کیافرماتےہیں علماءکرام اس مسئلہ میں کہ ایک جگہ جوکہ رہائش والی ہےاورایک دکان اپنی بیوی کےنام پرہبہ کرواکرگورنمنٹ سےکھاتےبھی کروادی،مکان کاکرایہ وغیرہ مرحوم خودہی وصول کیاکرتاتھااب اس مکان میں موجودساراسامان اس بیوی کاتصورکیاجائےگایاوہ سامان وارثوں میں تقسیم کیاجائےگا،اسی طرح ایک اورمکان بھی تھاجوکہ مرحوم اوراس کی بہن کےنام تھامعحوم نےیہ مکان اپنےبھانجوں کےنام کیاہواہےاس مکان میں ابھی تک کوئی بھی رہائش پذیرنہیں ہے۔بتائیں کہ شریعت محمدی کےمطابق یہ سامان وغیرہ ہبہ ہوگایانہیں؟
معلوم ہوناچاہیےکہ مرحوم نےجومکان ہبہ کیاتھاوہ بحال اوربرقراررہےگاباقی اگرمرحوم نے سامان بھی ہبہ کردیاتھااوراس کی تحریریاگواہ موجودہیں توپھریہ سامان بھی ہبہ میں شمارہوگاااوراگرتحریرگواہ موجودنہیں ہیں توپھریہ سامان ورثامیں تقسیم کیاجائے گااوراگرمرحوم نے اپنی اشیاہبہ کرکے دی ہیں توپھریہ ہبہ برقراررہےگی۔
باقی جوعلماءکرام قبضہ میں ہونے کی شرط لگاتےہیں وہ غلط ہے اوروہ اپنے اس قول کی دلیل اس حدیث کوپیش کرتے ہیں:((لاتجوزالهبةالامقبوضة.))یہ حدیث ضعیف ہےجیساکہ علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الاحادیث الضعیفہ ولاموضوعہ ص360میں فرمایاہےکہ‘‘لااصل له مرفوعاوانمارواه عبدالرزاق من قول النخعي كماذكره الذيلعي في نصب الراية٤/١٢١’’اس میں ثابت ہوتاہےکہ قبضہ شرط نہیں اسی طرح ایک اورحدیث مبارکہ میں ہے :
عروہ بیان کرتےہیں بےشک مسوربن مخرمہ اورمروان بن حکم نے انھیں خبردی کہ بنی کریمﷺکی خدمت میں قبیلہ ہوازن کاوفدمسلمان ہوکرحاضرہوا۔
نبی کریمﷺکھڑے ہوئے لوگوں میں (خطاب کیا)اللہ کی شان کےمطابق اس کی حمدوثنابیان کی،پھرفرمایا:امابعد!یہ تمھارےبھائی توبہ کرکےمسلمان ہوکرتمھارےپاس آئے ہیں اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ میں ان کاحصہ
(قیدی اورمال ودولت)واپس کردوں۔اب جوشخص خوشی کے ساتھ ایساکرناچاہے وہ کرےاورجوشخص چاہتا ہے کہ اس کا حصہ باقی رہےیہان تک کہ جب اس کو
(قیمت کی شکل)میں اس وقت واپس کردیں جب اللہ تعالی سب سےپہلامال غنیمت کہیں سےدلادے۔لوگوں نے کہاکہ ہم بخوشی دل سےاس کی اجازت دیتے ہیں۔’’
اس میں سےبھی ثابت ہوتا ہے کہ قبضہ شرط نہیں ہے اگرقبضہ شرط ہوتاتوان صحابہ نےقبضہ میں نہیں لیاتھا،پھرواپس کیسےکردیا۔جس سےثابت ہوتا ہے کہ قبضہ شرط نہیں ہےاسی طرح الروضۃ الندیہ ص165میں ہے:
‘‘ولاحجة لمن اشترط القبض في الهبة.’’ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب