سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(101)لڑکی کی رضامندی

  • 14886
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1986

سوال

(101)لڑکی کی رضامندی
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اکثرممالک میں یہ مروج ہے کہ کسی بالغہ لڑکی کی شادی پانچ چھ سال کےنابالغ لڑکے کے  ساتھ کردی جاتی ہے اوراس لڑکی سے اس کے متعلق کچھ بھی پوچھانہیں جاتا۔بالآخروہ لڑکی یاتوخودکشی کاارتکاب کربیٹھتی ہے یا چھپ چھپاکربدکاری کی مرتکب ہوتی ہے ،کیا مذکورہ فعل(یعنی رشتہ داروں کالڑکی کانابالغ لڑکے کےساتھ اس کی اجازت ومرضی کے بغیر نکاح کرنا شریعت اسلامی کی نظر میں جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ کام سراسرظلم اورناانصافی ہے اورجاہلیت کے زمانہ کی یادہےاسلامی شریعت کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اسلام سےپہلے عرب کے جہال میں اس طرح کے ظلم ہواکرتے تھے اوراس طرح کی جاہلیت کی رسوم ورواج چلتی رہتی تھیں عورتوں کوذرہ برابرعزت واحترام حاصل نہ تھا بلکہ انہیں جانوروں سےبھی کم ترسمجھا جاتا تھا انہیں بولنےکی بھی اجازت نہ ہوتی تھی۔

گویاانہیں انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا مگراسلام کے آنے کے بعد ان کی حالت بتدریج سدھرنے لگی اوراللہ تعالی نے انہیں انسانی صف میں جگہ دی بلکہ انہیں انسانی زندگی نصف  قراردیاگیااورقرآن حکیم نے اعلان کیا کہ :

﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُ‌وفِ...... ﴾ (البقرة:٢٢٨)

‘‘یعنی جس طرح ان کے اوپرمردوں کے حقوق ہیں اسی طرح مردوں پران کے حقوق ہیں۔’’

اس آیت کریمہ نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی ان کے حقوق دلوائے اورقرآن  کریم میں کئی مقامات پرعورتوں کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے  ان کے حقوق اداکرنے اوران کے ساتھ ناانصافی نہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے اورجناب

رسول اکرمﷺنےبھی اس سلسلہ میں کافی اصلاحی اقدام اٹھائے نکاح کے سلسلہ میں آپﷺکاارشادگرامی ہے کہ:

‘‘ورثاء کی مرضی کے ساتھ ساتھ جس عورت کا نکاح کیا جائے اس کی اذن واجازت ورضاء معلوم کی جائے۔’’

آپﷺنےفرمایا کہ:

‘‘ہرعورت سے ا س کی اذن معلوم کرنا ضروری ہے ،یعنی(کنواری ہویا بیوہ باقی آپ نے فرمایا کہ بیوہ کو توزبان کے ساتھ اپنی رضابتانی ہے اوراگرکنواری ہے تواس کی خاموشی ہی اجازت ہے۔’’

بہرحال کنواری سے پوچھنا بھی ضروری ہےاوراگرپوچھنے پرانکارکردےتواس کا نکاح ہرگزہرگزنہیں ہوگا۔خواہ اس کے  والدین کی رضا بھی ہوتب بھی نکاح نہیں ہوگا۔ایک حدیث شریف میں ہے کہ ایک عورت رسول اکرمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اورآکرعرض کیاکہ میرے والد نے میرانکاح ایسے شخص سےکروایاہےجس کے ساتھ نکاح کرنے میں میں راضی نہیں ہوں بلکہ اسےناپسندکرتی ہوں اس کی یہ بات سن کرآپﷺنے ارشادفرمایااگرتویہ نکاح برقراررکھنا نہیں چاہتی توتوآزادہوسکتی ہے اس پر اس عورت نے کہا اب جب میرے والد نے یہ کام کردیا ہے تومیں بھی اسےبرقراررکھتی ہوں لیکن مجھے دیکھنا یہ تھا کہ عورتوں کوبھی کچھ حق حاصل ہے یا نہیں؟

بہرحال اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ اگرعورت راضی نہیں تووہ نکاح ہی باطل ہے،اگرچہ وہ نکاح والد ہی کیوں نہ کروائے ۔بہرحال یہ رواج قطعاغلط ہے اورعورت پرشدیدظلم وجبربھی ہے اورعورت کی رضا کے بغیر اس طرح کانکاح قطعاباطل ہے۔لہذا ایسے ظلم کو بیک قلم وزبان بندکرناچاہئےشریعت اسلامیہ ایسے مظالم کی ہرگزاجازت نہیں دیتی یہ جاہلیت کی رسوم ہیں جن سے مسلمانوں کو اجتناب کرنا چاہئے ورنہ اس کے بہت برے نتائج نکلیں گےان کے ذمے داربھی یہی لوگ ہوں گے اوراللہ کے نزدیک ان کابہت سخت مئواخذہ ومحاسبہ ہوگا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 443

محدث فتویٰ

تبصرے