علماء كرام فرماتے ہیں کہ حدیث میں آیا ہے کہ((من حمل ميتافليتوضاومن غسل فليغتسل))یعنی جومیت کو اٹھائے وہ وضوکرےاورجوغسل دے وہ غسل کرے۔کیا یہ حکم وجوبی ہے استحبانی؟
مندرجہ بالاحدیث سےجواستدلال لیا گیا ہے وہ صحیح نہیں ہےاس لیے کہ مندرجہ بالامسئلہ میں کوئی بھی حدیث پائے ثبوت تک نہیں پہنچتی کیونکہ سب روایات میں علت قادحہ موجود ہے اس لیے میت کےاٹھانے سےنہ وضولازمی ہوتا اورنہ ہی غسل دینے والے پر غسل کیونکہ جو حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
اس حدیث کو امام ابوداودنے اپنی سنن میں(كتاب الجنائز’باب في الغسل من غسل الميت’رقم:٣١٦١)میں ذکرکیا ہے عمروبن عمرکے طریق سےروایت کیا ہے جوکہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اس روایت میں عمروبن عمرمجہول راوی ہے۔
‘‘كمافي التقريب’’اورجہالت شدیدجرح ہے۔كمالايخفي علي ماهرالاصول.
اسی طرح دوسری حدیث جو پیش کی جاتی ہے ۔
اس روایت کو امام الترمذی نے ‘‘الجامع’’(كتاب الجنائز’باب في الغسل من غسل الميت’رقم:933)میں ذکرکیا ہےیہ روایت بھی ضعیف ہے ۔اس لیے کہ اس کی سند میں ایک راوی ہے ابوصالح جس کا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔(کماقال الحافظ فی الفتح)
اس طرح ایک تیسری حدیث جو پیش کی جاتی ہے :
اس حدیث کو امام ابوداودنے اپنی سنن(رقم:3160)میں ذکر کیا ہے لیکن اس کی سندبھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں مصعب بن شیبہ نامی ایک راوی ہے وہ
‘‘لین الحدیث’’ہےاوراس روایت کو امامابوزرعہ امام احمداورامام بخاری رحمہم اللہ نے ضعیف کہا ہے اورامام ابوداوداس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:حديث مصعب ضعيف۔
اس طرح ایک چوتھی روایت پیش کی جاتی ہے :
اس روايت کو ابوداوداورامام نسائی نے اپنی‘‘السنن’’میں ذکرکیا ہے لیکن یہ روایت بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ ا ن کی سند میں ایک راوی اسحاق السبعی ہے وہ مدلس راوی ہے اورروایت کو وہ عن کے ساتھ بیان کررہے ہیں اوراس کی تدلیس مرتبہ ثالثہ آئی ہے اورمرتبہ ثالثہ کے راویوں کہ روایت اس وقت تک قابل قبول نہیں ہے جب تک وہ سماع کی تصریح نہ کردے۔کماقال الحافظ فی طبقات المدلسین.
اورہاں اگرہم اس روایت کو صحیح بھی مان لیں توہوسکتا ہے یہ غسل کا امر کافر اورمشرک کے ساتھ مخصوص ہوکیونکہ قرآن پاک کی نص سےوہ نجس ہیں اوریہ حکم ہرمیت کے لیے نہیں ہے اوراگرہم حدیث کو عام بھی رکھتے ہیں توبھی امر استحبابی ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس کےمقابلہ میں احادیث صحیحہ موجودہیں۔اسی طرح ایک اورروایت امام ابوداودنے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےسہیل بن ابی صالح عن ابیہ عن اسحاق مولی زائدہ کے طریق سے نقل کی ہےاورامام ابوداوداس روایت کے بعد فرماتے ہیں:
((قال ابوداودابوصالح بينه وبين ابى هريرة اسحاق مولى زائده.’’))امابیہقی فرماتے ہیں:‘‘الصحيح انه موقوف’’اورامام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں‘‘اراشبه موقوف’’قال ابوحاتم عن ابيه الصواب عن ابي هريرة موقوف.
اورامام علی بن المدینی اورامام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:‘‘لايصح في هذاالباب شئي’’یہ ہی قول امام ترمذی نے امام بخاری سےنقل کیا ہے۔
اورامام محمدبن یحیی ذہلی فرماتے ہیں:‘‘لاعلم من غسل ميتافليغتسل حديثاثابتاولولزمنااستعماله.’’
امام ابن المنذرفرماتے ہیں:‘‘ليس في الباب حديث يثبت.’’
امام الرافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:‘‘لم يصح علماءالحديث فى هذاالباب شيئامرفوعا.’’
امام ابن دقیق العیدفرماتے ہیں: ‘‘احسنها روايةسهيل عن ابيه عن ابيه هريرة وهي معلولة وان صحجهاابن حبان وابن حزم.’’
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس مسئلہ میں کوئی بھی صحیح روایت نہیں ہےاگرکوئی یہ کہتا ہے کہ اس کے طریق جمع کرنے سےحسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے لیکن ہرجگہ ضعیف حدیث کثرہ طرق کی و جہ سے حسن لغیرہ تک نہیں پہنچتی جس طرح حدیث ‘‘من كان له امام فقراته له قراة.’’اگرہم بھی مان لیں کہ یہ حدیث حسن درجہ کی ہے تب بھی یہ حکم وجوبی نہیں ہے صرف استحبابی ہے کیونکہ ایک حسن سند کے ساتھ روایت ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
‘‘تمہارے اوپر میت کوغسل دینے سے واجب نہیں ہوتابے شک تمہاری میت پاک حالت میں انتقال کرتی ہے وہ ناپاک نہیں ہوتی(غسل دینے کے بعد)تمہاراصرف ہاتھ دھونا ہی کافی ہے۔’’
اسی طرح دوسری حدیث ہے جس کو سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہ سےخطیب بغدادی نے تاریخ بغدادمیں نقل کی ہے اورحافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تلخیص الحبیرمیں کہا ہے۔اسنادہ صحیح۔
‘‘یعنی ہم میت کوغسل دیتے تھےتوہم میں سے کوئی غسل کرتااورکوئی نہیں کرتا تھا۔’’
اسی طرح ایک تیسری روایت سے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ سےمروی ہے:
‘‘یعنی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سیدناابوبکررضی اللہ عنہ کی زوجہ انھوں نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کوغسل دیاجب ان کا انتقال ہواپھرباہرآئی اورمہاجرین موجودتھےان سے استفسارکیا کہ آج شدیدسردی ہے اورمیں روزے سے بھی ہوں کیامیرے اوپر غسل واجب ہے توانھوں نے کہا نہیں۔’’
جملہ دلائل کاخلاصہ یہ ہے کہ غسل کرنامستحب ہے واجب نہیں ہے۔