: کیافرماتے ہیں علماءکرام اس مسئلہ میں کہ مرحوم اللہ بچایونےمرض الموت میں اپنی زمین اپنے بھانجوں کوبطورفروخت کردی ریٹ(قیمت)بی طے ہوگیااور2000دوہزارروپےبطورایڈوانس بھی دیئےگئے۔اس وقت زمین کاریٹ زیادہ تھاجبکہ سودےمیں بہت کم لگایاگیااورخریدارکی مصروفیت اوربیچنےوالےکی بیماری کی شدت کی وجہ کھاتا(رجسٹری)منتقل ہونے سےرہ گیاابھی تک کسی قسم کی تحریرات بھی نہیں ہوئیں۔اباللہ بچایوفوت ہوگیااس کی بیوی نے دوہزارروپے سوتی(ایڈوانس)والےواپس کردیےبھانجوں نے واپس لےبھی لیے۔وضاحت درکارہے کہ شریعت محمدی کے مطابق اس زمین کا مالک کون ہے؟
معلوم ہوناچاہیےکہ مرحوم کامرض الموت میں یہ سوداکرناناجائزہےاس طرح سےوارث بعدمیں فقروفاقےکےاندرمبتلاہوکردوسروں کے آگےدست درازی کرنا،اس طرح آخری ایام میں مرحوم کے لیے ایساکرناغیرمناسب ہے۔کیونکہ مرض الموت کے وقت صدقہ وغیرہ کرنابھی ناجائزہےکیونکہ اس طرح کرنے سےپچھلےورثاءکوکچھ بھی نہیں ملےگااس لیے مرض الموت میں ہبہ اوروصیت بھی جائز نہیں ہے۔حدیث مبارکہ میں ہے:
‘‘سیدناعامربن سعداپنے باپ سےروایت کرتے ہیں کہ وہ مکہ میں بیمارہوئےاسی وقت ان کے ہاں رسول اکرمﷺتشریف لائے،جب سعدنے آپ کودیکھاتورونے لگےاورکہنے لگے کہ اےاللہ کے رسولﷺمیں مرتا ہوں اسی جگہ جہاں سےہجرت کرچکاتھاآپﷺنےفرمایا:ان شاءاللہ تعالی ایسانہیں ہوگااورکہاسعدنے کہ اے اللہ کے رسولﷺمیں وصیت کرتاہوں میراسارامال اللہ کی راہ میں دیاجائے آپ نےفرمایاسارےمال کی وصیت نہ کرپھرعرض کیادوتہائی اس مال کی پھرآپ نے فرمایانہ دوتہائی بھی نہیں۔پھرپوچھاآدھااس مال کاآپﷺنےفرمایاآدھابھی نہیں۔پھراس نےکہاتہائی مال آپﷺنےفرمایاتہائی مال میں وصیت کرکیونکہ تہائی بھی بہت ہے۔پھرآپﷺنےان کوفرمایاوارث تیرےپیچھےغنی اورآسودہ رہیں یہ بات اچھی ہےیاکہ محتاج اورلوگوں کے دست نگررہیں یہ بات اچھی ہے۔’’
حالانکہ شریعت محمدی کبھی بھی ورثاء کونقصان نہیں پہنچاسکتی جیساکہ حدیث مبارکہ میں ہے:
اسی طرح دوسری حدیث میں ہے: