سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(136) لفظ مولانا کا استعمال

  • 14922
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1292

سوال

(136) لفظ مولانا کا استعمال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک مولوی صاحب نے سورۃ بقرۃ کی آخری آیت پڑھی:

﴿أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿٢٨٦﴾...البقرة
اوراستدلال کیا کہ مولاناکہلواناجائز نہیں ہےکیایہ صحیح ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 

سورۃ مسئولہ میں مولاناکہلواناجاجائزنہیں بلکہ جائز ہے۔باقی آیت کامذکورہ سےمستعمل کااستدلال لینادرست نہیں کیونکہ مولاناکالفظ مشترکہ لفظ ہے جس کے بہت سےمعنی ہیں لہذایہ لفظ بہت سےمعنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

((وفى النهاية المولى يقع على جماعة كثيرة كالرب والمالك’والسيدوالمنعم والمعتق والناصر’والمحب والتابع والجاروابن العم والحليف والمقيدوالمهروالعبدوالمنعم عليه.))

اس کامطلب ہے کہ یہ لفظ ایک ہی ہے جوسیداورعبدپراستعمال کیاجاتا ہے۔

اس لفظ کو غیراللہ کے لیے استعمال کیا گیا ہے:

((عن زيدبن ارقم عن النبى صلى الله عليه وسلم قال من كنت مولاه فعلى مولاه.)) سنن ترمذى،كتاب المناقب،رقم الحديث:٣٧١٣۔

دیکھیں ایک  ہی لفظ دونوں اشخاص پرایک ہی وقت میں اورایک ہی معنی میں استعمال کیاگیاہےجب کہ رسول اللہﷺنےاس لفظ کواللہ کے علاوہ غیراللہ پراستعمال فرمایاہےاس لیےمعلوم ہواکہ مولاناکالفظ اللہ کے علاوہ کسی اورکے لیے بھی استعمال کرناجائز ہے،اگرناجائزہوتاتورسول اللہﷺکیسے غیراللہ کے لیے استعمال فرماتے،اسی طرح ایک اورحدیث میں بھی جوصحیح بخاری کی حدیث ہے مزیددلیل کےطورپرپیش کی جاتی ہے:

 

 ((عن ابى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال لايقل أحدكم أطعم ربك وضى ربك وليقل سيدى مولاى.))صحيح البخارى’كتاب العتق’:رقم الحديث:٢٥٥٢.
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 512

محدث فتویٰ

تبصرے