نمازتراویح سنت گیارہ رکعت ہیں لیکن اگرکوئی گیارہ سےزیادہ پڑھناچاہے توکیا یہ جائز ہے؟
نفلی عبادات میں اللہ رب العزت نے کوئی تعداد یا قید مقررنہیں فرمائی ہے،فرمان الہی ہے:
امام بخاری رحمہ اللہ نےاپنی صحیح میں سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےایک روایت نقل فرمائی ہےکہ رسول اللہﷺنےفرمایا:
‘‘اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:جومیرےکسی ولی کوتکلیف دےتومیں اس کےخلاف اعلان جنگ کرتاہوں،اورنہیں قرب حاصل کرتاہےمیرابندہ میری طرف مگرمیرےفرض کیےہوئےپرعمل کرکے،اورجوبندہ نوافل کےذریعےمیری قربت کےحصول کی کوشش کرتارہتاہےتومیں اس سےمحبت کرنےلگتاہوں،تومیں اس کاکان،آنکھ اورہاتھ اورپاؤں بن جاتاہوں کہ جن سےوہ سنتاہے،دیکھتاہےپکڑتاہےاورچلتاہےاگروہ مجھ سےکچھ مانگےتومیں اسےضروردوں اگرپناہ مانگےتوپناہ دوں۔’’
نبی کریمﷺنےنوافل کی کوئی حدبیان نہیں فرمائی،صحیح حدیث میں ہے:
‘‘ایک شخص نےنبیﷺسےسوال کیااسلام کےبارےمیں توآپﷺنےاسےبتایاکہ دن اوررات میں پانچ نمازیں ہیں،پوچھا:کیااوربھی کچھ ہے؟فرمایانہیں اگرتونفلی پڑھے،پھرآپ نےفرمایارمضان کےروزےفرض ہیں توپھروہ پوچھنےلگاان کےعلاوہ اوربھی ہیں؟فرمایانہیں لیکن اگرنفلی رکھےتوتیری مرضی۔پھرآپ نےزکوٰۃکےبارےمیں بتایاتوپھراس نےپوچھاکہ کیااس کےعلاوہ بھی کچھ ہےفرمایانہیں،مگرتونفلی اداکرےتوتیری مرضی۔تووہ آدمی جانےلگااورکہنےلگاکہ اللہ کی قسم!نہ میں اس سےزیادہ کروں گااورنہ اس سےکم توآپﷺنےفرمایا:کامیاب ہوگیااگراس نےسچ کہا۔’’
اس حدیث میں بھی آپﷺنےنفلی عبادت کی کوئی حدبیان نہیں فرمائی،یہ توعبادت کرنےوالےپرمنحصرہےکہ وہ کتنی نفلی عبادت کرسکتاہےاورکئی دفعہ انسان کوشش کرتاہےکہ مٰں خوش نفس کی رغبت اورللہیت اورمناجات الہٰیہ کےلیےنفلی عبادت کروں اوراس کامطمع نظرصرف تقرب الہٰی ہوتاہےتواسےچاہیےکہ وہ نفلی عبادت کرےلیکن اس میں اتنےافراط سےکام نہ لےکہ سستی تھکاوٹ،کج روی اس کامقدربن جائےاورفرائض سےبھی وہ غافل ہوجائے۔
جب نفلی عبادت کرنےوالاان شروط کاخیال رکھےتوپھروہ جتنی چاہےنفلی عبادت کرےکوئی قباحت نہیں،ہاں جب خاص نمازتراویح کی بات ہوتوبلاشک یہ مسنون ثابت شدہ صرف گیارہ رکعت ہیں،ان کےاوپراضافہ کرنامحض نفلی عبادت مٰں اضافہ کرناہے،تراویح گیارہ رکعت ہی ہیں اورنفلی نمازکاحکم بیان ہوچکاہے،اگرنفل کی نیت سےمسنون رکعات پراضافہ کیاجائےتوہمارےنزدیک یہ اس صورت میں جائزہےکہ ان زوائدکوفرائض واجبات لوازم یاسنن موکدات نہ سمجھےاورجوان زوائدکوادانہ کرےتوانہیں برایامجروح نہ سمجھےاورجوان زوائدکوفرائض وواجبات یاسنن موکدات سےسمجھےاوران کےتارک کومجروح سمجھےگاتووہ اللہ کی حدودسےتجاوزکرنےوالاہوگااورجواللہ کی حدودسےتجاوزکرےوہی ظالم ہیں،اس صورت میں اس کی یہ نفل عبادت قرب الہٰی کاذریعہ نہیں ہوگی بلکہ یہ بدعت سیئہ ہوگی جوکسی بھی حال میں مستحسن نہیں ہے۔اوریہ بھی ٹھیک کہ جولوگ٢۰رکعات اداکرتےتھے،عہدعمررضی اللہ عنہ میں جیساکہ سنن الکبریٰ بیہقی میں ہےجس کی سندبھی جیدہے،بلکہ بعض تو٢۰سےبھی زیادہ اداکرتےتھے،اگرچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نےگیارہ رکعات باجماعت اداکرنےکاحکم دیاتھالیکن ان پرمستزادسےبھی منع کیاتوہمارےنزدیک حق بات یہی ہےکہ سنت مسنونہ ثابتہ سےنمازتراویح گیارہ رکعت ہی ہیں لیکن اگرنفل کی نیت سےزیادہ پڑھ لی جائیں توجائزہے۔