سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(67)مدفون کا علم

  • 14852
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 896

سوال

(67)مدفون کا علم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب کوئی شخص قبرپرزیارت کے لیے آتا ہے توکیا قبرمیں مدفون شخص کویہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں شخص موجود ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

معلوم ہونا چاہئے کہ عالم برزخ کے معاملات ایسے ہیں جن کے متعلق محض ظن وقیاس کے ذریعے کچھ کہنا نہایت ہی خطرناک اقدام ہے عالم برزخ کےمتعلق اتنا ہی کہا جاسکتا ہےجتنا کتاب وسنت رسول اللہﷺمیں وراد ہواہے۔مزید کہنا محض ٹکل کے تیر پھینکنے کے مترادف ہے چونکہ اس مسئلہ کے متعلق کسی صحیح حدیث میں وارد نہیں ہوالہذا اس کے متعلق قیاس آرائی کرنا قطعا نامناسب اقدام ہے ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ میت واقف شخص کو قبرپرآنے پرپہچانتی ہے۔لیکن ان احادیث کی صحت پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتی اورنہ ہی ان کی اسانیدکوئی قابل استناداورلائق اعتماد ہیں۔لہذا ان کی بنیادپرمسئلہ ہذاکاقائل ہونا مشکل ہے بلکہ سمجھ میں تویہ آتا ہے کہ میت کو کوئی احساس نہیں ہے اورنہ ہی اس کی روح وہاں موجود ہے ۔اس کی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے:

﴿وَمِن وَرَ‌آئِهِم بَرْ‌زَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ﴾ (المومنون: ١٠٠)

‘‘یعنی فوت ہونے والوں کو دنیااوراہل دنیاکے درمیان ایک مضبوط اورناقابل عبور آڑھ آجاتی ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہے گی۔’’

پھراگرمرنے والامرنے کے بعدبھی قبرپرآنے والے کو دیکھتا ہے اوراسےپہچانتا ہےاوراس کی آمد محسوس کرتا ہے یا ان کی آوازسنتا ہے توپھر اس کا اس دنیا سے تعلق ختم نہیں ہوااورنہ ہی اس کے اوردنیا کے درمیان کوئی برزخ حائل ہواہے۔علاوہ ازیں قرآن کریم میں ہے کہ:

﴿وَمَآ أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِى ٱلْقُبُورِ﴾ (فاطر:٢٢)

‘‘یعنی آب اہل قبورکواپنی آوازنہیں سناسکتے۔’’

ان سب آیات کا یہی مطلب ہے کہ ان کا تعلق دنیا سے ختم ہوچکا ہے ۔اورحدیث میں آتا ہے کہ جب میت کو قبرمیں داخل کیا جاتا ہے تو اس کی روح لوٹائی جاتی ہے اوروہ لوگوں کی جوتیوں کی آہٹ سنتا ہے اوراس وقت اس میت سے فرشتے(منکرونکیر)سوال وجواب کرتے ہیں اوراس کے بعد مومن کو کہا جاتا ہے کہ نم كنومة العروسیعنی پھر وہ بالکل بے حس ہوکروہاں سوجاتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اٹھ کھڑا ہوگا۔

اس سے معلوم ہوا کہ اعادہ روح صرف سوال وجواب کے لیے ہوتی ہے نہ کہ ہمیشہ کےلیےحالانکہ اس مسئلہ کاتقاضاہےکہ‘‘میت کی روح ہروقت قبرمیں موجودہوتی ہےاس وجہ سے جب بھی کوئی قبرپرآتاہےتواسےپہچان جاتاہے۔’’اوراسے اس کی موجودگی کا احساس بھی ہوتا ہے ۔لہذا یہ مسئلہ ان واضح دلائل کے برخلاف ہے۔

علاوہ ازیں صحیح حدیث میں واردہواہے کہ آپﷺنے ارشادفرمایاکہ جوشخص میری قبر پرکھڑاہوکرسلام کہتا ہے تو:

((ردالله على روحى حتى أرد عليه السلام.)) رواه ابوداودوالبيهقى واحمدباسنادحسن عن ابى هريرة رضى الله عنه.

 ‘‘یعنی کہ اس وقت اللہ تبارک وتعالی میری روح کولوٹاتاہےتاکہ میں اسے سلام  کا جواب دوں۔’’

اس صحیح حدیث سے واضح طورپرمعلوم ہوتا ہے کہ آپﷺکی روح مبارک بھی

آپﷺکےجسم اطہر میں بھی ہروقت موجود نہیں ہےاورظاہرہےاحساس اورکسی کی آمدوغیرہ کاعلم تب ہی ہوسکتا ہے جب اس کی روح جسم میں موجود ہوکیونکہ حواس روح کےعلاوہ کام کرتے ہیں۔اس کے علاوہ اس عقیدہ کا یہ مطلب ہوا کہ دیگر لوگوں کامقام اتنابلندہے کہ آپ کی روح مبارک توضرورت کے وقت جسم اطہر کی طرف لوٹائی جاتی ہے باقی دیگرلوگوں کو یہ ضرورت نہیں کیونکہ ان کی روح ہروقت موجودہے۔تب ہی وہ محسوس کرلیتے ہیں۔

‘‘فياللعجب وضعة الأدب.’’

لیکن اگرکوئی یہ سوال کرے کہ ممکن ہے کہ جس طرح آپﷺکی قبرمبارک پر سلام پڑھنے کے وقت روح مبارک کا اعادہ ہوتا ہے اسی طرح دیگر لوگوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ  ہوکہ کوئی واقف کارشخص ان کی قبرپرآئے تواللہ تعالی ان کی روح کا اعادہ فرمادیں اوروہ آنے والے شخص کا احساس پائیں اس کا جواب ہے  کہ اول تواس کے لیے قرآن وحدیث سےدلیل پیش کی جائے ۔

کیونیہ آپﷺکا اعادہ روح کی تودلیل موجودہے لیکن دیگرلوگوں کے لیے یہ  کہاں واردہواہےکہ ان کی روح کااعادہ ہوتا ہے؟جب دیگر لوگوں کے لیے کوئی خاص دلیل نہیں تواس بات کا قائل ہونا اللہ تعالی کےدین میں اپنی طرف سے قیاس آرائی نہیں ہوگی؟کیا رجم بالغیب کا مطلب کچھ اورہے؟

اوردوسری بات یہ کہ اس میں سوئے ادبی بھی ہے کیونکہ یہ محض آپﷺکی ذات اقدس کے ساتھ خاص ہے اورآپ ہی پر اللہ تعالی کا اکرام ہے۔پھراگردوسروں کو بھی اس  میں شامل کیاجائے تویہ انتہائی بےادبی ہوگی۔معاذاللہ!

لیکن اگر کہا جائے کہ روح کا اعادہ نہ ہی ہوتا ہولیکن ممکن ہے کہ روح کاجسم کے ساتھ کوئی تعلق قائم ہوسکتا ہے ۔مثلا ریڈیو اوراس کی  آوازکےساتھ تعلق ہے یعنی مقررکسی دوسری دوردرازجگہ پر ہے مگر آوازکا ریڈیو کی مشین کے ساتھ ایساتعلق ہے جو کہ فوراسنائی دینے میں معاون ہوتا ہے اس طرح کی اورمثالوں کی طرح جسم کے ساتھ روح کا کوئی تعلق ہوسکتا ہے،

گوقبرمیں اس کا اعادہ نہ بھی ہولیکن اس تعلق کے سبب وہ میت قبرپر واردہونے والے شخص کااحساس کرلیتی ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس بات کو ہر شخص تسلیم کرتا ہے کہ رسول اکرمﷺکی پاک اورمبارک روح کا جو تعلق آپ کے جسداطہرکے ساتھ ہے وہ کسی اورکے لیے نہیں ہوسکتا جب کہ جواب دینے کے لیے آپ کے لیے اعادہ روح کی ضرورت ہےتودوسروں کی ارواح اس مقام پر کیسے فائز ہوگئیں کہ انہیں اپنے مستقرومقام میں آنے والےشخص کااحساس ہوجائے ۔وهذاظاهرالبطلان!

بہرحال میت کی قبرپرآنے والے کو پہچاننایااس کے آنے کی خبرمعلوم ہونایہ بات قطعاغلط ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ راشدیہ

صفحہ نمبر 385

محدث فتویٰ

تبصرے