سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(172)مرحوم کے ورثاء میں تین بیٹیاں، ایک بیوی اور ایک بھائی میں تقسیم وراثت

  • 14959
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 870

سوال

(172)مرحوم کے ورثاء میں تین بیٹیاں، ایک بیوی اور ایک بھائی میں تقسیم وراثت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

:(1):کیافرماتے ہیں علماءکرام بیچ اس مسئلہ کے کہ بنام قاضی مصطفی فوت ہوگیا جس نے وارث چھوڑے تین بیٹیاں ایک بیوی۔ایک بھائی فیض النبی۔

(2)......فوت ہونے والے نے اپنے ہاتھ سے ایک ورق پرتحریرکیاکہ میری ساری جائیدادکی مالک میری تین بیٹیاں ہیں۔آپ ہمیں یہ بتائیں کہ شریعت محمدی کے مطابق یہ

جائیدادکس طرح تقسیم ہوگی نیزصرف بیٹیوں کے نام ہبہ نامہ صحیح ہے یا نہیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

معلوم ہوناچاہیےکہ فوت ہونے والے کی ملکیت سےاس کے کفن دفن کاخرچ کیاجائےاس کے بعداگرمیت پرفرض ہے تواسےاداکیاجائےاس کےبعداگرمیت نے وصیت کی ہےتوکل مال کےتیسرے حصے تک کی وصیت کوپوراکیاجائےاس کے بعد فوت ہونے والے کی کل جائیدادکوایک روپیہ قراردےکریوں تقسیم کی جائے گی۔

فوت ہونےوالےغلام مصطفی کی کل ملکیت ایک روپیہ(منقولہ خواہ غیرمنقولہ)

وارث:بیوی کو2آنے3بیٹیوں کومشترکہ طورپر10آنے8پیسے،بھائی فیض محمدکو4پیسےملیں گے۔اللہ تعالی کافرمان ہے:﴿فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَ‌كَ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾حدیث مبارکہ میں ہے: ((الحقواالفرائض بأهلهافمابقى فلأولى رجل ذكر.)) (بخاری ومسلم)

باقی رہی بات ہبہ نامے کی تووہ جائز نہیں جیساکہ حدیث میں ہے:

((لاوصية للوارث.)) مسنداحمدج٤،ص1٨٦،رقم الحديث: ١٧٦٨٠.جامع ترمذى’كتاب الوصايا’بان ماجاءلاوصية لوارث’رقم الحديث:٢٠ ٢١-ابن ماجه’الوصايا’باب لالوارث’رقم الحديث:٢٧١٢.

باقی ہبہ کی ہوئی ملکیت ابھی تک لڑکیوں نے قبضہ میں بھی نہیں لی اورکھاتے وغیرہ بھی نہیں ہوئےمالک فوت بھی ہوگیاہے تواس صورت میں وصیت ہوگی ہبہ نہیں ہوسکتی جیساکہ اوپرحدیث گزری ہےکہ وارث کے لیے وصیت نہیں ہوسکتی۔

موجودہ اعشاری  فيصدنظام میں یوں تقسیم ہوگا

100روپے

بیوی8/1/12.5

8بیٹیاں3/2/66.66

1بھائی عصبہ20.84

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 570

محدث فتویٰ

تبصرے