لم يقرا صلوة جائزة ‘ وشدد قوم من اهل العلم في ترك قراة فاتحة الكتاب وان كان خلف الامام فقالوا لاتجزي صلاة الا بقراة فاتحة الكتاب وحده كان اوخلف الامام وذهبوا الي ماروي عبادة بن الصامت عن النبي صلي الله عليه وسلم خلف الامام انتهياور دلائل دونوں فرقوں کے اپنی جگہ پر مذکور ہیں ۔ وہ مقابلہ ان روایات صحیحہ کا نہیں کرسکتی ہیں ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب