سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

پوشیدہ صدقہ کرنے کی فضیلت

  • 14971
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4293

سوال

پوشیدہ صدقہ کرنے کی فضیلت
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته!

میں صدقہ کرتا ہوں اور اس کو چھپانا چاہتا ہوں۔الحمد للہ

لیکن جب کوی مجھ سے پوچھتا ہے تو میرا جواب نفی میں ہوتا ہے۔جیسے رشتہ داروں کی مدد کرنا۔

تو کیا یہ جھوٹ ہو گا؟


وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!!

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ اپنے سایہ میں سایہ عطا کرے گا۔ جس دن اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا ایک عادل بادشاہ، دوسرا وہ جوان جس کی پرورش اللہ کی عبادت میں ہوئی ہو، تیسرا وہ آدمی جس کا دل مساجد میں اٹکا ہوا ہو، چوتھے وہ دو آدمی جن کی دوستی اللہ کے لیے ہو اسی پر جمع ہوں اور اسی پر جدا ہوں پانچواں وہ آدمی جس کو کوئی نسب و جمال والی عورت بلائے (برائی کی طرف) تو وہ کہے میں اللہ سے ڈرتا ہوں، چھٹا وہ آدمی جو صدقہ اس طرح چھپا کر دیتا ہے کہ اس کے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے دینے کی خبر نہ ہو۔ سا تواں وہ آدمی جو خلوت میں اللہ کا ذکر کرے تو اس کی آ نکھیں بہہ پڑیں۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 2373 زکوۃ کا بیان : صدقہ چھپا کر دینے کی فضیلت کے بیان میں ۔

ایسا صدقہ اگر غلط جگہ بھی پہنچ جائے تو اللہ کے ہاں مقبول ہے :

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک آدمی نے کہا کہ آج رات ضرور صدقہ کروں گا ۔ وہ صدقہ کا مال لے کر نکلا۔ تو اس نے وہ صدقہ کا مال کسی زانیہ کے ہاتھ پر رکھا صبح ہوئی تو لوگوں میں چرچا ہوا کہ رات کو زانیہ کو صدقہ دیا تو اس نے کہا اے اللہ! تیرے ہی لئے زانیہ پر صدقہ دینے پر تعریف ہے، پھر اس نے صدقہ کا مال مالدار کے ہاتھ میں دے دیا لوگوں نے صبح کو باتیں کی کہ رات کو مالدار پر صدقہ دیا گیا۔تو اس نے کہا اے اللہ مالدار پر صدقہ پہنچا دینے میں تیری ہی تعریف ہے اس نے مزید صدقہ دینے کا ارادہ کیا اور صدقہ دینے کے لیے نکلا تو چور کے ہاتھ میں دے دیا صبح کو لوگوں نے چہ میگوئیاں کیں کہ رات کو چور پر صدقہ کیا گیا تو اس نے کہا اے اللہ زانیہ مالدار اور چور تک صدقہ پہنچا دینے میں تیرے ہی لیے تعریف ہے اس کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا کہ تیرے سب کے سب صدقات قبول کر لیے گئے زانیہ کو صدقہ اس لئے دلوایا گیا کہ شاید وہ آئندہ زنا سے باز رہے اور شاید کہ مالدار عبرت حاصل کرے اور اللہ نے جو اسے عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرے اور شاید کہ چور چوری کرنے سے باز آجائے۔

صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 2355 زکوۃ کا بیان : صدقہ اگرچہ فاسق و غیرہ کے ہاتھ پہنیچ جائے صدقہ دینے والے کو ثواب ملنے کے ثبوت کے بیان ۔

اس سے خالق کائنات کی رضامندی اور خوشنودی حاصل ہوتی ہے :

﴿وَالَّذينَ تَبَوَّءُو الدّارَ‌ وَالإيمـٰنَ مِن قَبلِهِم يُحِبّونَ مَن هاجَرَ‌ إِلَيهِم وَلا يَجِدونَ فى صُدورِ‌هِم حاجَةً مِمّا أوتوا وَيُؤثِر‌ونَ عَلىٰ أَنفُسِهِم وَلَو كانَ بِهِم خَصاصَةٌ ۚ وَمَن يوقَ شُحَّ نَفسِهِ فَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ﴿٩﴾... سورةالحشر

اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وه اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب (اور بامراد) ہے (9)

مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز تفسیر ''تیسیر القرآن '' میں لکھتے ہیں :

انہیں دنوں ایک انفرادی واقعہ بھی پیش آیا: جس میں ایک انصاری نے کمال ایثار کا ثبوت دیا تھا۔ محدثین اس واقعہ کو بھی اس آیت کی تفسیر میں لائے ہیں۔ اور وہ حدیث یوں ہے:

انصار کے ایثار کا ایک منفرد قصہ:۔''سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص ( ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ) آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: یارسول اللہ !''میں بہت بھوکا ہوں'' آپ نے اپنی بیویوں کے ہاں سے پتہ کرایا لیکن وہاں کچھ نہ نکلا۔ پھر آپ نے صحابہ کو کہا:''کوئی ہے جو اس رات اس شخص کی مہمانی کرے۔ اللہ اس پر رحم کرے'' ایک انصاری (ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ) نے کہا: یارسول اللہ ! میں اس کی مہمانی کروں گا اور اس شخص ( ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ) کو اپنے گھر لے گیا اور اپنی بیوی (ام سلیم رضی اللہ عنھا) سے کہا:''یہ شخص رسول اللہ کا (بھیجا ہوا) مہمان ہے لہذا جو چیز بھی موجود ہو اسے کھلاؤ'' وہ کہنے لگی: اللہ کی قسم! میرے پاس تو بمشکل بچوں کا کھانا ہے'' ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اچھا یوں کرو۔ بچے جب کھانا مانگنے لگیں تو انہیں سلا دو۔ اور جب ہم دونوں (میں اور مہمان) کھانا کھانے لگیں تو چراغ گل کر دینا۔ اس طرح ہم دونوں آج رات کچھ نہیں کھائیں گے'' (اور مہمان کھا لے گا) چنانچہ ام سلیم نے ایسا ہی کیا۔ صبح جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ فلاں مرد (ابوطلحہ رضی اللہ عنہ) اور فلاں عورت (ام سلیم رضی اللہ عنھا) پر اللہ عزوجل بہت خوش ہوا اور اسے ہنسی آگئی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔﴿وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ 59-الحشر:9) (بخاری۔ کتاب التفسیر

کوشش کریں کہ بتاتے وقت جھوٹ نہ بولیں خاموشی اختیار کر لیں اللہ آپ کے عمل میں برکت دے امین

هذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتویٰ کمیٹی

محدث فتویٰ


تبصرے