سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

غزوہ احد کی تفصیل اور پہاڑ احد کی فضیلت

  • 14967
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 30434

سوال

غزوہ احد کی تفصیل اور پہاڑ احد کی فضیلت
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته!

غزوہ اُحد کے متعلق مکمل تفصیل اور اُحد پہاڑ کی فضیلت میں جو احادیث ہیں وہ درکار ہیں


وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!!

غزوہ احد۔

جنگ احد 7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احدکے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔

غزوہ بدر میں مسلمانوں کو شاندار فتح ہوئی تھی۔ اس کے بعد علاقے کی قوتوں بشمول قریشِ مکہ اور یہودیوں کو اندازہ ہوا کہ اب مسلمان ایک معمولی قوت نہیں رہے۔ شکست کھانے کے بعد مشرکینِ مکہ نہایت غصے میں تھے اور نہ صرف اپنی بے عزتی کا بدلہ لینا چاہتے تھے بلکہ ان تجارتی راستوں پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتے تھے جن کی ناکہ بندی مسلمانوں نے غزوہ بدر کے بعد کر دی تھی۔ جنگ کے شعلے بھڑکانے میں ابوسفیان ، اس کی بیوی ہندہ اور ایک یہودی کعب الاشرف کے نام نمایاں ہیں۔ ہندہ نے اپنے گھر محفلیں شروع کر دیں جس میں اشعار کی صورت میں جنگ کی ترغیب دی جاتی تھی۔ ابو سفیان نے غزوہ احد سے کچھ پہلے مدینہ کے قریب ایک یہودی قبیلہ کے سردار کے پاس کچھ دن رہائش رکھی تاکہ مدینہ کے حالات سے مکمل آگاہی ہو سکے۔ ابوجہل غزوہ بدر میں مارا گیا تھا جس کے بعد قریش کی سرداری ابوسفیان کے پاس تھی جس کی قیادت میں مکہ کے دارالندوہ میں ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ جنگ کی تیاری کی جائے۔ اس مقصد کے لیے مال و دولت بھی اکٹھا کیا گیا۔ جنگ کی بھر پور تیاری کی گئی۔ 3000 سے کچھ زائد سپاہی جن میں سے سات سو زرہ پوش تھے تیار ہو گئے۔ ان کے ساتھ 200 گھوڑے اور 300 اونٹ بھی تیار کیے گئے۔ کچھ عورتیں بھی ساتھ گئیں جو اشعار پڑھ پڑھ کر مشرکین کو جوش دلاتی تھیں۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے یہ ارادہ کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبائے گی چنانچہ اس مقصد کے لیے اس نے حمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کے لیے اپنے ایک غلام کو خصوصی طور پر تیار کیا۔ بالآخر مارچ 625ء میں یہ فوج مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہو گئی۔

محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس نے ، جو مکہ ہی میں رہتے تھے، انہیں مشرکین کی اس سازش سے آگاہ کر دیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انصار و مہاجرین سے مشورہ کیا کہ شہر میں رہ کر دفاع کیا جائے یا باہر جا کر جنگ لڑی جائے۔ فیصلہ دوسری صورت میں ہوا یعنی باہر نکل کر جنگ لڑی جائے چنانچہ 6 شوال کو نمازِ جمعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب کو استقامت کی تلقین کی اور 1000 کی فوج کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہو گئے۔ اشواط کے مقام پر ایک منافق عبداللہ بن ابی 300 سواروں کے ساتھ جنگ سے علیحدہ ہو گیا اور بہانہ یہ بنایا کہ جنگ شہر کے اندر رہ کر لڑنے کا اس کا مشورہ نہیں مانا گیا۔ ہفتہ 7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) کو دونوں فوجیں احد کے دامن میں آمنے سامنے آ گئیں۔ احد کا پہاڑ مسلمانوں کی پشت پر تھا۔ وہاں ایک درہ پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عبداللہ بن جبیر کی قیادت میں پچاس تیر اندازوں کو مقرر کیا تاکہ دشمن اس راستے سے میدانِ جنگ میں نہ آ سکے۔

جنگ کا آغاز مشرکین کی طرف سے ہوا جب ابوعامر نے تیر اندازی کی۔ اس مرحلہ پر نو افراد مشرکین کی طرف سے آئے جو سب قتل ہوئے۔ دوسرے مرحلے میں مشرکینِ مکہ نے اکٹھا بھر پور حملہ کر دیا۔ اس دوران ان کی کچھ عورتیں ان کو اشعار سے اشتعال دلا رہی تھیں تاکہ وہ غزوہ بدر کی عبرتناک شکست کا داغ دھو سکیں۔ ابتداء کی زبردست جنگ میں مسلمانوں نے مشرکین کے کئی لوگوں کو قتل کیا جس پر مشرکین فرار ہونے لگے۔ مسلمان یہ سمجھے کہ وہ جنگ جیت گئے ہیں چنانچہ درہ عینین پر تعینات اصحاب نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ ہدائت فراموش کر دی کہ درہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا اور درہ چھوڑ کر میدان میں مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ صرف دس افراد درہ پر رہ گئے۔ خالد بن ولید (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کوہِ احد کا چکر لگا کر درہ پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں پر یکدم پیچھے سے وار کر دیا۔ اسی اثناء میں یہ افواہ گرم ہوئی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہید کر دئیے گئے ہیں۔ یہ سن کر اکثر اصحاب نے ہمت ہار دی اور راہِ فرار اختیار کی۔ کچھ لوگ میدان جنگ سے فرار ہو گئے اور تیسرے دن واپس آئے۔ کچھ ارد گرد کی پہاڑیوں پر چڑھ گئے اور افسوس کیا کہ وہ عبد اللہ بن ابی کے ساتھ کیوں نہ چلے گئے۔ کچھ لوگوں نے یہ سوچا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد زندگی کسی کام کی نہیں کچھ لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہ گئے اور ان کی بھر پور حفاظت کی۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی کرم اللہ وجہہ کو ایک تلوار بھی عنایت کی جو 'ذوالفقار' کے نام سے مشہور ہے۔ اس دوران حضور درود کے دانت شہید ہوئے۔ حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو گئے۔ اس بارے میں اللہ نے قران میں فرمایا۔

جب تم (افراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے پھر اس نے تمہیں غم پر غم دیا (یہ نصیحت و تربیت تھی) تاکہ تم اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن پڑی رنج نہ کرو، اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔

سورۃ آل عمران آیت 153

کچھ وقفے بعد اصحاب میدان میں واپس آنا شروع ہو گئے۔ چونکہ مشرکین اپنے بھاری سامانِ جنگ مثلاً زرہ بکتر کی وجہ سے احد کے پہاڑ پر چڑھ نہ سکے اس لیے کئی مسلمانوں کی جان بچ گئی۔ ابو سفیان کی بیوی ہندہ اور اس کے ساتھ کچھ لوگوں نے مسلمان شہداء کے ناک اور کان کاٹے اور ہندہ نے حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ نکال کر چبایا جس کا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بے حد رنج رہا۔ کچھ مسلمانوں کے واپس آنے اور یہ معلوم ہونے کے بعد کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہید نہیں ہوئے، مشرکین نے جنگ سے مکہ کی طرف واپسی اختیار کی۔

پہاڑ احد کی فضیلت۔

جبل احد یہ وہ مقدس پہاڑ ہے جس کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اُحد،یہ ایک شان والا پہاڑ ہے ،جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں-صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے:

«عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّه صلی الله علیه وسلم طَلَعَ لَه أُحُدٌ فَقَالَ : هذَا جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّه»

( صحیح بخاری شریف،کتاب المغازی، باب أحد یحبنا ونحبہ . حدیث نمبر:4084)

آپ نے سوال میں احد شریف کی فضیلت سے متعلق جو سوال کیا ہے اس کا ذکر احادیث کریمہ میں موجود ہے کہ احد ایک جنتی پہاڑ ہے،جیساکہ معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے:

«حَدَّثَنِی کَثِیرُ بن عَبْدِ اللَّه الْمُزَنِیُّ، عَنْ أَبِیه، عَنْ جَدِّہِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّه صَلَّی اللَّه عَلَیْه وَسَلَّمَ:أَرْبَعَة أَجْبَالٍ مِنْ أَجْبَالِ الْجَنَّة،۔۔۔ قِیلَ: فَمَا الأَجْبَالُ؟ قَالَ:أُحُدٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّه، جَبَلٌ مِنْ جِبَالِ الْجَنَّة، وَالطُّورُ جَبَلٌ مِنْ جِبَالِ الْجَنَّة، وَلِبْنَانُ جَبَلٌ مِنْ جِبَالِ الْجَنَّة»

- جامع الاحادیث والمراسیل، الجامع الکبیر للسیوطی اور کنز العمال میں حدیث مبارک ہے: أربعة أجبلٍ من جبالِ الجنة أحدٌ ونَجَبَة وطورٌ ولبنانُ-

ترجمہ:سیدنا عبد اللہ مزنی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد سے اوروہ آپ کے دادا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:چار پہاڑ جنتی ہیں،عرض کیا گیا وہ کونسے ہیں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا

(1)"احد" جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے ،وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔

(2) "طور"جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے۔

(3) "لبنان" جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے ۔اور

(4)"نَجَبَۃ" جنت کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے-

( معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر.13496:جامع الاحادیث والراسیل، حرف الہمزۃ، الہمزۃ مع الراء ، حدیث نمبر.3101:الجامع الکبیر للسیوطی، حرف الہمزۃ،ج1، حدیث نمبر.3397:کنز العمال ،فضل الحرمین والمسجد الأقصی، حدیث نمبر 35121:)

۳۳۶۱۔« حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيٰی عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ السَّاعِدِيِّ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوکَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ وَفِيهِ ثُمَّ أَقْبَلْنَا حَتّٰی قَدِمْنَا وَادِي الْقُرٰی فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي مُسْرِعٌ فَمَنْ شَاءَ مِنْکُمْ فَلْيُسْرِعْ مَعِي وَمَنْ شَاءَ فَلْيَمْکُثْ فَخَرَجْنَا حَتّٰی أَشْرَفْنَا عَلٰی الْمَدِينَةِ فَقَالَ هٰذِهٖ طَابَةُ وَهٰذَا أُحُدٌ وَهُوَ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهٗ » صحیح مسلم۔ جلد:۲/ دوسرا پارہ/ حدیث نمبر:۳۳۶۱/ حدیث مرفوع

۳۳۶۱۔ عبد اللہ بن مسلمہ، سلیمان بن بلال، عمرو بن یحیی، عباس بن سہل ساعدی، حضرت ابوحمید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزورہ تبوک میں نکلے اور باقی حدیث اسی طرح ہے جیسے گزر چکی اور اس حدیث میں ہے کہ پھر جب ہم واپس ہوئے یہاں تک کہ ہم وادی قری میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں جلدی میں ہوں اور تم میں سے جو چاہے تو وہ میرے ساتھ جلد چلے اور جو ٹھہرنا چاہتا ہے تو وہ ٹھہر جائے تو ہم نکلے یہاں تک کہ جب ہم مدینہ کے قریب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ طابہ ہے اور یہ احد ہے اور یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔

۳۳۶۲« حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللہِ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ قَتَادَةَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أُحُدًا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهٗ » صحیح مسلم۔ جلد:۲/ دوسرا پارہ/ حدیث نمبر:۳۳۶۲/ حدیث متواتر مرفوع

۳۳۶۲۔ عبید اللہ بن معاذ، قرہ بن خالد، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔

۳۳۶۳« و حَدَّثَنِيهِ عُبَيْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ حَدَّثَنِي حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ حَدَّثَنَا قُرَّةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ نَظَرَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلٰی أُحُدٍ فَقَالَ إِنَّ أُحُدًا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهٗ »

صحیح مسلم۔ جلد:۲/ دوسرا پارہ/ حدیث نمبر:۳۳۶۳/ حدیث متواتر مرفوع

۳۳۶۳۔ عبید اللہ بن عمر، عمارہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احد پہاڑ کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔

هذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتویٰ کمیٹی

محدث فتویٰ


تبصرے