سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(81)مانع الزکوۃ کی نماز

  • 14866
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1785

سوال

(81)مانع الزکوۃ کی نماز
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زکوۃ ادانہ کرنے والے کی نمازقبول نہیں۔(حدیث مبارکہ)بے نمازی کاکوئی عمل قبول نہیں۔(حدیث مبارکہ)کی مکمل وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سائل کی یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ سوال کی ابتدامیں حدیث کے نام سے چندالفاظ کاترجمہ کرکےلکھتا چلاجاتاہےلیکن اس حدیث کا کوئی حوالہ لکھنے کی ضرورت ہی محسو س نہیں  کرتایہ طریقہ کارصحیح نہیں توحیدکے متعلق سوال میں بھی موصوف نے یہ طرزعمل اختیارکیاتھالیکن وہ حدیث چونکہ مشہورتھی اورصحیحین وغیرہماکتب حدیث میں موجودہے۔لہذااس کا جواب تواپنے ناقص علم کے مطابق عرض کردیالیکن اس سوال میں حدیث کے جوالفاظ ذکرکیےگئےہیں ان الفاظ سے مروی احادیث مجھے یاد نہیں کہ کس کتاب میں مروی ہیں۔اگرکتب احادیث کے دفاترکی چھان بین کرتے ہیں تواس کے لیے کافی وقت درکارہےاورنیتجہ کا یقین نہیں کہ کیا نکلتاہے۔لہذا سائل پر لازم تھا کہ ان الفاظ سےمروی کی روایات متعلق کسی حدیث کی کتاب کا حوالہ درج کرتا۔تاہم سائل نے ان احادیث کی بناءپرجوسوال واردکیا ہے اس کے متعلق میں ذیل میں ذراتفصیل سےاپنی گزارشات پیش کرناچاہتا ہوں ۔کیونکہ اس ضروری تفصیل کے بغیرمسئلہ واضح  نہیں ہوگا۔وبالله التوفيق وھو منعم الرفيق!

اس بات میں ذراشک نہیں کہ نماز اورزکوۃ ایمان کے اہم اجزاء ہیں اوراسلام کےنہایت عظیم رکن ہیں۔

دلیل نمبر1:......

﴿فَإِذَا ٱنسَلَخَ ٱلْأَشْهُرُ‌ ٱلْحُرُ‌مُ فَٱقْتُلُوا۟ ٱلْمُشْرِ‌كِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَٱحْصُرُ‌وهُمْ وَٱقْعُدُوا۟ لَهُمْ كُلَّ مَرْ‌صَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا۟ وَأَقَامُوا۟ ٱلصَّلَو‌ٰةَ وَءَاتَوُا۟ ٱلزَّكَو‌ٰةَ فَخَلُّوا۟ سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ‌ۭ رَّ‌حِيمٌ ﴾ (التوبة:٥)

‘‘جب حرمت والے مہینے گزرجائیں تومشرکین کو جہاں پاوقتل کردواورانہیں پکڑواوران کاگھیراوکرواورہرگھات میں بیٹھ جاوپھراگروہ شرک سےتوبہ کریں اورنمازقائم کریں اورزکوۃ اداکریں توانہیں چھوڑدو۔’’

اس آیت سے معلوم ہوا کہ شرک سے توبہ ثابت ہونے کے علاوہ نمازکی اقامت اورزکوۃ کی ادائیگی نہایت ضروری ہے تب جاکرمشرکین کی جان بخشی ہوگی اوراس سورۃ میں آیت نمبر11میں یہ الفاظ ہیں:

﴿فَإِن تَابُوا۟ وَأَقَامُوا۟ ٱلصَّلَو‌ٰةَ وَءَاتَوُا۟ ٱلزَّكَو‌ٰةَ فَإِخْوَ‌ٰنُكُمْ فِى ٱلدِّينِ﴾ (التوبة:١١)

‘‘یعنی اگریہ مشرکین شرک سے تائب ہوجائیں اورنماز قائم کریں اورزکوۃ اداکریں تووہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔’’

اس آیت کریمہ نے صاف ظاہرکردیا کہ شرک سے توبہ کرنے کے بعد جب تک نمازقائم نہ کریں اورزکوۃ ادانہ کریں تب تک اسلامی اخوت میں داخل نہیں ہوسکتے۔

سورۃ النساء102میں صلاۃ الخوف کی ترتیب سمجھائی گئی ہے ،یعنی جنگ اورخوف کی حالت میں بھی نماز ترک نہیں کرنی البتہ اس کا خاص طریقہ وترتیب سمجھایاگیا اورآخرمیں ارشادفرمایاکہ:

﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا﴾ (النساء: ١٠٣)

‘‘بے شک مومنین پرنمازمقررہ وقت پر اداکرنافرض ہے۔’’

سورۃ البقرۃ239میں ارشادربانی تعالی ہے:

﴿فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِ‌جَالًا أَوْ رُ‌كْبَانًا﴾ (البقرة:٢٣٩)

‘‘اگرتم حالت خوف میں ہویاپیدل ہویاسوارہوتب بھی نمازاداکرو۔’’

یعنی ایسی تشویشناک حالت میں بھی ترک نماز کی اجازت نہیں۔سخت بیمارہے توبیٹھ کرپڑھے بیٹھ کرنہیں پڑھ سکتا تولیٹ کراشاروں سے پڑھے۔نماز کی اہمیت اس سے بھی معلوم ہوتی ہےکفارکوجہنم کے عذاب کے لیے کفرہی کافی  ہے ۔تاہم انہیں ترک نماز کا عذاب بھی ہوگا۔

جس طرح سورۃ المدثرمیں ہے کہ اہل جنت جہنمیوں سےپوچھیں گے کہ تم لوگوں کو جہنم میں کس چیز نے داخل کیا؟وہ جواباکہیں گے:

﴿قَالُوا۟ لَمْ نَكُ مِنَ ٱلْمُصَلِّينَ﴾ (المدثر:٤٣)

‘‘ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے۔’’

یقینا زکوۃ بھی نماز کی طرح فرض ہے نمازبدنی عبادت ہے اورزکوۃ مالی عبادت ہےاس کا منکربھی کافرومشرک ہے۔سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ نےمانعین زکوۃ سےقتال کیا قرآن کریم اورصحیح احادیث مبارکہ میں مانعین زکوۃ کے متعلق کتنی ہی سخت وعیدیں واردہوئی ہیں جن کا ذکرطوالت کاسبب ہے ۔تاہم نماز اورزکوۃ میں بہت فرق ہے۔زکوۃ صرف صاحب نصاب پر ہے جونصاب کا مالک نہیں اس پر نہیں اورفرض بھی سال میں صرف ایک مرتبہ ہے،لیکن نمازہرایک پرفرض ہے ۔امیرہویاغریب  ہوں،بادشاہ ہو،یارعیت ،مرہویاعورت ہوبیمارہویاتندرست ہوسفرمیں ہویاحضر میں ہرایک پرہردن ورات پانچ وقت فرض ہے دنیامیں مسلمان کی علامت بھی یہی ہے کیونکہ زکوۃ ہر کسی پر فرض نہیں۔

لہذا جوباقاعدہ نمازپڑھتا ہووہ مسلما ن ومومن ہے اورجوتارک نماز ہےوہ ہماری  اسلامی برادری سے(قرآن کریم کی مذکورہ بالانص کے مطابق)خارج ہے ۔اس لیے کہ ایمان ایک ایسی چیز ہے جو دل سے تعلق رکھتی ہے اوراس پر اللہ تعالی کے علاوہ کوئی دوسری مخلوق اطلاع نہیں پاسکتی ۔لہذا ایمان اورسچے اسلام کی ظاہری علامت یہی نمازرکھی گئی ہے۔اسی طرح اگرنمازی ہوگا توقبرمیں بھی اسے نمازیادآئےگی اورمنکر ونکیرسےکہے گامجھے چھوڑدومیں نماز پڑھتا ہوں   یعنی یہ ایمان کی علامت قبرمیں بھی قائم رہے گی اسی طرح تیسری اورآخری منزل آخرت میں بھی اسی نماز اوروضو کی وجہ سے اس کے اعضاء وضو کے نورسےچمک رہے ہوں گےاوریہی نبی کریمﷺکے امتی ہونے کی نشانی ہوگی اوردیگرامتوں میں یہ نشانی نہ ہوگی ۔پھر جوکوئی شخص تارک نماز ہے ،اس کے لیے اس طرح کا کوئی امتیازوعلامت نہ ہوگی۔

(جس طرح مسند احمد وغیرہ میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے)اس کا حشر قارون،فرعون،ہامان اورابی بن ابی خلف کے ساتھ  ہوگااوریہ بھی صحیح حدیث میں ورادہے کہ جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی اس نے کفرکیااس کے الفاظ اس طرح ہیں:

((من ترك صلاة متعمدافقدكفر.)) (اتحاف:٣_ ١۰)

یہ مشہورحدیث ہے تاہم ان سب باتوں کے باوجوداگرکوئی شخص نمازکی فرضیت پرایمان رکھتا ہے اس کی فرضیت کا انکارنہیں کرتااس بارے میں علماء کرام میں اختلاف ہے،تاہم تمام مکتب فکرکے محققین  ایسے شخص کے متعلق (جوکفرکااطلاق ہوا ہے)اس کے متعلق ان کہنا ہے کہ یہ کفر مخرج عن الملۃ نہیں ۔راقم الحروف بھی اسی زمرہ میں شامل ہے۔

(1):......جس طرح اعمال صالحہ ایمان کے اجزاء ہیں اسی طرح اعمال فاسدہ (گناہ)کفرکےاجزاء ہیں،نماز بھی اعمال کے باب میں داخل ہے اوریہ ایمان کا اہم جزہےاس کاترک گناہ کبیرہ ہے اوریہ کفرکے اجزاءمیں سے ایک سنگین جزہےبسااوقات کسی چیز کے اہم جن پر کل کا اطلاق کیا جاتا ہے اوریہ صرف عربی زبان میں نہیں بلکہ ہر زبان میں مستعمل  ہے ۔مثلاکسی انسان ،گھوڑے یا گدھے وغیرہ کے صرف سرکودیکھ کرہم کہا کرتے ہیں کہ یہ آدمی ہے اوریہ گھوڑاہے یہ گدھاہے حالانکہ انسان صرف سرکانام نہیں بلکہ اس کے ساتھ دیگرکئی عضوہیں جن کے مجموعہ کو انسان کہا جاتا ہے ۔لیکن سرایک ایسااہم عضویاجزہے جس کےمقابلے میں دیگر عضووجزاتنے اہم نہیں ،اس لیے صرف سرپرکل،انسان ،گھوڑے ،گدھے کااطلاق کیا گیا ہے لیکن اگرکسی انسان کی ٹانگ یا بازودیکھ کراس طرح نہیں کہا جاتاکہ یہ انسان ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کی ٹانگ یابازو ہے ۔اس سے معلوم ہواکہ ایک چیز کےنہایت اہم جزپرکل کااطلاق اہل زبان کے ہاں معروف ہے۔

(2):......اسی طرح کسی شخص وغیرہ میں کسی حیوان وغیرہ کے ساتھ کسی خاص صفت میں مشابہت باتم وجوہ موجودہوتی ہے تواس صفت مشابہت کومدنظررکھ کراس پر اس حیوان وغیرہ کااطلاق کیا جاتا ہے ۔مثلاکہا جائے کہ :‘‘زيداسد(زیدشیرہے)ظاہرہے کہ زید شیر کےساتھ ظاہری جسمانی ساخت وبناوٹ کے لحاظ سےہرگزمشابہ نہیں لیکن شیر کی شجاعت عام  طورپرمشہورہےاس لیے زید پر اس کی اسی صفت کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے اسد(شیر)کااطلاق کیاگیا اسی طرح کسی کندذہن یا بے وقوف شخص کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ توکوئی گدھاہے اس میں بھی یہی حقیقت ہے کہ حمار(گدھا)کی صفت کے ساتھ آدمی کو مشابہہ قراردےکراسےگدھاکہاگیاہے۔حالانکہ ان اطلاقات کےباوجودکوئی بھی عقلمندآدمی یہ نہیں کہےگاکہ واقعتاوہ آدمی شیر(پھاڑنے والاجانور)یاحقیقی طورپرگدھاہے۔

(3):......کفرکااطلاق شریعت میں کفران نعمت (ناشکری)پربھی ہواہے۔مثلاصحیح بخاری میں وغیرہ ہے کہ نبی کریمﷺنے عورتوں سےفرمایاکہ مجھے دیکھنے میں آیا ہے کہ تم اکثرجہنم کی آگ میں ہوانہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺکس بناپر؟آپﷺنے فرمایا:‘‘تكفرن’’تم کفرکرتی ہوانہوں نے پھردریافت کیا اللہ تعالی کے ساتھ کفرکرتی ہیں؟آپﷺنے فرمایا:شوہروں کی ناشکری کرتی ہو۔شوہرہمیشہ عورت سےبہترطریقے سےپیش آئے گالیکن کبھی اتفاقاکوئی بات اس کی مرضی کے خلاف کربیٹھایااس کاکہانہ مانا تووہ کہے گی تونے میرے ساتھ کبھی بھی احسان نہیں کیا۔

بہرحال کفرکااطلاق ناشکری پربھی ہواہے۔اسی طرح قرآن کریم میں بھی متعددمقامات پر ‘‘كفرياكفور’’وغیرہ الفاظ ناشکری کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔اسی طرح کفرکااطلاق کفرمخرج عن الملۃ سےکم درجے پر بھی ہوا ہے ۔ایسی احادیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے‘‘كفردون كفر’’کاباب منعقدفرمایاہے۔

مثلاصحیح حدیث میں واردہواہے کہ:

((سباب المسلم فسوق وقتاله كفر.)) صحيح البخارى:كتاب الايمان’رقم الحديث:٤٨.

 ‘‘مسلمان کو برابھلاکہنافسق ہےاوراس سے قتال کرناکفرہے۔’’

حالانکہ قرآن کریم سورۃ الحجرات میں ہے کہ:

﴿وَإِن طَآئِفَتَانِ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱقْتَتَلُوا۟ فَأَصْلِحُوا۟ بَيْنَهُمَا﴾ (الحجرات:٩)

‘‘اگرمومنین کی دوجماعتیں آپس میں قتال کریں توان دونوں میں صلح کرادو۔’’

یعنی مسلمان مسلمان کے ساتھ قتال کرنے کےلیے تلوارلے کرنکلاہے لیکن تب بھی اللہ تعالی اسے مومن کہتاہے،پھرحدیث شریف میں اس پر جوکفرکا اطلاق ہوا ہے وہ اس لیے کہ

یہ قتال بہت بڑاگناہ ہے اورکفرکے اجزاء میں سے ایک اہم جزہےکہ اس کی اہمیت وسنگینیت کےلحاظ سےجزپرکل کااطلاق ہوا۔یعنی ایک مسلمان کے ساتھ قتال کافرہی کرسکتا ہے مومن کبھی بھی ایسی جرات نہیں کرے گا۔

لہذاجب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مارنے کے یے تیارہواہے تواس نے کفارکے ساتھ مشابہت اختیارکی پھرجب کندذہن انسان کوگدھاکہاگیا اسی طرح کفارکے ساتھ مشابہت اختیارکرنے والے پرکفرکااطلاق ہوا۔کہا جاتاہے کہ فلاں گدھابن گیا ہے۔اس کا مطلب کوئی یہ بھی اخذ نہیں کرتاکہ اس شخص نے واقعتا گدھے کی شکل اختیار کرلی ہےبلکہ ہر  کوئی یہی سمجھتا ہے کہ وہ آدمی بالکل بے وقوف اورکندذہن بن گیا ہے۔

اسی لیے جوتارک نماز ہے اس نے چونکہ ایک نہایت سنگین جرم میں کفارکے ساتھ مشابہت اختیارکی ہے لہذا اس کے متعلق کہاگیا ہے کہ وہ کافرہوگیا ہے ۔اس طرح محققین علماء بے نمازی کی نمازجنازہ پڑھنے کے قائل نہیں یہ بھی اسی لیے کہ اس نے  نہایت سنگین جرم کیا ہے اس جرم کی پاداش میں بطورسزااس کی نمازجنازہ نہیں پڑھی جائے گی اوراس طرح کاطرزعمل دیگرلوگوں کے لیے تنبیہ اورعبرت کاباعث ہے،آپﷺتومال غنیمت میں سے کوئی تقسیم سے پہلے کچھ چراتاتھااس کی نماز جنازہ بھی ادانہیں فرماتے تھے اوراس طرح آپﷺنے مقروض کی نماز جنازہ بھی ادانہیں فرمائی۔حالانکہ مقروض یامال غنیمت میں خیانت کرنے والاکافرنہیں ہے۔ہاں البتہ کبیرہ گناہ کامرتکب ہواہےاسی طرح خودکشی کرنے والے پربھی آپ نے نمازجنازہ ادانہیں فرمائی۔

حالانکہ صحیح مسلم کی ایک حدیث سےمعلوم ہوتاہے کہ وہ کافرنہیں ہوا۔صحیح مسلم میں ایساغلام جواپنے آقاسےبھاگ نکلے اسےبھی کافرکہاگیا لیکن وہاں پربھی عبدآبق پرکفرکااطلاق محض مبالغہ کے طورپرہواہےلیکن اس سے مرادکفرمخرج عن الملۃ نہیں بلکہ کفردون کفرمرادہے۔

اس طرح کی دیگر امثلہ تلاش کرنے سے مل سکتی ہیں۔اب ہم ایسے کچھ مثبت دلائل پیش کرتے ہیں جن سے معلوم ہوگا کہ تارک نماز(بشرطیکہ وہ اس کی فرضیت پرایمان رکھتا ہو)ایساکافرنہیں کہ وہاصلادین اسلام سےخارج ہوجائے یادیگرمشرکین یاکفارکی طرح ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےابوداود،نسائی اورترمذی میں ایک روایت مروی  ہے جس کےمتعلق محقق العصرعلامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ (شاہ صاحب  کا یہ فتوی اس وقت کاتحریرکردہ ہے جس وقت علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ زندہ تھے جب کہ اب تودونوں بزرگ علامہ البانی اورحضرت شاہ صاحب اللہ کوپیارے ہوگئےرحمہم اللہ وادخلهماالجنة الفردوس:محمدي)مشکوۃ شریف کی تعلیقات میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔اسی طرح امام احمدرحمۃ اللہ علیہ کی مسندمیں اورالمستدرک حاکم میں بھی رجل من اصحاب النبیﷺسےروایت ہے اس کی سند بھی صحیح ہے۔

اس  میں ہے کہ صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا رسولﷺکوفرماتے ہوئےسناآپ نے فرمایاکہ قیامت کے دن بندے کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کاحساب ہوگاپھراگرنماز کاعمل درست نکلاتووہ کامیاب ہوگیااورناجی ہوا۔اوراگرنمازمیں فسادہوااورکمی ہوئی تووہ خائب اورخاسر ہوگا پھراگرفرض میں کسی کی کمی نکلے گی تورب تعالی فرمائے گادیکھواگرمیرے بندے کی کوئی نفلی نمازہے تواس کے ذریعے اس کی فرض کی تکمیل کردو۔اسی طرح اس بندے کے باقی دیگراعمال کے ساتھ بھی یہی طرزعمل اختیارکیاجائے گا،یعنی اگرفرائض میں کچھ کمی ہوگی تووہ نوافل کے ذریعے مکمل کردیے جائیں گے۔’’

کسی روایت میں یہ تصریح ہے کہ نماز کے بعدزکوۃ اورپھر دیگر اعمال کے متعلق اسی طرح طرزعمل اختیارکیاجائے گایہ بات بالکل ظاہراورعیاں ہے کہ اگرتارک نمازکاکفرمخرج عن الملۃ ہوتوپھر(ایک کافراورمشرک)جس کے کچھ نیک اعمال ہوں مثلا سخاوت ،یتیموں کاخیال رکھنا،صلہ رحمی وغیرہ وغیرہ تووہ اس کے شرک وکفرکے نقصان کو پوراکرسکتے ہیں؟ہرگزنہیں پھر اگرتارک نماز کے نقصان کے تکمیل نوافل کے ذریعے کی جائے گی توپھر معلوم ہوا کہ ترک نماز سےایساکافرنہیں ہواکہ اصلا ملت اسلامیہ سےخارج ہوجائے بلکہ ایک کبیرہ وسنگین گناہ کامرتکب ہواہے۔

لہذا اللہ تعالی اپنی مشیت سےچاہے اسےسزادےیاپھرمعاف کردے۔البتہ ایسےبےنمازشخص سےہم دنیامیں مسلموں کاسابرتاوکریں گے کیونکہ اس دنیا میں ایک مسلمان کی  یہ بہت بڑی علامت ہے کہ وہ نمازی ہوتا ہے ۔اگرنمازی نہیں ہےتواسلامی برادری سے(بنص قرآنی)خارج ہے یہ اس لیے کہ وہ آدمی نماز کی فرضیت کا اگرچہ قائل بھی ہولیکن ہمیں کیسے معلوم ہوگا؟کیونکہ ایمان ویقین تودل میں ہواکرتے ہیں اوردل اورنیت وارادےپراطلاع تواللہ تعالی کے علاوہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں،لہذا ہمارے نزدیک اس کےاندرونی ایمان کے متعلق علم کے حصول کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے ہم اسے اپنا مسلمان بھائی نہیں سمجھیں گے۔

باقی اللہ سبحانہ و تعالی  توجانتا ہے یہ بندہ نماز کی فرضیت کامنکرہے اورمنکرنہیں لیکن سستی اورغفلت کے سبب اس کے ترک کا مرتکب ہواہے،لہذاقیامت کے دن اس کا فیصلہ اللہ تعالی اپنے عمل کے  مطابق فرمائے گا۔

صحیحین وغیرہ کتب احادیث میں کتنی ہی ایسی احادیث واردہوئی ہیں جن کا مطلب ہےکہ بالآخراللہ تبارک وتعالی ایسے اشخاص کوبھی جہنم سےنکال دے گاجن کا کوئی بھی نیک عمل  نہ ہوگاصرف وہ کلمہ ‘‘لا الہ الا اللہ’’پرکاربندہوں گےیعنی وہ موحدہوں گے اورشرک جیسے بدترین گناہ سےبے زارہوں گے۔(توحید وشرک کی مکمل وضاحت سوال نمبر1کے جواب میں گزرچکی ہے ۔)ان احادیث مبارکہ سےمعلوم ہوتا ہے کہ تارک نماز ترک نماز کی وجہ سےایسا مشرک یا کافر نہیں بن گیاجوملت اسلامیہ سےدنیاوآخرت میں خارج ہوگیا ہو۔

اگریہ بات واقعتا اسی طرح ہے توپھربالآخراس کا جہنم سےنکلنے کاکیا مطلب ہے؟کیاحقیقی معنی میں کافرومشرک بھی بالآخرجہنم سےنکال کرجنت میں داخل کردیےجائیں گے؟باقی سائل صاحب نے(اس سوال میں)جن نیک اعمال کاتذکرہ کیا ہے اس کے متعلق گزارش ہے کہ آخرت کے معاملات یا فیصلہ جات یااعمال کی جزاوسزاکے متعلق دنیاوی معیاروپیمانہ وغیرہ سےہرگزکام نہ لیں وہاں اعمال کا وزن کیسے ہوگاان کی صحت کا صحیح معیارکیاہوگااس کےمتعلق کچھ کہنانہایت ہی مشکل امرہےکیونکہ یہ غیب کے معاملات ہیں جن تک ہماری پہنچ نہیں ہوسکتی ان پر صرف ایمان رکھنا ہے ہاں یہ ہم قطعی طورپرجانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی کسی کے ساتھ بھی ذرہ برابرظلم وزیادتی نہیں فرمائے گا

﴿إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ ۖ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَـٰعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرً‌ا عَظِيمًا﴾ (النساء: ٤٠)

یعنی اللہ تعالی ذرہ برابربھی ظلم نہیں کرتا۔

﴿وَنَضَعُ ٱلْمَوَ‌ٰزِينَ ٱلْقِسْطَ لِيَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْـًٔا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْ‌دَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَـٰسِبِينَ﴾ (الانبياء: ٤٧)

‘‘قیامت کے دن ہم انصاف کا میزان قائم کریں گے پھر کسی کے ساتھ ظلم نہیں کیا جائے گااگرکسی کا عمل رائی کے دانے کے برابرہوگاوہ  بھی لاکرحاضر کردیں گے اورہم حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔’’

﴿فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ خَيْرً‌ۭا يَرَ‌هُۥ ﴿٧﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ شَرًّ‌ۭا يَرَ‌هُۥ﴾ (الزلزال: ٧’٨)

‘‘جس نے ذرہ برابربھی نیک کام کیا ہوگاوہ اسےدیکھ لےگااورجس نے ذرہ برابربرائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔’’

لیکن اعمال کادارومدارنیتوں پرہے۔مثلاایک شخص کا عمل ایسا بہترین اوراچھاہے کہ اس کی جزاجنت کےعلاوہ ہوہی نہیں سکتی۔مثلا اللہ سبحانہ وتعالی کی راہ میں جہادکرکےشہیدہوجانالیکن اگراس شخص کے قتال وجہادمیں شرکت کرنےاورکفارسےمقابلہ کرنے کی نیت یہ نہ تھی کہ اللہ تعالی راضی ہوجائے یا‘‘لتكون كلمة الله هي العليا’’کےلیےبھی نہ لڑابلکہ اس کی نیت یہ تھی کہ دنیا میں میری شجاعت ،جرات وبہادری مشہورہوجائے تویہ شخص صحیح احادیث کے مطابق شہادت کے باوجودجہنم میں داخل کردیاجائے گا۔

دوسری طرف اگرکسی آدمی کا کوئی نیک عمل ہے لیکن خوداس عامل کے نزدیک ا س کی کوئی اہمیت نہیں مگراس کی نیت میں اخلاص اورسچائی ہے اوروہ کام صرف اللہ سبحانہ وتعالی کی رضا کی خاطراورشوق ورغبت کے ساتھ کرتا ہے جواللہ تعالی کی ذات بابرکات کو ایسا پسندآجاتا ہے کہ وہ صرف اسی ایک عمل یازبردست اوعتقادی جزبہ کے سبب بہت ہی بلند درجات پرفائز ہوجاتاہےبلکہ بعض لوگوں کے توسارے کے سارے گناہ صرف اس ایک نیکی کی وجہ  سے بیست ونابودوختم ہوجاتے ہیں۔

صحیحین میں سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ سیدناوامامنارسول اللہﷺنے ارشادفرمایا:

‘‘ایک شخص تھا جس نے کوئی بھی نیکی کاکام اصلانہ کیا تھا،پھرجب اس کی موت کاوقت قریب آیاتواس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ اگرمیں فوت ہوجاوں تومیری لاش کو  جلاکرآدھی راکھ دریاوں میں پھینک دینا اورآدھی کو خشکی پرچھوڑدینا(کیونکہ)اگراللہ سبحانہ وتعالی نے مجھ پرگرفت کی تواللہ تعالی مجھے ایسا عذاب کرےگاجوعذاب تمام جہانوں میں سے کسی کوبھی نہ کرےگا۔اورجب وہ مرگیاتواس کی اولادنے اس کے ساتھ ویسا ہی کیاجواس نے انہیں کہاتھاپھراللہ تعالی نے دریاکوحکم دیااس نے اس کی راکھ کاحصہ ایک جگہ جمع کردیا اورخشکی کوبھی حکم فرمایااس نے بھی وہ  حصہ ایک جگہ اکٹھاکردیا۔(پھراللہ نے اس کواپنےسامنے کھڑاکرکے ارشادفرمایاکہ تونے اپنے ساتھ یہ معاملہ کیوں کروایاتھا،اس نے کہا اے رب تیرے خوف کی وجہ سے جس کو توہی بہتر جانتا ہے اس کی وجہ سے اللہ تعالی نے اسے معاف کردیا۔’’

اس صحیح حدیث سےمعلوم ہواکہ اگرچہ بظاہراسےاپناکوئی نیک عمل نظرنہیں آرہاتھابلکہ وہ اپنے اعمال سےناامیدتھالیکن اس کے دل میں جو اللہ تعالی کا خوف موجزن تھا جس کا اندازہ اہل دنیا کواوراس کی اولادکو بھی نہ تھا۔لیکن اللہ تعالی کومکمل طورپرمعلوم تھاکہ اس میرے بندے کے دل میں میراکتنا خوف ہے اس لیے اپنے علم کے مطابق اوراپنے خاص فضل  وکرم سےاسےمعاف کردیا۔حالانکہ اس کا کوئی بھی نیک عمل نہ تھا۔

اسی طرح ترمذی شریف اورابن ماجہ میں صحیح سندکے ساتھ سیدناعبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:کہ بےشک اللہ تعالی تمام امتوں کے سامنے قیامت کےدن میری امت میں سے ایک شخص کو جہنم کی آگ سے بچائے گااس شخص کے سامنے اس کے اعمال کے ننانوے دفترجوانسان کی حدنگاہ کے برابربڑے ہوں گے کھولے جائیں گے۔(یعنی جن میں اس کی برائیاں ہوں گی اس کی کوئی نیکی موجودنہ ہوگی۔)اسے کہاجائے گاکہ تجھےجوکچھ ان دفاترمیں ہے اس سےانکارہے؟کیامیرےلکھنے والوں نے تجھ سےظلم کیا ہے؟وہ کہے گاکہ اے میرے رب نہیں،دوبارہ پوچھاجائے گاکہ ان اعمال(برائیوں)کےلیےتیرےپاس کوئی عذرہے؟وہ کہے گااللہ نہیں؟پھراللہ سبحانہ  وتعالی فرمائے گاہاں تیری ایک نیکی ہمارے پاس ہے بے شک آج تیرے ساتھ  کوئی  ظلم نہ ہوگا،پھرکاغذکاایک ٹکڑاترازوکےایک طرف رکھاجائے گااورننانوےدفتردوسرےحصے میں پھرننانوےدفترہلکے پڑجائیں گےاوروہ کاغذکاٹکڑاوزنی ہوجائے گاپھراللہ تعالی کے اسم مبارک کے مقابلے میں کوئی چیز وزنی نہیں ہوگی۔’’

اس صحیح حدیث سےمعلوم ہواکہ وہ آدمی اللہ تعالی کی توحیداورمحمدﷺکی رسالت پرپختہ ایمان ویقین  رکھتا تھااورشہادتیں پراسےمکمل استقامت تھی اوراس کااظہاراس نےایسےاخلاص اورسچائی کے جذبےکے ساتھ کیا کہ صرف یہ ایک ایمانی قوت اس کے نناوے دفاترپروزنی ہوگئی اوران کو لاشئی محض بنادیااوراس کی یہ ایمانی قوت ترازومیں وزنی ہوگئی۔

بہرحال قیامت کے دن کا معاملہ اس طرح ہے:

﴿يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْـًٔا ۖ وَٱلْأَمْرُ‌ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ﴾ (الانفطار:١٩)

‘‘اس دن(قیامت کے دن)کوئی شخص کسی کے لیےکسی چیز کا مالک نہ ہوگابلکہ سارامعاملہ اللہ تعالی کے سپردہوگا۔’’

اوراللہ تعالی اپنے مقررکیےہوئے معیارعدل وانصاف اورفضل وکرم کے مطابق فیصلہ فرمائے گا ممکن ہے کہ کسی بندے کے کئی سنگین جرم ہوں لیکن اللہ تعالی کے ہاں اس کی کوئی ایسی نیکی بھی ہوجواس کے تمام جرائم کوختم کرکے اسےمغفرت سےنوازےیااس کی کوئی نیکی نہ ہوالیکن اس کی ایمانی قوت اوراخلاص کا جذبہ اتنا قوی ہوکہ اس کی تمام برائیوں کو محض لاشئی بنادے۔لیکن  یہ سب کچھ اللہ سبحانہ وتعالی کی مشیت اورعلم کے مطابق ہی ہوگااس کے برعکس یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے سنگین گناہ مثلا ترک نمازیاعدم ادائیگی زکوۃ وغیرہمااتنے پراثراورغالب ہوں کہ کسی طرح بھی اس کی کچھ عذاب وعتاب سےنجات نہ ہوپائے تواسےجہنم میں اللہ سبحانہ وتعالی کے نزدیک مقرروقت تک عذاب بھگتناپڑےگا۔

پھراس کے بعداللہ تعالی اپنے فضل وکرم سےاس کی مغفرت کرکے جنت میں داخل فرمادےگا۔بشرطیکہ وہ ان فرائض یا حرام وغیرہاکا منکرنہ ہولیکن اللہ سبحانہ وتعالی کے فضل عظیم اورلطف عمیم کے باوجودکوئی کہہ سکتا ہے کہ اسےوہ لطف وکرم ضروربالضرورقیامت کےدن حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ شخص اللہ سبحانہ وتعالی کے ان بندوں کی لسٹ میں شامل ہی نہ ہوجن کے متعلق ازل سےہی فیصلہ نجات ہوچکاہوبلکہ اس کا شماران مجرموں کی لسٹ میں ہوجن کی نجات بالکل ہی نہ ہوگی یا کچھ عذاب وعقاب جزاوسزاکے بھگتنے کے بعدنجات حاصل ہوگی ۔ابتداء وہ اس مہربانی سےمحروم رہ جائے۔

لہذا اللہ سبحانہ وتعالی کے خوف سے ہرسچے مومن کو ایک لمحہ کے لیےبھی امن نہیں ہوتاکہ مومن ہوکرہاتھ پرہاتھ دھرےبیٹھ جائے بلکہ قرآن کریم   اپنے مومنوں کی تعریف کرتاہےجن کو ہروقت اللہ سبحانہ وتعالی کا خوف لاحق ہوتا ہے جس طرح ارشادفرمایا:

﴿وَٱلَّذِينَ هُم مِّنْ عَذَابِ رَ‌بِّهِم مُّشْفِقُونَ ﴿٢٧﴾ إِنَّ عَذَابَ رَ‌بِّهِمْ غَيْرُ‌ مَأْمُونٍ﴾ (المعارج:٢٧’٢٨)

‘‘وہ مومن جواپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں کیوں کہ ان کے رب کاعذاب مامون(نہ ڈرکیا ہوا)نہیں ہے۔’’

بہرحال مسئلہ زیربحث کے متعلق میں نے اپنے قصورعلم اوربےبضاعتی کے باوجودمکمل  وضاحت کی ہے ۔اگرصواب ہے تواللہ سبحانہ وتعالی کافضل وکرم ہے اوراسی کی رہنمائی کا ثمرہےاگرمیں نے اس میں کوئی غلطی یا خطاکی ہے تو وہ میرے نفس کی خامی اورمیرے ناقص علم کاقصورہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 411

محدث فتویٰ

تبصرے