کیافرماتے ہیں علماءکرام بیچ اس مسئلہ کے کہ حسن علی فوت ہوااورورثاءمیں4بھتیجے10بھتیجیاں ایک بھانجہ چھوڑااورفوت ہونے والے نے مرتے وقت ساری ملکیت کی وصیت صرف ایک بھتیجےکےنام پرکی۔وضاحت فرمائیں؟
معلوم ہوناچاہیےکہ فوت ہونے والے نے جوملکیت چھوڑی ہےسب سےپہلے اس میں سےفوت ہونے والے کے کفن دفن کاخرچہ کیا جائے،دوسرے
نمبرپراگرمیت پرقرض تھاتواسےاداکیاجائے،تیسرےنمبرپراگرمیت نے کسی کے لیےوصیت کی تھی توکل مال کےتیسرے حصے تک وصیت پوری کی جائے۔مگرمذکورہ صورت میں بھتیجے کےنام کی جانے والی وصیت کوادانہیں کیاجائے گاکیونکہ بھتیجامیت کاوارث ہےاوروارث کے لیےوصیت جائز نہیں ہے ۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آپﷺنے فرمایا:((لاوصية لوارث.)) (مسنداحمدج٤،ص٨٦،رقم: ١٧٦٨٠.)
یعنی وارث كے لیے وصیت کرناجائز نہیں ہے۔لہذااس قاعدے کے مطابق بھتیجےکوکی جانے والی وصیت میں سےبھتیجےکوکچھ بھی نہیں دیاجائے گا۔
اس کےبعدفوت ہونے والے کی ساری ملکیت کوایک روپیہ قراردےکرمذکورہ ورثاء میں ترکہ اس طرح تقسیم کیاجائے گا۔
چاروں بھتیجوں کو ملکیت میں سے ہرایک کوچارچارآنے دیےجائیں گےباقی میت کی دس بھتیجیاں اوربھانجہ محروم ہوں گے اس لیے ان کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔
موجودہ اعشاری فيصدنظام میں یوں ہوگا
100
4بھتیجے عصبہ100 ہربھتیجے کو25،25
10بھتیجیاں محروم
بھانجا محروم