سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(146)تقلید کا حکم

  • 14932
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2160

سوال

(146)تقلید کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ چاراماموں کی تقلید کرنا فرض یا واجب ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تقلیداہل اصول نے جومعنی کی ہے وہ یہ ہے کہ کسی کی بات کوبغیردلیل کےلےلینااوراس کی اتباع کرنایہ تقلیدکہلاتی ہے۔یہ واجب وفرض توکیاجائز بھی نہیں ہے۔اللہ تعالی سورۃ الاعراف میں فرماتے ہیں:

﴿اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّ‌بِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُ‌ونَ﴾ (الاعراف:٣)

‘‘اس کی تابعداری کروجوتمہارے رب کی طرف سےتمہاری طرف نازل ہواہےاس کےعلاوہ جودوسروں سےآیاہے۔اس کی تابعداری مت کرو۔’’

اورظاہرہے کہ رب العزت کی طرف سےنازل ہونے والی چیزکتاب اللہ یعنی اللہ کی کتاب یانبیﷺکی حدیث ہے جس کووحی خفی کہاجاتا ہے ،اللہ تعالی سورہ قیامہ میں فرماتے ہیں:

﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُۥ﴾ (القيامة:١٩)

‘‘اورقرآن كابيان كرنابهي ہماری ذمہ داری ہے۔’’

اورسورۃ النحل میں فرماتے ہیں:

﴿وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ (النحل:٤٤)

‘‘اورہم نے یہ قرآن یادین تمہاری طرف اس لیےنازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیےبیان کریں جوان کی طرف نازل کیاگیاہے۔’’

اس آیت کریمہ سےمعلوم ہواکہ قرآن کریم یادین قویم کی تبیین یاتشریح اورتفسیرووضاحت نبیﷺکےحوالے کی گئی ہے اب ان دونوں آیات کوملانے سےیہ صاف نتیجہ نکلتا ہےکہ نبی کریمﷺنے جوکچھ قرآن کےمتعلق بیان یاشرح فرمائی ہےوہ بھی اللہ تعالی کی طرف سےنازل شدہ ہے اس لیے﴿اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّ‌بِّكُمْ﴾میں قرآن کریم کےساتھ ساتھ حدیث بھی شامل ہے۔بہرحال اس ابتدائی آیت کریمہ میں ہمیں یہ اشارہ کیاگیا  ہے کہ اللہ اوررسول کے ارشادات عالیہ کے علاوہ کسی اورکی اتباع  نہیں کرنی‘‘اولوالامر’’یعنی حاکم یاایل علم کی اتباع کاحکم صرف اس وقت تک ہےجب تک ان کاکام یاطریقہ کتاب وسنت کے برخلاف نہ ہو،اگران کاکوئی امریاقول وفعل کتاب وسنت کےبرخلاف ہے توان کی اتباع ہرگزہوگزجائزنہیں ہوگی جس طرح مشہورحدیث ہے:

((لاطاعة لمخلوق فى معصية الخالق.)) مسنداحمد جلد٥،صفحه٦٦،رقم الحديث: ٢٠٦٨٠

‘‘یعنی جس بات میں اللہ تعالی کی نافرمانی ہواورمخلوق کی فرمانبرداری ہوتواس کی اتباع جائز نہیں ہے۔’’

اورظاہر ہے کہ اللہ کےرسول کی نافرمانی یہ اللہ کی نافرمانی ہوگی جس طرح اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿وَمَن يَعْصِ ٱللَّهَ وَرَ‌سُولَهُۥ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَـٰلًا مُّبِينًا﴾ (الأحزاب:٣٦)

‘‘جس آدمی نے اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی گمراہی میں ہے۔’’

بہرحال کسی امتی کی اگرچہ وہ علم وفضل کی چوٹی پرفائز ہوتا بعداری اس وقت تک ہےجب تک اس کاقول یافعل اللہ اوراس کے رسول کے ارشادات سےٹکرانے والانہ ہواگراس کاکوئی بھی عمل یااشادکتاب وسنت کی تعلیمات کےبرخلاف ہوگ توکسی بھی صورت میں اس کی تابعدارجائزنہیں ہوگی جتنے بھی بلندپایہ کے ائمہ گذرے ہیں ان سب کے اقوال ان کےمتبعین کی ہی کتابوں میں ملتے ہیں جن میں انہوں نے وضاحت کے ساتھ تاکیدفرمائی ہےکہ اگران کی کوئی بات کتاب وسنت کےمتضادہوتواس کوترک کردواوریہ بھی بات ہے کہ ہرآدمی کی کوئی بات لی جائے گی توکسی بات کوچھوڑاجائے گاماسوائے آپﷺکی ہستی کےجن کی ہربات کی لازمااتباع کرنی ہوگی کیونکہ دوسرے مجتہدین سےصحیح باتیں بھی صادرہوئی ہیں توکن کن باتوں میں ان سےغلطیاں بھی ہوئی ہیں خصوصا جب چندعلمائے کرام کےدرمیان کسی مسئلہ پراختلاف ہوتواس صورت میں کسی کی بھی اتباع نہیں کی جائے گی بلکہ ان تمام کے اقوال کو کتاب وسنت کی کسوٹی پرپرکھاجائے گا،پھرجوبات قرآن وسنت کےموافق ہوگی اس کوقبول کیاجائے گااورجس بات میں قرآن وسنت کی موافقت ہوگی اس کوترک کیاجائے گاجس طرح اللہ تعالی قرآن کریم کے اندرارشادفرماتے ہیں کہ:

﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُ‌دُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّ‌سُولِ﴾ (النساء:٥٩)

‘‘اوراگرتم کسی بات پراختلاف کروتواس پورے معاملے کواللہ اوراس کےرسولﷺکی طرف لوٹاو۔’’

تقلیدکےمفاسد:

(1):......مقلداپنی خدادادصلاحیتوں اورعلمی استعدادکوبالکل کھوبیٹھتاہےجس کی وجہ سےکہ اس کے ذہن پریہ خیال بیٹھ جاتاہےکہ اس پرصرف یہ فرض ہے کہ وہ کسی نہ کسی ذریعہ سےوہ علم حاصل کرلےکہ اس کے امام نے اس مسئلہ کے متعلق اس کو یوں حکم دیاہے اس علم حاصل کرنے کے بعداس پردوسراکوئی فریضہ نہیں ہےاوراس کافرض صرف یہ ہے کہ وہ اپنےامام کے قول پرعمل کرےاوربس!اس لیے ایساآدمی علم رکھنے کے باوجودکتاب وسنت کےنصوص اوراللہ اوراس کے رسولﷺکےارشادات عالیہ میں غوروفکرکرنااورتدبروتفکرسےکا لیناترک کردیتا ہےاوراپنے امام کے اقوال میں غوروفکرکرکےمسائل کااستخراج واستنباط ضروری سمجھے گا،اس لیے وہ اپنی علمی لیاقت کوبالکل بیکاربنادیتا ہےاللہ تعالی نے جولیاقتیں اورصلاحیتیں انسان کوعطافرمائی ہیں۔جب انسان ان سےکام لیناچھوڑدیتا ہے تووہ رفتہ رفتہ بیکارہوجاتی ہیں اللہ تعالی نےانسان کودل ،آنکھیں اورکان اس لیے دیئےہیں کہ وہ ان سےکام لےکرحق کوسمجھ سکےاورپوری طرح عمل پیراہوسکےلیکن اگروہ اپنے دل سےحق کےبارے میں نہیں سوچتاآنکھوں سےحق بات نہیں دیکھتااورکانوں سےبھی حق بات سننے کےلیےتیارنہیں رہتاتوایک وقت ایساآئے گاکہ اس کے یہ سوچنے سمجھنے والے اعضاء بالکل بیکاراورناکارہ بن جائیں گےپھرایسے آدمی کے لیے حق کی راہیں  بندہوجاتی ہیں۔

(2)......اس قسم کی بےدلیل تقلید کامطلب یہ ہوگاکہ مقلداپنے مقلدکوگویانبوت کامنصب دےرہا ہےجب کہ نبی تواللہ تعالی کی طرف مبعوث ہوتا ہے اس کی ہرایک بات بجائے خودایک دلیل ہوتی ہے اس لیے نبی کے فرمان ملنے کے بعدکسی امتی کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ اس پیغمبرسےحکم کی دلیل مانگےبلکہ اس کاتوحکم ہی خوددلیل ہے کیونکہ وہ اللہ تعالی کاپیغام لےکرآیاہےلہذااگرکسی امتی کےبارے میں بھی یہی عقیدہ رکھاجائے یاذہن میں یہ خیال ڈالاجائے کہ اس کی ہربات بغیردلیل کے ہمارے اوپرواجب اورلازم ہے اورہمیں اس کی لازمااتباع کرنی ہے تواس کامطلب یہ ہواکہ گویاہم نے ایک امتی کونبوت کےمنصب پرفائزکردیا۔

(3)......مقلد حضرات کا طرزعمل ایسے تناقض کاموجب ہے جس کا حل آج تک ان کی طرف سے پیش نہیں ہوسکا ہے،یعنی ایک طرف وہ اپنے آپ کو مقلدین کہلواتے ہیں جس کامطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے امام کے بنادلیل متبع ہیں کیونکہ اہل اصول کے یہاں تقلیدکےمعنی ہی یہی ہیں کہ‘‘اخذقول الغيربغيرحجة’’یعنی کسی دوسرے کی بات کو بغیردلیل کےلینااوراس کوحجت بناکراتباع کرنااوردوسری طرف یہی حضرات اپنے اختلافی مسائل میں کتاب وسنت سے بھی  دلائل لیتے رہتے ہیں ظاہرہے  کہ جب ان حضرات کے پاس اپنےمسائل کے متعلق دلائل بھی ہیں جووہ وقتافوقتاپیش کرتے رہتے ہیں توپھروہ غیرمقلد ہوئےکیونکہ دلیل اورتحقیق یہ تقلیدکے بالکل منافی ہے اگرکوئی مقلدہے تواس کو دلیل پیش کرنےکاکوئی حق نہیں ہےاگروہ پیش کرتا ہے تووہ محقق اورغیرمقلدہواگویاان حضرات نے دومتضادچیزوں کوایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی ہےلیکن عقل والے اس بات پرمتفق ہیں کہ دونقیض ایک ہی وقت اورایک ہی جگہ جمع نہیں ہوسکتے مگریہ حضرات اپنے طرزعمل سےیہ تاثردے رہے ہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں مقلد بھی ہیں توغیرمقلد بھی یعنی جب وہ دلیل پیش کرتے ہیں تواس وقت غیرمقلدبن جاتے ہیں۔اورپھرکہتے ہیں کہ ہم مقلد ہیں یہ تودونقیضوں کاجمع کرناہواجوکہ محال ہے۔

(4)......ایک عالم جوقرآن کی تفسیراورحدیث وفقہ کےدرس وعربیت کے دوسرے علم کوپڑھانےاورحدیث وغیرہ کی کتابوں کی شروعات وحواشی لکھنے کے باوجودجب اپنےآپ کومقلدکہلاتا ہے تویہ دوسرے الفاظ میں گویااللہ رب العزت کی  نعمت کا انکارکرناہوامقلد کی معنی کسی دلیل کے بغیرکسی کے پیچھےپڑنااورایساکرنے والاجاہل ہوتا ہے پھراتنے سارےعلم رکھنے کے باوجوداپنے آپ کو مقلدیعنی جاہل کہلوانااللہ تعالی کی نعمت کے انکارکےمترادف ہے اللہ  تعالی فرماتے ہیں:

﴿وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَ‌بِّكَ فَحَدِّث﴾ (الضحى:١١)

‘‘یعنی اللہ کی نعمت کوواضح کرکے بیان کر۔’’

مگریہ حضرات اتنی بڑی نعمت کےاظہارکےبجائے اپنے آپ کوجاہل کہنے پر پتہ نہیں کیوں مصرہیں۔ان کایہ حال ہے کہ جب ان کو دلیل پرنظرپڑنے کے بعدیقینی علم حاصل ہوجاتا ہے کہ اس مسئلہ میں ان کامئوقف کمزورہےجس کا وہ کلی طورپراعتراف بھی کرتے ہیں کہ اس مسئلہ میں ہمارے مخالف کامئوقف صحیح اورراجح ہے لیکن اس کے باوجودیہ کہنے سےنہیں ڈرتے کہ مئوقف اگرچہ مخالف کادرست ہے لیکن ہم چونکہ مقلد ہیں اس لیے ہمیں اس بات پرعمل کرنا ہے۔درج ذیل ہم اس کے دومثال پیش کرتے ہیں:

((فالحاصل ان المسئلة الخيارمن مهمات المسائل وخالف ابوحنيفة فيه الجمهوروكثيرمن الناس من المتقدمين والمتاخرين وصنفوارسائل في ترديدمذهبه في هذه المسئلة رجح مولاناشاه ولي الله المحدث دهلوي قدس سره في رسائل مذهب الشافعي من حجة الاحاديث والنصوص وكذالك قال شيخنامدظله بترجح مذهبه قال الحق والانصاف وان الترجيح للشافعي في هذه المسئلة ونحن مقلدون يحبرعليناتقليدامامناابي حنيفة رحمه الله اعلم التقريرالترمذي:صفحه٦٥٠للشيخ الهند محمودالحسن رحمه الله  نص تميل الي قول المخالف في مسئلة السب لكن اتباعناللمذهب واجب.)) البحرالرائق:ص١٢٥’ج٥فصل في الجزية.

اگرجاہل ان پڑھ سوال کرےکہ وہ  کیاکرےتوکچھ عالم کہتے ہیں کہ قرآن میں یہ نہیں ہے کہ:

﴿فَسْـَٔلُوٓا۟ أَهْلَ ٱلذِّكْرِ‌ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُون﴾ (النحل:٤٣)

‘‘کہ اگرتمہیں علم نہیں ہے توعلم والوں سےپوچھو۔’’

تواس سےتقلیدثابت ہوتی ہےتواس کاکیاجواب ہے؟تواس کاجواب یہ ہےکہ یہاں پراللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایاکہ تم کسی کی تقلید کروبلکہ فرمایاکہ علم والوں سےپوچھو،سوال کرواوراس پوچھنے کامطلب یہ ہے کہ وہ پوچھنے والاکسی عالم سےاس طرح دریافت کرےکہ اس مسئلہ میں اللہ اوراس کےرسولﷺکاکیافرمان ہے۔اس عمل کے بارے میں اللہ کےرسولﷺکاکیانمونہ ہےاس طرح تونہیں پوچھنا کہ اس مسئلہ کے بارے میں فلاں عالم کاکیا مسلک ہےکیونکہ دینی مسائل میں اتباع صرف اللہ کے دین کی کرنی ہے جس کا مبلغ ومبین رسول اللہﷺکی ہستی ہیں۔ان باتوں میں ان کےعلاوہ کسی اورکےاتباع نہیں کی جائے گی ہاں صرف اس صورت میں ہوسکتی ہےجب اس کے  فتوے یابتائے ہوئے مسئلہ پرکتاب وسنت سےصریح دلیل لائی گئی ہویاکتاب وسنت کے نصوص میں سےمستنبط اورمستخرج ہو۔باقی اگرکوئی دلیل نہ صریح ہے اورنہ ہی مستنبط توایسی صورت میں اس کی اتباع جائز نہیں ہوگی چنانچہ امام ابوحنیفہ خودفرماتے ہیں کہ اس آدمی پرہمارے قول کے مطابق فتوی دیناحرام ہے جس کوہمارے قول کی دلیل کا علم  نہ ہو،ظاہرہے کہ کسی عالم یاامام کی بتائی ہوئی فتوی یامسئلہ کی ہمیں دلیل معلوم ہوجائے تواس صورت میں اتباع اس دلیل کی ہوئی نہ کہ امام کی ذاتی رائے کی لہذایہ تقلیدنہ رہی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 530

محدث فتویٰ

تبصرے