السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتة!
قرآن عربى زبان میں ہی کیوں نازل ہوا جبکہ اس وقت دیگر زبانیں پائی جاتی تھیں؟ وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتة! الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالالحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!!اہل جنت کی زبان عربی ہونے کی وجہ سے گویا وہی انسان کی اصلی زبان کہی جاسکتی ہے اور اس لیے وحی کے لیے بھی یہی زبان پسند کی گئی؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے دنیا میں عربی زبان کے علاوہ دوسری زبانیں بھی پیدا فرمائی ہیں تاکہ ہر انسان بہ سہولت اپنے مافی الضمیر کو ادا کرسکے اور اسی وجہ سے ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے ان کی اپنی قوم کی زبان میں مبعوث فرمایا - ﴿وَما أَرسَلنا مِن رَسولٍ إِلّا بِلِسانِ قَومِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُم...﴿٤﴾... سورةابراهيمتاکہ وہ پیغام خداوندی جس کا نزول ان پر عربی زبان میں ہوتا ہے،اس کی ترجمانی اور توضیح اپنی قوم کے سامنے ان کی مادری زبان میں فرماتے رہیں؛ چنانچہ «عَنْ سُفیانَ مَا نزَل مِنَ السَّمَاءِ وَحْيٌ الاَّ بِالعربیةِ وَکَانَتْ الأنْبِیَاءُ علیهمُ السلامُ تُتَرْجِمُه لِقَوْمِهمْ بِلِسَانِهمْ»(۳) سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ وحی تو عربی زبان میں ہی نازل ہوئی پھر ہر نبی نے اپنی قوم کی زبان میں اس وحی کی ترجمانی فرمائی۔ برخلاف قرآن مجید کے کہ وہ جس زبان میں نازل ہوا وہی نبی علیہ الصلاة والسلام اور قوم کی مادری زبان اور تمام انسانوں کی فطری اور اخروی زبان تھی؛ اس لیے قرآن جس طرح نازل ہوتا تھا، بعینہ اسی طرح قوم کے سامنے پیش کردیا جاتا اوراسی طرح زبانی وتحریری طور پر محفوظ کرلیا جاتا تھا۔ هذا ما عندی والله اعلم بالصوابفتویٰ کمیٹیمحدث فتویٰ |