سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(157)اگر مرحوم کی پانچ بیٹیاں ہوی تو تقسیم وراثت؟

  • 14944
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1301

سوال

(157)اگر مرحوم کی پانچ بیٹیاں ہوی تو تقسیم وراثت؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ حاجی عبدالحق فوت ہوگئےاورورثاءچھوڑے 5بیٹیاں،مرحوم عبدالحق نے اپنی زندگی میں 3بیٹیوں کوزمین اورسونابرابر برابردیا،باقی دوبیٹیاں رہ گئی ان کومکان ہبہ کردیاجس پران تینوں بیٹیوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا،اس واقعہ کوتقریبا3سال گزرگئے۔اس کے بعددونوں بیٹیوں نے اپنامکان فیض محمد کوفروخت کردیااورقبضہ بھی فیض محمد کودےدیا۔اس وقت سےفیض محمد اس جگہ پررہتا ہے۔اس پران تینوں بچیوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا،اس مکان کوفروخت کیے ہوئے تقریبا10سال گزرچکے ہیں،اب تینوں میں سےایک کہتی ہے کہ مجھے اس مکان  میں سے حصہ ملے،وضاحت کریں کہ شریعت محمدی کےمطابق اس لڑکی کوحصہ ملےگایا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

معلوم ہوناچاہیےکہ یہ ہبہ اورتقسیم جائز ہے۔تین بیٹیوں میں بھی ملکیت برابرتقسیم ہوئی باقی جوجگہ(مکان)رہاتھا،ان دوبیٹیوں کوتقسیم کردی یہ تقسیم برابرہے۔اس لیے مکان کی مالکان دوبیٹیاں ہی ہیں،یہ ہبہ صحیح ہے اوریہ دوبیٹیاں اس مکان کوفروخت کرسکتی ہیں چونکہ عرصہ 10سال سےاس پرکوئی اعتراض نہ ہوااورقبضہ بھی فیض محمدکےپاس تھا۔

حدیث میں ہے کہ :

((عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم العائدفى هبته كالكلب يقئى ثم يعودفى قيئه.)) صحيح البخاري:كتاب الهبة وفضلهاوالتحريض عليهنا’باب نمبر٣٠-صحيح مسلم’كتاب الهبات’باب نمبر٢.

‘‘ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:ہبہ کی ہوئی  چیزمیں لوٹنے والااس کتے کی طرح ہے جوقے کردیتا ہے پھراس قے کوواپس لے لیتا ہے۔’’

نیزفرمایا:

 ((عن ابن عمروبن عباس رضى الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم  قال لايحل للرجل أن يعطى العطية ثم يرجع فيهاإلاوالدفيمايعطى ولد.)) رواه احمدج١’ص٢٣٧’رقم:٢١٢٣.
‘‘ابن عمراورابن عباس رضی اللہ عنہمارسول اللہﷺسےبیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایاکہ کسی آدمی کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ کسی کوعطیہ دےاورپھراس کوواپس لےلےسوائے والدکے وہ اپنے بیٹے کےعطیہ میں ایساکرسکتا ہے۔’’
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 555

محدث فتویٰ

تبصرے