السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته!
کیا زنا سے پیدا ہونے والی اولاد کا نسب باپ کی طرف ہو گا کہ نہیں کیا وہ اس کی میراث کا حق دار ہو گا کہ نہیں اور اس کی ماں سے نکاح ہو سکتا ہے کہ نہیں وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته! الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالالحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!!زانی مرد و عورت کی آپس میں شادی حرام ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿الزّانى لا يَنكِحُ إِلّا زانِيَةً أَو مُشرِكَةً وَالزّانِيَةُ لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ﴿٣﴾...سورةالنور’’بدکار مرد سوائے زانیہ یا مشرکہ عورت کے کسی (پاک باز عورت) سے نکاح نہیں کر سکتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا اور یہ (بدکار عورت سے نکاح کرنا) مومنوں پر حرام ہے‘‘۔ ہاں البتہ اگر وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی جناب میں خالص توبہ کر لیں‘ جو کچھ ہوا‘ اس پر ندامت کا اظہار کریں اور نیک عمل کریں تو پھر آپس میں شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں‘ جس طرح دوسرے مرد کیلئے اس عورت سے شادی کرنا جائز ہوگا اسی طرح اس کیلئے بھی اس صورت میں جائز ہوگا۔ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اولاد اپنی ماں کی طرف منسوب ہو گی۔ یہ اپنے باپ کی طرف منسوب نہیں ہوتی کیونکہ نبی ﷺ کے حسب ذیل ارشاد کے عموم کا یہی تقاضا ہے: «الولد للفراش وللهاهر الحجر»(صحيح البخاري)’’بچہ صاحب بستر کیلئے اور زانی کیلئے پتھر ہے‘‘۔ ’’عاہر‘‘ کے معنی زانی کے ہیں اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ یہ بچہ اس کا نہیں ہوگا خواہ وہ توبہ کے بعد اس عورت سے شادی بھی کر لے کیونکہ شادی سے پہلے زنا کے پانی سے پیدا ہونے والا بچہ اس کا نہیں ہوگا اور نہ وہ اس کا وارث ہوگا خواہ وہ یہ دعویٰ ہی کیوں نہ کرے کہ وہ اس کا بیٹا ہے کیونکہ یہ اس کا شرعی بیٹا نہیں ہے۔ ھذا ما عندی والله اعلم بالصوابمحدث فتویٰفتویٰ کمیٹی |