ہمارے ہاں مروج ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہوجاتا ہے تواس کے ورثاءاوردوست وغیرہ تعزیت کے لیے آتے رہتے ہیں اوریہ سلسلہ آہستہ آہستہ کئی ماہ تک چلتا رہتا ہے اس لیے لوگ وقت بچانے کی خاطرتین دنوں کے بعدشادی کی طرح دعوت نامے بھیج دیتے ہیں اورکسی خاص مقررہ وقت کھانے کا انتظام کرتے ہیں اورتعزیت کے لیے آنے والے لوگ اس وقت جمع ہوکرکھاناوٖغیرہ تناول کرنے کے بعدکچھ رقم بھی انہیں دے دیتے ہیں اس طرح کرنا کیسا ہے؟اصل میں اس طرح کرنے سے وقت بھی بچ جاتا ہے اورایک ہی وقت میں میت کے ورثاء فراغت پالیتے ہیں ایک مولوی صاحب کہتا ہے کہ یہ ناجائز ہے آپ تفصیل سےبیان کریں کہ کیا واقعتایہ بات درست ہے؟
معلوم ہونا چاہئے مرنے والے کے پیچھے طعام وغیرہ پکاکرکھلانا یا گھرگھراسےتقسیم کرنا جیسا کہ سوال میں مذکورہے یہ بلاشبہ حرام اورناجائز ہے۔اس کے علاوہ اس غم اورپریشانی کے موقع پر شادی کی طرح رسوم ورواج کاانعقادبھی ناجائز ہےکیونکہ احادیث نبویہﷺیاسلف یاخلف سےایساکوئی رواج منقول نہیں۔
اس لیے اسے ضروری سمجھنا اوراس کے بعداس کا انعقادکرنا بدعت ہے اوراس کی دعوت عام کرنا بھی غیردرست ہے کیونکہ ایسی دعوت شادی اورخوشی کے موقعہ پر مشروع ہے نہ کہ غمی کے موقعہ پر بلکہ غمی کے موقعہ پر اس طرح کے طعام کے تیارکرنے سے رسول اکرمﷺنے منع فرمایاہے۔
دونوں حدیثوں کاخلاصہ یہ ہے کہ فخروریاءاورنام کمانے کے لیے طعام کھلانے کےلیے دعوت دی جائے توایسےشخص کی قبول نہ کی جائے۔
مثقی الاخبارمیں ہے:
یعنی جریربن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اہل میت کی طرف لوگوں کو جمع ہونے اورمیت کے دفن کرنے کے بعدطعام تیارکرنے نوحہ شمارکرتےتھے۔’’
فتح القدیرمیں ہے:
‘‘یعنی اہل میت کی طرف سے طعام تیارکرنابہت قبیح بدعت ہے کیونکہ طعام تیارکرکے لوگوں کو جمع کرکے انہیں کھلاناخوشی کے موقع پر مشروع ہے نہ کہ دکھ اورپریشانی اورغمی کے موقع پر۔’’
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اہل میت کے ہاں اس طرح کے طعام تیارکرنےکی استطاعت نہیں ہوتی پھربھی وہ لوگوں کے طعنوں سے بچنے کے لیے قرضہ لےکربھی کھانے کا اہتمام کرتے ہیں یا کچھ لوگ یتیموں کا مال(اہل میت کے ورثاء جو ابھی بلوغت کو نہیں پہنچےناجائز طریقے سے ضائع کرتے ہیں۔حالانکہ مال الیتیم ظلم سےکھانا حرام ہے:
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
‘‘یعنی بے شک جولوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں وہ لوگ حقیقت میں اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ ڈالتے ہیں اوروہ عنقریب جہنم میں داخل ہوجائیں گے۔’’
حاصل مطب یہ ہے کہ یہ ایک غلط رسم ہے اورناجائز ہے۔